دو شہید وزرائے اعظم کے آبائی شہر پر فرعونوں کی خدائی
لاڑکانہ میں دن دہاڑے معصوم بچے تاوان کے لیے اغوا کیے جا رہے ہیں اور سلیمانی ٹوپی اوڑھے مجرم ہاتھ نہیں آتے.
لاڑکانہ میں بچوں کے اغوا کی وارداتیں روز کا معمول بن گئی ہیں۔ فوٹو : فائل
دو شہید وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹوکے آبائی شہر لاڑکانہ کے باسی خود کو اس عہد میں جتنا بے نوا محسوس کر رہے ہیں شاید اس سے پہلے کبھی نہ کیا ہو۔
لاڑکانہ میں درندگی ہر جاتے دن اور رات کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ دن دہاڑے معصوم بچے تاوان کے لیے اغوا کیے جا رہے ہیں اور سلیمانی ٹوپی اوڑھے مجرم ہاتھ نہیں آتے۔ ایک طرف پولیس افسر ہیں کہ اپنی دیانت کا خود اشتہار بنے پھرتے ہیں، دوسری طرف رہ نما ہیں جن کے مصاحب (ٹاؤٹ) اُن کے گن گاتے نہیں تھکتے، ایسے میں پوچھا جا سکتا ہے کہ اتنے مصلحین اور پارساؤں کے ہوتے ہوئے جرائم کا بڑھتے چلے جانا چہ معنی دارد؟ شہر کو سیلِ آب لیے جاتا ہے اور کسی کے مژگاں ہی نہیں کھل رہے۔
دل میں سوراخ ڈال دینے والا یہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک ماہ قبل لاڑکانہ کی تحصیل ڈوکری کے گاؤں نئی گڈ میں پیپلز پارٹی کے سابق ایم این اے سردار حزب اللہ خان بگھیو اور موجودہ ایم این اے نظیر بگھیو کے پرسنل اسسٹنٹ شاہ نواز بگھیو کے چھ سالہ معصوم بیٹے شکیل کو ''نامعلوم افراد'' نے تاوان کی غرض سے اغوا کر لیا اور رہائی کے لیے ورثاء سے تین لاکھ روپے تاوان طلب کر لیا، والدین یقیناً یہ رقم ادا نہ کر سکتے ہوں گے۔ اغوا کاروں نے بیس روز تک تو انتظار کیا اور پھر چشمِ فلک نے ننھے شکیل کو بے رحم ہاتھوں سے ذبح ہوتے دیکھا۔ ذرا تصور کیا جائے کہ ایک چھوٹا سا بچہ وحشیوں کے غول میں گھرا ہوا ہے، اسے زمین پر گرایا جا رہا ہے اور پھر اس کے نازک حلقوم پر خنجر پھیرا جاتا ہے، معصوم لہو بھل بھل کرتا امڈتا ہے اور ذرا کی ذرا ننھی سی جاں تڑپتی پھڑکتی ہے، انسانیت ایک کونے میں دبکی منہ دیکھتی رہ جاتی ہے اور ایک معصوم چراغ بجھ جاتا ہے۔ پھر نعش گاؤں کے قریب جھلی بند پر جھاڑیوں میں پھینک دی جاتی ہے۔ ایسا نہیں کہ پولیس کو بر وقت خبر نہیں دی گئی، شاہ نواز متعلقہ تھانے حسن واھن کی پولیس کو بر وقت اپنے بچے کے اغوا کی اطلاع دے چکا تھا لیکن ''پولیس'' ۔۔۔۔۔ ۔ ۔
بچے کے قتل کی خبرسنی تو کون دل تھا جو پھٹ نہیں گیا، ہر جانب سکتہ طاری ہو گیا۔ الفاظ کہاں کہ شکیل کی ماں کے دل کی حالت بیان کر پائیں۔ قتل کی اس واردات نے پورے علاقے کو دہلا کر رکھ دیا، خوف کے سیاہ عفریت نے جیسے سارے کو آن لیا، دکھیاری ماں بار بار غش کھاتی ہے، جگر کا کٹا ہوا ٹکڑاہے کہ آنکھوں سے ہٹ نہیں پاتا۔ لگتا ہے معاشرے سے انسانیت رفتہ رفتہ رخصت ہوئی جاتی ہے ، انسان مر رہا ہے۔ کوئی کیسے سمجھ سکتا ہے کہ معصوم شکیل کی کسی سے دشمنی ہو سکتی تھی، وہ تو ابھی ایسی غیر انسانی آلائشوں کے نام سے بھی انجان تھا۔
جس روزِ بد نہاد کو شکیل کے اغوا کا واقعہ پیش آیا، گاؤں میں شادی کی تقریب تھی، شادیانے بج رہے تھے، بچے مارے سرخوشی کے شور و شغب میں مگن تھے، شکیل بھی اپنے ہم جولیوں کے ہم راہ کھیل رہا تھا کہ ناگاہ وحشیوں نے آ لیا اور آن کی آن میں گم ہوگئے۔
اسے کئی دنوں تک یرغمال بنائے رکھا اور پھر اس کا سر تن سے جدا کر کے لاش گاؤں کے قریب جھلی بند کے مقام پر کھیتوں میں پھینک دی، کئی روز بعد جب پولیس نے کھیتوں سے لاش برآمد کی تو تب تک جانور اسے ۔۔۔۔ (نہیں لکھا جاسکتا)، ڈوکری تعلقہ اسپتال میں ڈاکٹروں کو بھی پوسٹ مارٹم میں انتہائی مشکل کا سامنا رہا سو کوئی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آ پائی۔ پوسٹ مارٹم کے بعد جب بچے کا سر ورثاء کے حوالے کیا گیا اور وہ اسے گھر لائے تو خواتیں کو بے ہوشی کے دورے پڑنے لگے ، وہ اللہ کا کلام اٹھااٹھا کر دہائیاں دیتی تھیں، یہ کلام کہیں تو جا کرپڑنا ہے، ماں آخر ماں ہوتی ہے۔
بچے کے والد شاہ نواز نے رپورٹ میں بتایا کہ کچھ عرصہ قبل گاؤں کے بااثر اور سابق ایم این اے حزب اللہ خان بگھیو نے ملزموں کے گھر مسمارکروائے تھے، جس کا نگران اُسی (شاہ نواز) کو ٹھہرایا گیا تھا۔ اس پر'' نامعلوم ملزم'' وحشی ہو گئے اور ان بزدلوں نے اس کا بدلہ یوں لیا۔ شاہ نواز بگھیو کا بیان اگر صداقت و حقیقت رکھتا ہے تو پھر اس خون کی ذمہ داری گاؤں کے با اثر طبقے کے سر ہے۔ حزب اللہ بگھیو بھی اس سانحے پر کچھ بولتے سنائی نہیں دیتے، رابطہ کیا گیا تو فرمایا کہ واقعہ افسوس ناک ہے اور ذاتی دشمنی کا شاخ سانہ ہے، کون سی دشمنی، کس کی بہ دولت دشمنی، گھر کس کے حکم پر گرائے گئے؟؟؟ بچے کے والد کا کہنا ہے کہ بیٹے کے اغوا کے بعد وہ مسلسل پولیس کے پاس بچے کی بازیابی کے لیے منت سماجت کرتا رہا، گاؤں اور شہر میں احتجاج کیے گئے لیکن پولیس کے پٹھے اس قدر ضعیف ہیں کہ حرکت ہی ممکن نہیں۔
واقعے کے بعد گاؤں کے رہائشی دریا خان اور غلام مصطفی بگھیو سمیت پانچ افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی درج کروایا گیا مگر پولیس ملزمان کی گرفتاری میں کام یاب تو تب ہو جب شاہ نواز بھی کوئی صاحبِ حیثیت بگھیو ہو۔ صاف ظاہر ہے کہ پولیس کو ناتھ کس نے ڈال رکھی ہے۔
یہ بچوں کے اغوا اور ان کے وحشیانہ قتل کا پہلا یا آخری واقعہ نہیںہے، اس سے قبل لاڑکانہ میں سلمان کھوکھراور عمار جتوئی کو بھی خاندانی دشمنی اور تاوان کی غرض سے اغوا کے بعد ایک کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اور دوسرے کو زندہ دفن کر کے قتل کیا گیا۔ شکیل بگھیو کے قتل کے بعد لاڑکانہ کے حیدری تھانہ کی حدود ایوب کالونی کے پانچ سالہ کاشف رضا میرانی کو بھی اغوا کیا گیا، جسے ایک سال گذر چکا ہے، لوگ سینے پیٹ رہے ہیں اور پولیس ٹھنڈے پیٹوں فرماتی ہے کہ یہ سب ڈراما ہے۔ عید الاضحیٰ کے دوسرے روز حیدری تھانہ کی ہی حدود صدیقی کالونی کے رہائشی محمد امین جاگیرانی کی چھ سالہ بیٹی کائنات جاگیرانی کو اغوا کیا گیا، بچی کو پنجاب کے کسی علاقے میں فروخت کیے جانے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ ایس ایس پی لاڑکانہ جاوید جسکانی نے بچی کی بازیابی کے لیے ٹیم بھی تشکیل دی، جس نے ایک مبینہ ملزم کو گرفتار کر کے عدالت کے ذریعے جیل بھی بھجوا دیا ہے لیکن معصوم کائنات کہاں ہے؟ کچھ پتا نہیں۔ رتوڈیرو کی نو سالہ عتیقہ کوری اور گاؤں آگانی کے تین طالب علم اظہر علی کیھر، سہیل بھٹو اور واجد علی کیھر بھی اغوا ہیں، جن کی بازیابی کے لیے اسی لاکھ روپے سے زیادہ تاوان طلب کیا گیا ہے۔ شکیل بگھیو کے وحشیانہ قتل کے بعد دیگر مغویوں کے گھروں میں بھی کہرام برپا ہے۔ قرآن پاک کی تلاوتیں ہو رہی ہیں کہ کوئی مسیحا آ کر بچوں کی بازیابی کے لیے ان کی مدد کرے لیکن اختر حسین جعفری کے مطابق ''اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب'' ۔
اور یہ بھی ملاحظہ ہو کہ شہریوں پر ایسی ایسی قیامتیں ٹوٹیں لیکن مجال ہے جو پیپلز پارٹی کے کسی منتخب نمائندے کا دل پسیجا ہو، کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ ان دکھیوں سے ہمدردی کے دو بول ہی پھوٹے، ہاں! جمہوریت کا راگ ہے جو ان بے سُرے اور بے لے گویوں سے چھوٹ نہیں پاتا۔ متحدہ قومی موومنٹ، ن لیگ، ف لیگ ، قاف لیگ، جمعیت علمائِ اسلام اور بھانت بھانت کی اتنی جماعتیں ہیں کہ کسی کو سارے نام بھی یاد نہیں رہتے، قوم پرست جماعتیں ہیں کہ جن کے کلف لگے شملے کبھی ڈھلکنے نہیں پاتے۔ ایسا لگتا ہے گویا جمہوریت، جمہور سے الگ کوئی شئے ہے، کوئی انِ دل جلوں کا حال تک پوچھنے والا نہیں، زبانیں گنگ ہیں۔ ایک جانب لاڑکانہ کے یہ حالات ہیں تو اُدھر والیانِ اسود و ابیض بے تکان دعوے فرماتے ہیں کہ سب اچھا ہے، عوام جمہوریت کا جنتی ثمر کھا رہے ہیں۔ لاڑکانہ ہے یہ ۔۔۔۔ کیسی شرم کی بات ہے کہ عوام کے نام پر شہید ہونے والے ایک نہیں دو وزراء اعظم کا تعلق اس علاقے سے ہے، چلّو میں شاید اب پانی نہیں بچا۔