صادق جتوئی بھی رخصت ہوئے

یہ ہماری ان سے آخری ملاقات ثابت ہوئی گوکہ ہمارے گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ہماری ان سے آخری ملاقات ثابت ہوگی



صادق جتوئی بھی اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے انحراف ممکن ہی نہیں گوکہ کامریڈ صادق جتوئی کوئی دو ماہ سے بستر علالت پر تھے مگر کبھی تصور بھی نہ کیا تھا کہ وہ اس طرح اچانک اس دنیا سے کوچ کر جائینگے مجھے یہ افسوسناک خبر ممتاز سیاسی و ٹریڈ یونین رہنما ظفر اسلم نے بذریعہ موبائل فون دی کہ صادق جتوئی کا لاہور میں انتقال ہوگیا چند ساعتوں کے لیے میرا دل یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہ تھا کہ وہ یوں اچانک ہم سے بچھڑ جائینگے وہ بھی سدا کے لیے کیفیت یہ ہے کہ ان کے ساتھ بیتے لمحات کا ایک ایک پل بار بار میری نگاہ کے سامنے گھوم رہا ہے۔

صادق جتوئی دراز قامت گوری رنگت سراپا خلوص و شفقت میرے سامنے 1983ء کی ضیا آمریت کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت جسے MRD کی تحریک کا نام دیا گیا تھا کہ وہ لمحات بھی میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہے ہیں جب زبیر رحمٰن کالم نویس کی قیادت میں ہم کراچی کی کسی اہم شاہراہ پر احتجاج کرتے تو صادق جتوئی تمام دیگر ساتھیوں سے دو چار قدم آگے ہی ہوتے، البتہ احتجاجی مظاہرے سے قبل یا بعد میں ہم سب زبیر رحمٰن سے ضد کرکے کسی قریبی ہوٹل میں جاکر چائے پیتے۔ یہ ضرور تھا کہ چائے کے پیسے اکثر زبیر رحمٰن ہی ادا کرتے۔ صاف گو صادق جتوئی ایسے موقعے پر صداقت سے کام لیتے ہوئے کہتے کہ ساتھیو! میری جیب میں اتنے ہی پیسے ہیں کہ گھر جاتے ہوئے آپ لوگوں کا بس کا کرایہ ادا کرسکوں۔

صاف گوئی کا یہ عالم تھا کہ وہ سامنے والے کی شخصیت کا لحاظ کیے بنا وہی کہتے جو ان کے دل میں ہوتا۔ یہ 16 مارچ 2016ء کا ذکر ہے کہ جب کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی ایک جاری میٹنگ کے دوران پارٹی کے سیکریٹری جنرل نے میری ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے اعتراض کیا تو صادق جتوئی نے میرے موقف کی تائید کی اور فوراً بولے ادب و سیاست دونوں الگ الگ شعبے ہیں چنانچہ کسی قلم کار کوکوئی سیاست دان اگر ہدایات دیگا تو گویا وہ دانشور دانشور نہیں رہے گا بلکہ اس کی حیثیت ایک منشی کی سی ہوگی لہٰذا آپ پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہونے کی حیثیت سے اسلم کی سیاسی سرگرمیوں پر اعتراض یا بات تو کرسکتے ہیں البتہ اسلم کی ادبی سرگرمیوں پر اعتراض نہیں کرسکتے چنانچہ جب میں نے پارٹی رہنماؤں کو دو حصوں میں تقسیم ہوتے دیکھا تو میں نے تمام پارٹی رہنماؤں سے گزارش کی کہ آپ لوگ میری وجہ سے تقسیم نہ ہوں البتہ میں ہی نہ صرف پارٹی اجلاس چھوڑ کر جا رہا ہوں بلکہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے بھی لاتعلق ہونے کا اعلان کرتا ہوں چنانچہ میں جاری اجلاس کے دوران چلا آیا۔

