2013ءاُمیدیں اور اندیشے

فلم ٹریڈ کے دعوے دار اب بھی’’انویسٹر‘‘کےمنتظر ہیں تاکہ فائدے میں برابر کے شریک اور نقصان صرف اس کا ہو.


Muhammad Javed Yousuf February 09, 2013
پاکستان فلم انڈسٹری کا بحران دعوئوں اوربیانات سے نہیں بلکہ عملی طور پر ہی کچھ کرنے سے ختم ہوگا. فوٹو : فائل

زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو ' نیا سال نئی توقعات 'نئے امکانات اور نئے روشن پہلو لئے جلوہ گر ہوتا ہے۔

گذشتہ سال بھی خامیوں اورکوتاہیوں مدنظر رکھتے ہوئے نئے سرے سے پلاننگ کی جاتی ہے ۔ سال نو کا آغاز ہرکوئی نئے جوش وجذبے' ولولے' امیدوں اور پلاننگ کے ساتھ کرتا ہے' اس میں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی گذشتہ غلطیوں اورکوتاہیوں کا ازالہ کرنے کے لئے ازسرنوجائزہ لے 'تاکہ مستقبل میں ان کا دوبارہ اعادہ نہ ہوسکے۔ اس حوالے سے دعوے اور وعدے تو بہت کئے جاتے ہیں مگر عملی طور پر عملدرآمد کم نظر آتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں تو زندگی کے تمام شعبوں میں نئے سال کی آمد سے قبل ہی سابقہ خامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا شروع کردیتے ہیں تاکہ سال نو میںوہ پہلے سے بہتر انداز کے ساتھ آگے بڑھ سکیں 'مگر پاکستان فلم انڈسٹری جو پچھلے کئی سالوں سے آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر پڑی ہوئی ہے'جس کی بحالی کے لئے دعوے اور وعدے تو حکومتی سطح سے لے کر ہر جگہ پر کئے جارہے ہیں' مگر عملی طو رپر زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں'اسی لئے فلم انڈسٹری کا وجود دن بدن اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے ۔کمال کی بات یہ ہے کہ اس کے خیر خواہ الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا میں فلم انڈسٹری کی اس حالت کی ذمہ داری بھارتی فلموں کو قرار دینے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں جبکہ اگر ان سے یہ پوچھا جائے کہ ذاتی طور پر فلم ٹریڈ کے لئے کیا کر رہے ہیں تو حالات سازگار نہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔

پاکستان فلم انڈسٹری جس کا آغاز اس قدر شاندار ہوا تھا کہ ہمسایہ ملک اسے اپنا سب سے بڑا مدمقابل سمجھتا تھا۔ ہماری فلموں کی کہانیوں سے گانے تک بالی وڈ کی فلموں میں شامل کئے جانے لگے تھے۔پاکستان فلم انڈسٹری کا یہ ماضی دیکھتے ہوئے لوگوں کا خیال تھا کہ مستقبل اس کا بہت تابناک ہوگا 'مگر 70ء کے بعد پنجابی فلم میکنگ کے نام پر ایسی آندھی چلی جس نے پاکستان فلم انڈسٹری کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ ''کالی آندھی'' اگلے بیس سالوں سے زائد تک فلم انڈسٹری پر ایسی چھائی کہ جس نے تخلیقی صلاحیتوں کے مالک رائٹر ' ڈائریکٹر ' نغمہ نگار ' موسیقار ' گلوکاروں کو دیوار سے لگا دیا۔ ان کی جگہ لینے والوں میں چند ایک کے سوا اکثریت فلم میکنگ کی الف ب سے بھی واقف نہیں تھی۔

انہی ناعاقبت اندیشوں کی وجہ سے فلم انڈسٹری ایک ایسی گہری کھائی میں گر گئی کہ جہاں سے اسے نکالنے کے لئے طویل المیعاد پلاننگ کی ضرورت تھی' جو فلم انڈسٹری کے لوگوں کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے ممکن ہی نہیں تھا ۔ اسی لئے آج 2013ء کا ماہ فروری شروع ہوچکا ہے ' ابھی تک پانچ بھارتی فلمیں ''ٹیبل 21'' ' ''ریس ٹو'' ' ''ہیٹ سٹوری'' ' '' متروکی بجلی کا منڈولا '' اور ''سپیشل 26'' ریلیز ہوچکی ہیں مگران کے مقابلے میں ایک بھی نئی پاکستانی فلم سینما گھروں کی زینت نہیں بنی'بلکہ عیدالفطر تک کوئی بھی پاکستانی فلم مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔ جس سے عام سینما گھروں کو اپنا مستقبل مخدوش ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ بھارتی فلموں کے ڈسٹری بیوٹرز سنی پلیکس سینمائوں کو ہی ترجیح دیتے ہیں دوسرا عام سینما گھر ان فلموں کی نمائش کے لئے ڈسٹری بیوٹرز کے منہ مانگے معاوضہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ۔

اس لئے وہ پرانی پنجابی اوربھارتی فلمیں لگا کر اپنا سلسلہ چلانے پر مجبور ہیں۔ سال رواں میں ہدایتکار شہزاد رفیق کی فلم ''عشق خدا '' جو پچھلے دوسالوں سے بنائی جارہی ہے اور جس میں مراکش سے تعلق رکھنے والی اداکارہ وائم دھامانی کو متعارف کروایا جارہا ہے۔اس فلم کو پچھلے سال عید پر نمائش کرنے کا اعلان کیا گیا تھا 'مگر اچانک اس کی نمائش ملتوی کردی گئی۔ اب بتایا جارہا ہے کہ یہ فلم سال رواں میںمارچ میں ریلیز کی جارہی ہے'مگر کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ شاید یہ تاریخ بھی آگے بڑھ جائے۔

