کامیابی کے لیے ’وسائل‘ سے زیادہ ’محنت‘ ضروری ہے

اہم بات یہ کہ بچوں کو محض پیسہ، سہولیات اور لاڈ ہی نہیں چاہیے بلکہ والدین کی جانب سے ہر وقت توجہ بھی درکار ہوتی ہے۔

اِن نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ بات طے ہے کہ نتائج کا انحصار محض سہولیات پر نہیں ہوتا بلکہ اساتذہ کرام کی لگن اور طلبہ و طالبات کی محنت ہی کامیابیوں کی راہیں متعین کرتی ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

راجہ ممتاز حسین راٹھور مرحوم آزاد کشمیر کے وزیراعظم تھے، تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے انہوں نے ایک مرتبہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے میں خطاب کیا، وہاں موجود میڈیا نمائندے اُن کے خطاب سے خوب متاثر ہوئے۔ اِنہی متاثر ہونے والے صحافیوں میں سے ایک نے راٹھور صاحب سے پوچھا کہ آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟ ممتاز راٹھور نے اُسے تین لفظوں میں جواب دیا، آئی ایم ٹاٹین (میں ٹاٹ اسکول سے پڑھا ہوا ہوں)۔

یوں تو اُن کا جواب ایک معمول کا ہی جواب تھا لیکن ہمارے لئے اِس میں ایک بہت بڑا سبق پنہاں ہے، اور وہ سبق یہ کہ کامیابی کے لئے اچھے تعلیمی ادارے، سازگار ماحول اور سہولیات ناگزیر نہیں بلکہ اگر انسان میں محنت، لگن، جستجو اور کام سے محبت کا جذبہ ہو تو تمام تر مشکل حالات کے باوجود بھی وہ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے۔

گزشتہ روز پنجاب میں میٹرک کے نتائج کا اعلان ہوا، جس میں طلبہ وطالبات نے شاندار نتائج حاصل کرکے کارنامہ سرانجام دیا لیکن اِن نتائج میں سب سے اہم بات غریب اور حالات سے مجبور والدین کے بچوں کے نتائج ہیں جنہوں نے تمام تر مشکل حالات کے باوجود امتحانی بورڈز میں اول پوزیشنز حاصل کرکے تاریخ رقم کردی۔ یہ کارکردگی جہاں اُن کے محنتی اساتذہ کی کارکردگی کا ثمر ہے وہیں اُن کی ذاتی کاوشوں اور والدین کی محنتوں کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔

اب لاہور ہی کو لے لیں جہاں آرٹس گروپ میں اول آنے والا طالب علم اُسامہ ایک محنت کش ہے جو لنڈا بازار شیخوپورہ میں ریڑھی لگا کر اپنے خاندان کی پرورش بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اِسی بورڈ میں دوم آنے والا طالب علم غضنفر ہے جس کا باپ ایک مزدور ہے۔ یہی نہیں بلکہ لاہور بورڈ میں تیسری پوزیشن لینے والے طالب علم محمد افضل کے والد بھی ایک رکشہ ڈرائیور ہیں جو رکشہ چلا کر اپنے خاندان کی پرورش کررہے ہیں۔ ملتان بورڈ سے اول پوزیشن کا تاج طالبہ حفظہ رمضان کے سر سجا جس کا والد ایک دیہاڑی دار مزدور ہے۔ حفظہ نے جہاں اپنی محنت و لگن سے کامیابی سمیٹی وہیں اپنی پوزیشن کو اپنے والد کے نام کردیا۔ فیصل آباد بورڈ کے امتحانات میں ایک ڈرائیور کے بیٹے حافظ محمد زید نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اِسی طرح بہترین نمبر اور اعلیٰ نتائج میں پنجاب اور آزاد کشمیر کے سرکاری تعلیمی اداروں کے غریب اور متوسط طبقے کے طلبہ وطالبات سرِ فہرست رہے۔

اِن نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ بات طے ہے کہ نتائج کا انحصار محض سہولیات پر نہیں ہوتا بلکہ اساتذہ کرام کی لگن اور طلبہ و طالبات کی محنت ہی کامیابیوں کی راہیں متعین کرتی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے اور نجی سیکٹر کی اجارہ داری پیسے کا حصول تو ہوسکتی ہے مگر اِنہیں کامیابی کی ضمانت ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دوسری اہم بات والدین کی جانب سے بچوں کو توجہ اور اُن کی حوصلہ افزائی بھی اچھی کارکردگی کا مظہر ہے۔ بچوں کو محض پیسہ، سہولیات اور لاڈ ہی نہیں چاہیے بلکہ والدین کی جانب سے ہر وقت توجہ بھی درکار ہوتی ہے۔


گزشتہ روز نتائج کے حوالے سے پریس کلب میں کچھ صحافی دوستوں کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ اُن کے مطابق ملک کے سرکاری تعلیمی اداروں میں گو چار دیواری اور چھت نہیں مگر یہاں پڑھانے والے اساتذہ کرام اپنی محنت اور فرائض کی بجا آوری میں کسی بھی قسم کی کوتاہی نہیں برت رہے بلکہ دیانت داری کے ساتھ اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔ جہاں تک اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نتائج کا تعلق ہے تو یہ دولت کمانے کی فیکٹریاں ہیں مگر پھر بھی یہاں پر اساتذہ کرام کی محنت بہرحال موجود ہوتی ہے۔ جن افراد کے بچے اِن مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں وہ محض اپنے بچوں کی فیس ادا کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا فرض ادا ہوگیا۔ وہ اِس بات پر بالکل توجہ نہیں دیتے کے اسکول یا گھر میں اُن کے بچے کیا کام کررہے ہیں؟ ایسے والدین بچوں کی خواہش پر اُن کو مہنگے ترین موبائل فون تو دے دیتے ہیں مگر اُس فون کے استعمال کے حوالے سے بچوں پر دھیان نہیں دیتے۔ اِسی وجہ سے اُن بچوں کی کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں ہے۔

صحافی دوستوں کا خیال تھا کہ سوشل میڈیا اور موبائل فون نے متوسط اور امیر طبقے کے بچوں کی تعلیمی کارکردگی کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ بہرحال اِس بات میں کس حد تک صداقت ہے اِس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ کسی نہ کسی حد تک سوشل میڈیا اور موبائل فون کا بے دریغ استعمال بچوں کے نتائج پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔

یاد رکھیے! حالیہ نتائج جہاں سرکاری تعلیمی اداروں کے لئے نیک شگون اور اُن کی نمایاں کارکردگی کی علامت ہیں وہیں نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبا و طالبات کے والدین کے لئے بھی ایک لمحہ فکریہ ہیں کہ آخر اُن کے بچے پیچھے کیوں رہے؟

[poll id="1399"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
Load Next Story