لاکھوں میں ایک مصطفی قریشی

مصطفیٰ قریشی یوں بھی خوش نصیب ٹھہرے کہ انھیں پہلی ہی فلم میں رضا میر جیسا لیجنڈ ہدایتکار مل گیا

آج سیاست نہیں، پاناما نے ہلچل مچا رکھی ہے، ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔ آج بات ہوگی عجب زیست پا پیادہ تھی، مگر دھوپ سے چھاؤں زیادہ تھی۔

مجھے خوب یاد ہے یہ 1963ء تھا۔ میں اس وقت نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ لاہور میں ہمارے عزیزوں کے ہاں شادی کا ہنگامہ بپا تھا، قریب کے شہروں سے رشتے دار آئے ہوئے تھے، خوب رونق لگی ہوئی تھی، گرمیوں کے دن تھے، دن بھر نیچے گزار کر سب عورتیں، مرد، لڑکے، لڑکیاں چھت پر آجاتے تھے۔ چھت کے ایک حصے میں عورتیں بیٹھ جاتیں اور دوسرے حصے میں مرد۔ گرمیوں کی راتیں عموماً لوگ جاگ کر گزارتے تھے۔ چھت پر چارپائیاں بچھی ہوئی ہوتیں اور آپس میں باتیں ہورہی ہوتیں۔

9بجے ریڈیو سے فلمی گانوں کا فرمائشی پروگرام نشر ہوا کرتا تھا اور ہر پروگرام میں میڈم نورجہاں کا گایا ہوا یہ گیت ضرور نشر ہوتا تھا۔ جس کا مکھڑا تھا ''چلو اچھا ہوا تم بھول گئے۔ اک بھول ہی تھا میرا پیار، ہو ساجنا''۔ یہ گیت فلم ''لاکھوں میں ایک'' کا تھا اور اس لازوال گیت کے موسیقار تھے نثار بزمی۔ یہیں میں ایک اور بات بھی لکھتا چلوں کہ موسیقار نثار بزمی شاعر بھی تھے، مگر انھوں نے شاعری کو محض اپنی ذات تک ہی محدود رکھا اور اپنی پوری توجہ، اپنی تمام تر صلاحیتوں کا محور موسیقی ہی کو بنائے رکھا۔ یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میں قارئین کو یہ بات بتاؤں کہ مذکورہ بالا گیت کا مکھڑا (جسے موسیقی کی زبان میں استہائی بھی کہتے ہیں) اپنے زمانے کے مقبول ترین گانے کی استہائی کے شاعر نثار بزمی خود تھے اور باقی گانا قتیل شفائی نے لکھا تھا۔ بس ایک فقرہ اور لکھنے کی اجازت چاہوںگا کہ رات نو بجے فرمائشی پروگرام میں جب یہ گیت نشر ہوتا تو چھتوں کی منڈیروں پر لڑکیوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے اور گلی سے گزرنے والے بھی رک جاتے۔

یہ تھا 1963ء کا زمانہ، کیا لاہور، کیا پشاور، کیا حیدرآباد، کیا کراچی، کیا کوئٹہ اور ادھر ڈھاکا، چاٹگام، سب جگہ غریب بستیاں اپنی خوشیوں اور غموںکے ساتھ زندگی کا ساتھ نبھاتے چلے جاتی تھیں۔ ایسا عذاب ناک دور نہیں تھا، جو آج ہے۔

تو اس سکون والے دور میں فلم ''لاکھوں میں ایک'' ریلیز ہوئی، فلم نگر کے بڑے بڑے نام اس شاہکار فلم کے ساتھ منسلک تھے مگر ایک نام بالکل نیا ان نامور ستاروں کے ساتھ پہلی بار شامل کیا گیا تھا اور فلم کے اداکاروں کے برابر اس نئے اداکار کو بھی اہمیت دی گئی تھی۔ تنگ موری کا سفید پاجامہ، سفید کرتا، کاندھے پر خوبصورت شال، بڑی بڑی آنکھیں، گھنی بھنویں، کشادہ پیشانی، نکلتا ہوا قد اور پورے جاہ و جلال سے گھوڑے پر سوار، یہ تھے مصطفیٰ قریشی۔ فلم ''لاکھوں میں ایک'' میں ان کا کردار ولن کا تھا۔ ظلم، سفاکی، قتل و غارت گری، مصطفی قریشی تادیر ایسے ہی کردار ادا کرتے رہے، جب کہ حقیقی زندگی میں وہ اس قدر نرم خو انسان ہیں کہ کسی کو سوئی بھی چبھ جائے تو تڑپ جاتے ہیں۔ قدرت نے ان کے اندر یہ معجزہ بھی رکھ دیا تھا، بقول قتیل شفائی:

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے

کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

صوفیا کی دھرتی، فقیروں، درویشوں کا مسکن، لعل شہباز قلندر، شاہ عنایت، شاہ لطیف، سچل سائیں کے سندھ کی مٹی کا خمیر، الغوزہ، نواز خمیسو خان، مائی بھاگی، محمد جمن، عابدہ پروین اور فقیروں کا شاہ لطیف کے کلام سے دن کا آغاز، دریائے سندھ کا محبت سے لبالب تاریخی بہاؤ، ان عوامل نے اہل سندھ کو انسانیت کے قدموں میںجھکاؤ، دونوں ہاتھ جوڑ کر عجز و انکساری کا اظہار۔ مصطفیٰ قریشی سندھ دھرتی کی تہذیب کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ مجھے یاد ہے وہ ذرا ذرا، ٹیلی ویژن کی اسکرین پر مصطفیٰ قریشی بڑے فخر سے بتا رہے تھے ''میر رسول بخش تالپور، حیدرآباد کے ریڑھی بانوں کی تنظیم کے صدر ہوتے تھے۔

(گو میر صاحب ایک دولت مند گھرانے کے فرد تھے، مگر ان کا دل ''انسانوں'' کے ساتھ دھڑکتا تھا، ''حیوانوں'' سے ان کا کبھی تعلق نہیں رہا) جب بھی حیدرآباد کے تانگے والے، ریڑھی والے اپنے مطالبات کے حق میں سڑک پر نکلتے اور ان کے صدر میر رسول بخش تالپور جلوس کی قیادت کرتے تو نوجوان مصطفیٰ بھی ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ رسول بخش تالپور، تانگے میں سوار ہوتے اور مصطفیٰ قریشی ان کے تانگے کے ساتھ ساتھ سڑک پر بھاگتا تھا۔ ایسا ہی واقعہ ایک بار یوں ہوا کہ حبیب جالبؔ حیدرآباد آئے ہوئے تھے۔ حیدر بخش جتوئی (ہاری رہنما) کی یاد میں جلسہ تھا۔


میر رسول بخش تالپور اور حبیب جالبؔ ایک کھلے ریڑھے پر سوار تھے اور نوجوان مصطفیٰ قریشی ان کے ریڑھے کے ساتھ ساتھ سڑک پر تھا۔ کمزور دل و دماغ اور کردار کے لوگ ایسی باتیں چھپاتے ہیں، مگر مصطفیٰ قریشی مضبوط دل و دماغ اور کردار والا ہے، اسی لیے وہ یہ باتیں ٹیلی ویژن کی اسکرین پر کر رہا تھا اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہا تھا۔ مصطفیٰ قریشی کو گھر میں بھی اچھا ماحول ملا، نماز، قرآن، اﷲ اور اﷲ کے محبوب کا ذکر، گھر سے باہر شعر و ادب کا ماحول ملا، اختر انصاری اکبر آبادی، حمایت علی شاعر، محسن بھوپالی، اداکار ساقی، محمد علی، قربان جیلانی ودیگر اور پھر یہی ماحول انھیں حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن لے آیا۔ یہیں ان کی ملاقات روبینہ سے ہوئی۔ وہ کہتے ہیں ناں ''کبوتر با کتوبر، باز بہ باز'' گلوکارہ روبینہ بھی انھی رنگوں میں رنگی ہوئی تھی جو رنگ مصطفیٰ قریشی کے تھے، گلوکارہ روبینہ صوفیا کا کلام گاتی تھیں اور خوب ڈوب کر گاتی تھیں اور پھر ایک جیسے رنگ آپس میں مل کر دو گنا ہوگئے۔

مصطفیٰ قریشی یوں بھی خوش نصیب ٹھہرے کہ انھیں پہلی ہی فلم میں رضا میر جیسا لیجنڈ ہدایتکار مل گیا۔ انھوں نے مصطفیٰ قریشی سے خوب کام لیا۔ مصطفیٰ قریشی کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو رضا میر باہر لے آئے اور پھر یوں ہوا کہ مصطفیٰ قریشی آگے ہی بڑھتے گئے۔ حتیٰ کہ مولا جٹ سے ملاقات ہوگئی۔ صاحب اسلوب اداکار سلطان راہی، گھن گرج والا سلطان راہی فلم مولا جٹ کا مولاجٹ تھا اور سامنے بھی مولا جٹ کو سوا سیر بن کر ٹکرنے والا ''نوری نت''، ''سیر کو سوا سیر'' یہی فلم مولاجٹ کا کمال تھا، یہی حسن تھا، فلم کے ہدایت کار کی توقعات سے کہیں زیادہ ان دونوں کرداروں نے کر دکھایا۔ ایک طرف مولاجٹ کا غیظ و غضب میں دھاڑنا اور دوسری طرف نوری نت کا پرسکون اور دھیما لہجہ دو مکالمے دیکھیے۔

مولاجٹ: ''اوئے مولے نوں مولا نہ مارے تے کوئی ہور نئیں مار سکدا'' (اونچی آواز)

نوری نت: ''نانانا میں تینوں ماراں گا نئیں، تیریاں لتاں (ٹانگیں) توڑاںگا۔ فیر توں بیساکھیاں نال چلیںگا تے میں تیری بیساکھیاں کی آواز ٹِک ٹِک سنڑا (سنوں) گا (دھیما لہجہ)

یا پھر پولیس اسٹیشن کا یہ منظر:

پولیس انسپکٹر (تھانہ انچارج): اوئے نوری نت! ایٹھے تے بڑے بڑے بدمعاش بدمعاشی بھل جاندے نئیں

نوری نت: نواں آیا ایں سوہنڑیاں

اور پھر نوری نت کا یہ مکالمہ ضرب المثل بن گیا ''نواں آیا ایں سوہنڑیاں'' پھر بھی مصطفیٰ قریشی یہی کہا کرتے تھے ''سلطان راہی صاحب مکمل سوٹ ہیں، میں تو محض ٹائی ہوں''۔

فقیر منش، مصطفیٰ قریش، حبیب جالبؔ سے بہت پیارکرتے تھے، ان کے کردار سے بہت متاثر تھے۔ ریاض شاہد، علاؤ الدین، طالش، خلیل قیصر، سب جاچکے تھے، ان کے بعد فلم نگر میں مصطفیٰ قریشی ہی تھے کہ جنھوں نے حبیب جالبؔ کی آخری دم تک خدمت کی، ان کے مونس وغم خوار بن کے رہے۔ حتیٰ کہ حبیب جالبؔ کو قبر میں اتارنے والے چند ہاتھوں میں مصطفیٰ قریشی کے ہاتھ بھی شامل تھے۔

حبیب جالبؔ بھی مصطفیٰ قریشی کو بہت عزت دیتے تھے۔ فقیر منش میاں بیوی مصطفیٰ قریشی اور روبینہ قریشی شیخ زید اسپتال لاہور میں اکثر ان کی عیادت کے لیے آتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھائی حبیب جالبؔ کو کرائم ویل اسپتال لندن بھیجا جارہا تھا (جالبؔ صاحب کو حکومت نے نہیں بھیجا تھا) تو لاہور ایئرپورٹ پر انھیں رخصت کرنے کے لیے مصطفیٰ قریشی موجود تھے۔ میں بھی وہیں موجود تھا، حبیب جالبؔ ایمبولینس میں لیٹے ہوئے تھے۔ قریب ہی مصطفیٰ قریشی بیٹھے تھے اور بھائی جالبؔ ان سے کہہ رہے تھے ''بھئی مصطفیٰ مجھے رخصت کرکے جانا'' اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ مصطفیٰ قریشی نے حبیب جالبؔ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تھا ''بھائی جالبؔ! میں آپ کے پاس ہی ہوں، میں کہیں نہیں جارہا'' اور مجھے یقین ہے کہ آج مصطفیٰ قریشی حبیب جالبؔ کے ساتھ ہیں۔ مصطفیٰ قریشی بھی حبیب جالبؔ کی خواہش کے مطابق اپنے وطن پاکستان کو حقیقی معنی میں ''پاک ستان'' دیکھنا چاہتے تھے، تمام ''ناپاک'' اجزا سے پاک ''پاکستان''۔
Load Next Story