بعدازاں میرا ان سے رابطہ رہا چنانچہ مجھ سے رابطہ رکھنے پر بھی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل جنھیں یہ گمان ہے کہ ان کی ذات ہی کا نام کمیونسٹ آف پاکستان ہے نے انکو شوکاز نوٹس جاری کردیا کہ جواب دو کہ تمہارا اسلم سے رابطہ کیوں قائم ہے؟ اصول پرست صادق جتوئی نے شوکاز نوٹس کے جواب میں کہا کہ میرا جواب یہ ہے کہ میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان چھوڑ رہا ہوں البتہ اس عمل کے بعد وہ لاہور واپس چلے گئے اور دم آخر تک لاہور ہی میں مقیم رہے جب کہ گزشتہ برس کے آخری دنوں میں فون کر کے مجھے کہنے لگے اسلم! میں نے مزدور کسان پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے تم بھی اگر مناسب خیال کرو تو مزدور کسان پارٹی میں شمولیت اختیار کرلو۔ میرا جواب ہاں میں پاکر بہت خوش ہوئے اور مجھے کہا کہ ظفر اسلم تمہارے پاس آئینگے دیگر امور ان سے طے کرلینا چنانچہ 5 جنوری 2017ء کو ظفر اسلم میرے پاس افضل خاموش کے ساتھ تشریف لائے یوں ہم نے مزدور کسان پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ افضل خاموش نے جب میری مزدورکسان پارٹی میں شمولیت کی خبر موبائل فون پر ان کو دی تو وہ بہت مسرور ہوئے۔

ان سے یادوں کا سلسلہ تو شاید تھمنے والا نہیں ہے لہٰذا میں ان سے اپنی آخری دو ملاقاتوں کا ہی ذکر کر پاؤں گا، چنانچہ 12 مارچ 2017ء کو مزدور کسان پارٹی کی کانگریس آرٹس کونسل راولپنڈی میں منعقد ہوئی دیگر کے ساتھ ساتھ صادق جتوئی کا بھی اصرار تھا کہ اسلم! تم نے اس کانگریس میں لازمی شرکت کرنی ہے۔ چنانچہ تمام تر مصروفیات کے باوجود میں نے سندھ کے دس رکنی وفد میں شریک ہوکر مزدور کسان پارٹی کی کانگریس میں شرکت کی جہاں اجلاس کے دوران صادق جتوئی کو متفقہ طور پر مزدور کسان پارٹی کا وائس چیئرمین منتخب کیا گیا۔ چنانچہ 12 مارچ 2017ء کو ہم پورا دن پارٹی کانگریس کے دوران ایک ساتھ رہے، البتہ شام کے وقت ہم اپنے اپنے ذرایع سے لاہور کے لیے روانہ ہوگئے ۔ روانگی سے قبل انھوں نے اگلے روز اپنے در دولت پر آنے کی دعوت دی چنانچہ اگلے روز 13 مارچ 2017ء کو ہم جمال ناصر و ظفر اسلم کے ساتھ ان کے در دولت پر موجود تھے جہاں ہماری ان سے کوئی تین گھنٹے نشست رہی اور ہم ان کی نظریاتی گفتگو سے فیضیاب ہوتے رہے کوئی 2 بجے ہم نے ان سے اجازت چاہی گوکہ ان کا اصرار تھا کہ ہم کھانا کھا کر جائیں مگر وقت کی کمی کے باعث ہم ان کی کھانے کی خواہش پوری نہ کر سکے۔

یہ ہماری ان سے آخری ملاقات ثابت ہوئی گوکہ ہمارے گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ہماری ان سے آخری ملاقات ثابت ہوگی۔ ہم کراچی میں اور وہ لاہور میں مقیم تھے، اس کے باوجود ہمارا ٹیلی فونک رابطہ برقرار تھا، گوکہ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے مگر کوئی دو ماہ قبل ان کی جواں سال صاحبزادی کا انتقال ہوگیا یہ صدمہ ان کے لیے ناقابل برداشت تھا اسی باعث وہ بستر علالت کے ہوکر رہ گئے۔ بالآخر 23 جولائی 2017ء کو اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے اور 24 جولائی 2017ء کو انھیں سپرد خاک کردیا گیا۔گوکہ اانسان دوست صادق جتوئی آج منوں مٹی کے تلے جا سوئے ہیں مگر ان کے ترقی پسند نظریات ہمیں جدوجہد کی دعوت دیتے رہیں گے اس وقت تک جب تک سماج میں جہالت ہے افلاس ہے جبر واستحصال ہے آخر میں ہم صادق جتوئی کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ ان کی پارٹی کے رہنماؤں و کارکنان و سماجی دوستوں سے اظہار تعزیت کرتے ہیں گوکہ موت ایک عظیم صدمہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |