……تم کو خبر ہونے تک
کراچی کی ہولناک صورتحال کو سپریم کورٹ کے درد مندانہ انتباہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو خاصی اعصاب شکن ہوتی جا رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے 6 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں امن و امان کے قیام پر وفاقی حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں۔ بے حسی کا عالم ہے، انسانی جانوں سے مذاق بند کر دیں، سرکاری حکام عدالت میں سچائی بیان کریں اور جو حقیقت ہے اسے تسلیم کر لیں کہ وہ امن و امان کی بحالی میں ناکام ہو چکے ہیں۔ چھ صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ ممبر انسپکشن ٹیم کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سندھ پولیس کے 400 اہلکار جرائم میں ملوث ہیں اور ان کی سیاسی وابستگیاں بھی ہیں، امن کیسے ہو؟ اپنے گھر کو صحیح کریں۔
کراچی کی ہولناک صورتحال جسے ملک کے وسیع تر دہشت گردانہ اور غیر انسانی واقعات اور سپریم کورٹ کے درد مندانہ انتباہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو خاصی اعصاب شکن ہوتی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے ان سبق آموز ریمارکس میں دراصل سندھ کی زہر آلود سیاست کا تریاق موجود ہے بشرطیکہ اس پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔ سماجی انتشار اور انارکی کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے، اسے روکا جائے۔ دہشت گردی کا جن ایک عفریت کی صورت سامنے کھڑا ہے اس لیے عدلیہ کے احکامات کی پیروی کرنے میں ہی کراچی کی سماجی و معاشی بقا اور ملکی سیاسی مستقبل کا مفاد مضمر ہے۔ یہ استدلال سر آنکھوں پر ہے کہ قتل و غارت دیگر صوبوں میں بھی ہو رہی ہے، جرائم وہاں بھی ہوتے ہیں مگر اس کی شدت اور وہاں موجود مافیاز کے اہداف کا مسئلہ مختلف ہے، وہاں علاقوں پر حاکمیت کی کوئی جنگ نہیں، یہاں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز، لینڈ مافیا کے کارندے اور بھتہ خور بھی ریاست کے اندر اپنی ریاست قائم کرنے کے جنون میں شہر سے انتقام لے رہے ہیں جب کہ طالبان کی انٹری اسی مخدوش صورتحال میں ہوئی ہے۔
اسٹیک ہولڈرز میں زبردست کشیدگی شہر کو میدان جنگ میں بدل چکی ہے۔ اسی کی بازگشت ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سنائی دیتی ہے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں امن کے لیے جاری عدالتی احکامات پر عمل نہیں کیا گیا، گواہوں اور پراسیکیوٹرز کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے چار رکنی لارجر بنچ نے کراچی بدامنی عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ شہر جل رہا ہے، ذمے داروں کے خلاف کارروائی کے لیے حکم جاری کریں گے۔ انھوں نے آئی جی سندھ سے پوچھا کہ کراچی میں 14 لاکھ تارکین وطن موجود ہیں، ان میں سے کتنے ملک بدر اور کتنے پابند کیے گئے، آئی جی سندھ جرائم میں ملوث 400 پولیس افسروں کی پوسٹنگ کی تفصیلات دیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے آئی جی سے کہا کہ آپ اپنے گھر کو صحیح کریں، یہ جرائم میں ملوث افسر کہیں نہ کہیں پوسٹنگ لے کر بیٹھے ہیں۔
دہشت گردی کی شدت کا اندازہ ان واقعات سے لگائیے کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں فائرنگ سے سینئر وکیل اور اہلسنت و الجماعت کے ہمدرد سمیت 5 افراد جاں بحق اور 5 زخمی ہو گئے، دو سینئر وکیل لاہور اور پشاور بھی جاں بحق ہوئے، اورکزئی ایجنسی کے علاقہ فیروز خیل میں ہیڈ کوارٹر چوک میں ریموٹ کنٹرول دھماکا میں15 افراد جاں بحق،25 زخمی ہو گئے جب کہ اپر اورکزئی میں سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے 6 شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا، امریکی ڈرون حملے میں 8 افراد مارے گئے اور دو زخمی ہو گئے۔ امریکی جاسوس طیارے نے شمالی اور جنوبی وزیرستان کی سرحد پر واقع بابر غر گائوں کے ایک گھر پر دو میزائل داغے۔
کوئٹہ اور اندرون صوبہ فائرنگ کے مختلف واقعات میں دو سکیورٹی اہلکاروں اور قبائلی رہنما سمیت 4 افراد جاں بحق، 9 زخمی ہو گئے جب کہ ایک لاش برآمد ہوئی ہے، جمعہ کو تربت کے علاقے مند میں فورسز کی گاڑی پر مسلح افراد نے فائرنگ کر دی جس سے 2 سکیورٹی اہلکار زوار خان اور اسحاق جاں بحق جب کہ اثر خان، بہرام، عرفان اور اسلم زخمی ہو گئے، کراچی میں بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے خلاف چھوٹے تاجروں نے مظاہرہ کیا۔ آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین کی زیر قیادت کراچی پریس کلب پر شہر کی معیشت کے علامتی جنازے کا تابوت نکالا گیا جسے تاجروں نے ریلی کی شکل میں سندھ اسمبلی بلڈنگ تک پہنچایا، یہ اپنی نوعیت کا انوکھا احتجاج تھا۔ کراچی میں تین علما کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ہڑتال کی گئی جس میں مذہبی جماعتوں نے الٹی میٹم دیا کہ قاتل نہ پکڑے گئے تو دھرنا دیں گے۔
جہاں تک کراچی کا تعلق ہے اس میں ہلاکتوں کی درد انگیزی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سقوط اور مفاہمت کی پر اسرار حکمت عملی سے منسلک ہے جس نے قانون شکن عناصر کے ٹھکانوں تک گویا پولیس اور رینجرز کے کریک ڈائون، مجرموں کے محاصرے اور ان کے خاتمے کو مشکل بنا دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ آپریشن میں بدنام زمانہ چیل چوک کی ایک اسٹریٹ میں داخلے کی کوشش میں پولیس نے 8 دن لگا دیئے جب کہ رینجرز لاتعلق رہی۔ اب حالت یہ ہے کہ سیاسی، جمہوری اور اتحادی جماعتوں کی ناقابل فہم بے بسی، آزاد میڈیا کی معروضیت میں ڈوبی ہوئی فریادوں کی بے اثری، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کی ناقابل یقین ناکامی پر ہر آنکھ اشکبار ہے جب کہ ہر ذی شعور پاکستانی کی روح میں کراچی کی کرچی کرچی حالت خدنگ خستہ (ٹوٹے ہوئے تیر) کی طرح پیوست دکھائی دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کی مسلسل فکر انگیز و چشم کشا آبزرویشنز در حقیقت ''خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک'' کی دہائی ہے۔ خدا کرے حکمرانوں کو کراچی بدامنی کیس کی اہمیت اور اس کے نوشتہ دیوار ہونے کا جلد ادراک ہو ورنہ مجرمانہ گروہوں، دہشت گردی، بھتہ خوری، لاقانونیت اور انتہا پسندی پر کمر بستہ طاقتوں کے ہاتھوں کراچی کی شہری تہذیب اور ملک میں جمہوری عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
کراچی کی ہولناک صورتحال جسے ملک کے وسیع تر دہشت گردانہ اور غیر انسانی واقعات اور سپریم کورٹ کے درد مندانہ انتباہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو خاصی اعصاب شکن ہوتی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے ان سبق آموز ریمارکس میں دراصل سندھ کی زہر آلود سیاست کا تریاق موجود ہے بشرطیکہ اس پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔ سماجی انتشار اور انارکی کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے، اسے روکا جائے۔ دہشت گردی کا جن ایک عفریت کی صورت سامنے کھڑا ہے اس لیے عدلیہ کے احکامات کی پیروی کرنے میں ہی کراچی کی سماجی و معاشی بقا اور ملکی سیاسی مستقبل کا مفاد مضمر ہے۔ یہ استدلال سر آنکھوں پر ہے کہ قتل و غارت دیگر صوبوں میں بھی ہو رہی ہے، جرائم وہاں بھی ہوتے ہیں مگر اس کی شدت اور وہاں موجود مافیاز کے اہداف کا مسئلہ مختلف ہے، وہاں علاقوں پر حاکمیت کی کوئی جنگ نہیں، یہاں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز، لینڈ مافیا کے کارندے اور بھتہ خور بھی ریاست کے اندر اپنی ریاست قائم کرنے کے جنون میں شہر سے انتقام لے رہے ہیں جب کہ طالبان کی انٹری اسی مخدوش صورتحال میں ہوئی ہے۔
اسٹیک ہولڈرز میں زبردست کشیدگی شہر کو میدان جنگ میں بدل چکی ہے۔ اسی کی بازگشت ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سنائی دیتی ہے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں امن کے لیے جاری عدالتی احکامات پر عمل نہیں کیا گیا، گواہوں اور پراسیکیوٹرز کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے چار رکنی لارجر بنچ نے کراچی بدامنی عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ شہر جل رہا ہے، ذمے داروں کے خلاف کارروائی کے لیے حکم جاری کریں گے۔ انھوں نے آئی جی سندھ سے پوچھا کہ کراچی میں 14 لاکھ تارکین وطن موجود ہیں، ان میں سے کتنے ملک بدر اور کتنے پابند کیے گئے، آئی جی سندھ جرائم میں ملوث 400 پولیس افسروں کی پوسٹنگ کی تفصیلات دیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے آئی جی سے کہا کہ آپ اپنے گھر کو صحیح کریں، یہ جرائم میں ملوث افسر کہیں نہ کہیں پوسٹنگ لے کر بیٹھے ہیں۔
دہشت گردی کی شدت کا اندازہ ان واقعات سے لگائیے کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں فائرنگ سے سینئر وکیل اور اہلسنت و الجماعت کے ہمدرد سمیت 5 افراد جاں بحق اور 5 زخمی ہو گئے، دو سینئر وکیل لاہور اور پشاور بھی جاں بحق ہوئے، اورکزئی ایجنسی کے علاقہ فیروز خیل میں ہیڈ کوارٹر چوک میں ریموٹ کنٹرول دھماکا میں15 افراد جاں بحق،25 زخمی ہو گئے جب کہ اپر اورکزئی میں سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے 6 شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا، امریکی ڈرون حملے میں 8 افراد مارے گئے اور دو زخمی ہو گئے۔ امریکی جاسوس طیارے نے شمالی اور جنوبی وزیرستان کی سرحد پر واقع بابر غر گائوں کے ایک گھر پر دو میزائل داغے۔
کوئٹہ اور اندرون صوبہ فائرنگ کے مختلف واقعات میں دو سکیورٹی اہلکاروں اور قبائلی رہنما سمیت 4 افراد جاں بحق، 9 زخمی ہو گئے جب کہ ایک لاش برآمد ہوئی ہے، جمعہ کو تربت کے علاقے مند میں فورسز کی گاڑی پر مسلح افراد نے فائرنگ کر دی جس سے 2 سکیورٹی اہلکار زوار خان اور اسحاق جاں بحق جب کہ اثر خان، بہرام، عرفان اور اسلم زخمی ہو گئے، کراچی میں بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے خلاف چھوٹے تاجروں نے مظاہرہ کیا۔ آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین کی زیر قیادت کراچی پریس کلب پر شہر کی معیشت کے علامتی جنازے کا تابوت نکالا گیا جسے تاجروں نے ریلی کی شکل میں سندھ اسمبلی بلڈنگ تک پہنچایا، یہ اپنی نوعیت کا انوکھا احتجاج تھا۔ کراچی میں تین علما کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ہڑتال کی گئی جس میں مذہبی جماعتوں نے الٹی میٹم دیا کہ قاتل نہ پکڑے گئے تو دھرنا دیں گے۔
جہاں تک کراچی کا تعلق ہے اس میں ہلاکتوں کی درد انگیزی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سقوط اور مفاہمت کی پر اسرار حکمت عملی سے منسلک ہے جس نے قانون شکن عناصر کے ٹھکانوں تک گویا پولیس اور رینجرز کے کریک ڈائون، مجرموں کے محاصرے اور ان کے خاتمے کو مشکل بنا دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ آپریشن میں بدنام زمانہ چیل چوک کی ایک اسٹریٹ میں داخلے کی کوشش میں پولیس نے 8 دن لگا دیئے جب کہ رینجرز لاتعلق رہی۔ اب حالت یہ ہے کہ سیاسی، جمہوری اور اتحادی جماعتوں کی ناقابل فہم بے بسی، آزاد میڈیا کی معروضیت میں ڈوبی ہوئی فریادوں کی بے اثری، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کی ناقابل یقین ناکامی پر ہر آنکھ اشکبار ہے جب کہ ہر ذی شعور پاکستانی کی روح میں کراچی کی کرچی کرچی حالت خدنگ خستہ (ٹوٹے ہوئے تیر) کی طرح پیوست دکھائی دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کی مسلسل فکر انگیز و چشم کشا آبزرویشنز در حقیقت ''خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک'' کی دہائی ہے۔ خدا کرے حکمرانوں کو کراچی بدامنی کیس کی اہمیت اور اس کے نوشتہ دیوار ہونے کا جلد ادراک ہو ورنہ مجرمانہ گروہوں، دہشت گردی، بھتہ خوری، لاقانونیت اور انتہا پسندی پر کمر بستہ طاقتوں کے ہاتھوں کراچی کی شہری تہذیب اور ملک میں جمہوری عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