عابد حسن منٹو کا خواب
حکومت کی نظر کرم اور قرضوں کی منتظر رہتی ہے
1972ء میں میر غوث بخش بزنجو اور معروف دانشور اور ماہر تعلیم پروفیسرکرار حسین کو لے کر بلوچستان چلے گئے اور انھیں بلوچستان یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقررکیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے اُن سے شکایت کی کہ آپ ہمارے آدمی کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ میرغوث بخش بزنجو جس شخص کو اپنے ساتھ بلوچستان لے کر گئے تھے اس نے سندھ سے لے کر بلوچستان تک علم و ادب کے ان گنت چراغ روشن کیے۔ پاکستانی سیاست میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے روشن خیالی کا ہاتھ تھامنے والے تاج حیدر کا تعلق بھی پروفیسر کرار حسین ہی کے گھر سے ہے۔
جنگل میں رہ کر شیر سے دشمنی مول لینا کوئی آسان کام نہیں، مگر ایک ایسی پارٹی میں رہ کر جاگیر داری نظام کی مخالفت کرنا جس کا تعلق پاکستان کے ایک بڑے جاگیردار گھرانے کے ساتھ جڑا ہو شیرکی دشمنی سے بھی کہیں زیادہ مشکل کام ہے جو تاج حیدر پچھلے کئی برسوں سے بالکل اسی طرح کرتے چلے آ رہے ہیں جیسے ماضی میں شیخ محمد رشید نے اس پارٹی میں رہتے ہوئے کیا تھا۔ ایوب خان کے بعد پیپلز پارٹی کے دور میں جب زرعی اصلاحات ہوئیں تو ان میں شیخ محمد رشید جیسے با عمل سیاسی رہنماؤں کا بھی ہاتھ تھا جنھوں نے سماجی تبدیلی کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے1967ء کو پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیارکی تھی، مگر اس سے قبل ہی وہ ''عوامی جمہوری پارٹی'' کے پلیٹ فارم سے کسانوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے '' پاکستان کسان کمیٹی'' کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھ چکے تھے۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں23 مارچ 1970ء کو منعقد ہونے والی وہ تاریخی کسان کا نفرنس جس میں مغربی اور مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مزدوروں، کسانوں اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، مولانا عبدالحمید بھاشانی کے پرجوش استقبال اور انقلابی تقریرکے لیے بھی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان نہ کسی ایوب خان نے بنایا ہے نہ ان کے افسروں نے۔ پاکستان کو تو عوام نے بنایا ہے، اپنے لیے بنایا، خدا کے نام پر بنایا۔ اسی لیے عوام ہی پاکستان کے مالک ہیں۔ مولانا نے عوام کی خوشحالی کے لیے زرعی اصلاحات کا جوخواب دیکھا تھا وہ پورے پاکستان کے لیے تھا، لیکن اس کی تعبیر مشرقی پاکستان تک ہی محدود رہی۔
یہاں کے باسیوں کو اس کی تعبیر ملنے سے پہلے ہی وہ روٹھ کر ڈھاکہ چلے گئے یا انھیں وہاں جانے پر مجبورکردیا گیا تھا اور ہم اب تک اس خواب کی تعبیر کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر کے لیے '' عوامی ورکرز پارٹی'' نے معروف قانون دان اور دانشور عابد حسن منٹو کی قیادت میں ایک دفعہ پھر نئے ولولے کے ساتھ قانونی جنگ لڑنے کی ابتدا کی، مگر ملک کے 80% غریب طبقے کو یہ بھی معلوم نہیں کہ زرعی اصلاحات کسے کہتے ہیں، یہ کب کب ہوئیں۔ ان پر عمل بھی ہوا یا نہیں! ہزاروں ایکڑ زمین کے مالکان ہی ہماری قسمت کا فیصلہ کیوں کرتے ہیں اورچند خاندانوں میں اتنی زیادہ زمین تقسیم کرنے والے کون تھے؟ کچھ خاندانوں کے پاس اتنی زیادہ زمین کیوں ہے اورکچھ جھونپڑیوں میں کیوں رہ رہے ہیں؟
ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے اور عام آدمی کو زرعی اصلاحات کی جدوجہد میں شامل کرنے کے لیے''عوامی ورکرز پارٹی'' نے ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس میں مہمان کی حیثیت سے تاج حیدر بھی تشریف لائے۔ جس شہر میں ایک معمولی سرکاری افسرکے لیے ہوٹر بجاتی بے رحم گاڑیاں اور اسلحے سے لیس درجن بھر گارڈ موجود ہوں اُس کے فٹ پاتھ پر اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ بغیر کسی حفاظتی دستے کے پیدل چلتا ہوا سیمینار میں آنے ولا سینیٹر تاج حیدر بھی ملک کے جاگیر دار طبقے اور زرعی اصلاحات کے بارے میں بالکل ویسے ہی خیالات رکھتا ہے جیسے بائیں بازو کے سیاسی کارکن اپنے ذہن میں رکھتے ہیں۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں جاگیر داری نظام کو برقرار رکھنے کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ سے یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ زرعی اصلاحات غیر اسلامی ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف عابد حسن منٹو 2013ء میں ایک پٹیشن داخل کر چکے ہیں، مگر ابھی تک اس پر کوئی کارروائی اس لیے آگے نہ بڑھ سکی کہ عدالتوں کے پاس اس کیس کو آگے بڑھانے کا وقت ہی نہیں۔ اس سیمینار میں جہاں پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل اور معروف قانون دان اختر حسین ایڈوکیٹ نے زرعی اصلاحات کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا وہاں ڈاکٹر توصیف احمد خان نے اپنی تعارفی گفتگو میں اس کے تاریخی پس منظر پر انتہائی مدلل انداز میں روشنی ڈالی۔ دوسرے مقررین کی گفتگو میں اس کے سیاسی پس منظر اور ملک میں جاگیردارانہ سیاست پر بھی بات کی گئی۔ اپر اور لوئر سندھ کی زمینوں کے مالکان کا بھی ذکر ہوا اور سیاست کی بساط پر چالیں چلنے والے ان مہروں کو بھی بے نقاب کیا گیا جنھیں آدھی صدی سے بھی زیادہ مدت گزرنے کے باوجود مات نہ دی جا سکی۔
سکہ بند جاگیرداروں کے ساتھ ان چھوٹے جاگیرداروں کی بھی بات ہوئی جن کی اراضی پنجاب کے بارانی علاقوں میں حکومت کی نظر کرم اور قرضوں کی منتظر رہتی ہے اور سندھ کے ان وڈیروں کا بھی ذکر ہوا جن کے ہاں کئی کسان اپنے پورے خاندان کے ساتھ زندگی بھر ملازم رہے، مگر جدید مشینری اور زرعی سہولتوں کے باعث انھیں بے دخل کر دیا گیا۔ ان ہاریوں کا بھی ذکر ہوا جنھیں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے وڈیروں کی نجی جیلوں سے آزادی تو دلوا دی، مگر چند برسوں کے بعد ہی ان کی زندگی نجی جیل میں برداشت کی جانے والی اذیتوں سے بھی بد تر ہوگئی۔ عوامی ورکر پارٹی نے جس موضوع پر اس سیمینار کا اہتمام کیا اس پر 2011ء میں برطانیہ کے ایک فلاحی ادارے ''آکسفیم'' نے بھی دو دن کے سیمینار کا اہتمام کیا تھا جس میں جاری کیا جانے والا چارٹر آف ڈیمانڈ بارہ مطالبات پر مشتمل تھا اور اس میں زرعی صلاحات کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔ پچھلے تین چار برسوں کے دوران سست روی سے اور اب جس تسلسل کے ساتھ زرعی اصلاحات کو موضوع بحث بنایا جا رہا ہے اس میں مزید تیزی کی ضرورت ہے تا کہ کسانوں کے ساتھ پاکستان میں جاگیرداری نظام اور اس سے جڑے خاندانوں کے غلبے سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔
اپنی گفتگو کے دوران اس سیمینار میں تاج حیدر کا انداز اتنا ہی شائستہ اور با وقار تھا جتنا کسی علمی اور ادبی خاندان کے ایک فرد کا ہو سکتا ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی سینیٹ میں زرعی اصلاحات کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کو سراہ چکے ہیں اور اب بھی اس جدوجہد میں سب کے ساتھ شریک ہیں۔ انھوں نے بائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ قوم پرست پارٹیوں کو بھی یہ مشورہ دیا کہ وہ زرعی اصلاحات کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھیں۔