اپنے دور کے معروف فائیٹر ممتاز ملک نے اپنی بیٹی ہما علی کو ہیروئن لے کر اڑھائی سال قبل ''لڑکی پاکستانی'' کا آغاز کیا ' بعدازاں کئی مرتبہ اس کا نام تبدیل ہوا اور آخر کار ''دل پرائے دیس میں'' کے نام کے ساتھ نمائش کے لیے پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے ہدایتکار حسن عسکری ہیں۔ اس کے فلمساز ممتاز ملک کاکہنا ہے کہ سینما نہ ملنے کی وجہ سے فلم کی نمائش تاخیر کا شکار ہورہی ہے۔ انہوں نے اس تاخیر کا ذمہ دار بھارتی فلموں کو قرار دیا کہ سینما مالکان پاکستانی فلموں پر ان کو ترجیح دے رہے ہیں۔ 1991ء میں بننے والی فلم ''صنم ''کو نمائش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں اداکارہ ریما اور صائمہ نے مرکزی کردار نبھائے تھے جبکہ اس کے مصنف وہدایتکار سیدنور اور فلمساز محمد جاویداختر ہیں۔ ان تینوں فلموں کے علاوہ فلمساز چودھری یعقوب نے ہدایتکار پرویز رانا کو لے کر پنجابی فلم شروع کرنے کا اعلان کیا تھا 'مگر ابھی تک اس حوالے سے پیش رفت نظر نہیںآرہی ۔ ہدایتکار مسعود بٹ نے ''بشیرا گجر'' کے نام سے فلم کرنے کا دعوی کیا' یہ بھی ابھی تک سیٹ کی زینت نہیں بن سکی۔ فلمساز چودھری رحمت اور ہدایتکار اقبال کشمیری نے ''ڈیرے دار'' کے ساتھ میدان میں آنے کا دعوی کیا ہے۔اس فلم کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ پرانی فلم ''دل دا جانی'' کا ہی نام تبدیل کیا گیا ہے جو پانچ سال قبل شروع کی گئی تھی اور پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔

فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے چیئرمین سیدنور نے عیدالفطرپر دو فلمیں ریلیز کرنے کا اعلان کیا ہے'ان دنوں وہ نجی چینل کے لئے ماضی کی سپرہٹ فلم ''دیور بھابی'' کا ری میک ٹیلی فلم کی ریکارڈنگ میں لگے ہوئے ہیں۔ہدایتکارہ سنگیتا جو کچھ عرصہ قبل پاکستان فلم انڈسٹری کی بحالی کے لئے بلندو بانگ دعوے کرتے اچانک ٹی وی پروڈکشن کی طرف چلی گئیں'ان دنوں کراچی میں ٹی وی ڈراموں کی ڈائریکشن کے ساتھ اداکاری کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں'انہوں نے ایک بار پھر میگا سٹار کے ساتھ فلم بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے' چند سال قبل ''چنری'' کے نام سے فلم شروع کرنے کے حوالے سے افتتاحی تقریب بھی کی تھی 'جو آج تک بیانات سے آگے نہ بڑھ سکی۔

ہدایتکار الطاف حسین کی ''سالا صاحب بن گیا'' کااشتہار منظر عام پر آیا ہے'جس میں مرکزی کردار افتخار ٹھاکر کو سائن کئے جانے کا کہا جارہا ہے۔ مختصراً پاکستان فلم انڈسٹری کا سال رواں بھی پچھلے سال کی طرح دعوئوں اور بیانات تک ہی محدود دکھائی دے رہا ہے'کیونکہ ''دل پرائے دیس میں '' اور ''عشق خدا'' کے علاوہ تیسری کوئی فلم کی نمائش تو دور کی بات سیٹ کی زینت ہی نہیں بن سکی۔حسن عسکری اردو 'پشتو زبان میں ایک فلم ''داستان'' کی عکسبندی کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس میں پشتو اداکار شاہد خان اور جہانگیر جانی مرکزی کردار نبھارہے ہیں۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی اس صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان ان ایکسٹرا فنکاروں اور تکنیک کاروں کو ہورہا ہے جو کئی سالوں سے بے روزگاری کی سولی پر لٹکے اب بھی اچھے دنوں کی آس لگائے بیٹھے ہوئے ہیں ' مگر حالات کو دیکھتے ہوئے یہ امید بھی دم توڑتی نظر آرہی ہے'کیونکہ صورتحال پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر دکھائی دے رہی ہے ۔ 2012ء میں 46 بھارتی فلموں کے مقابلے میں صرف پانچ پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئی تھیں اور سال رواں میں شاید پانچ فلموں کی نمائش بھی نہ ہوسکے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کا بحران دعوئوں اوربیانات سے نہیں بلکہ عملی طور پر ہی کچھ کرنے سے ختم ہوگا 'جس کے لئے فلمسازی شروع کرنا ضروری ہے ۔ فلم ٹریڈ کے دعوے دار ماضی کی طرح کسی ''انویسٹر'' کے ہی منتظر ہیں تاکہ سرمایہ کاری اس کی اور نام ان کا ہو۔اس طرح سے فائدے میں برابر کے شریک اور اگر نقصان ہوا تو سب اس پر ڈالا جاسکے۔ یہ وہ کلیہ ہے جس نے پاکستان فلم انڈسٹری میں آنیوالے بہت سے انویسٹرز کو ایسا بھگایا کہ مستقبل میں ان کے دوبارہ واپس آنے کے کوئی امکانات نہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں