اسٹیٹ بینک کا نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان

نومبر 2012ء میں افراط زر کی شرح 6.9 فیصد تھی جو جنوری 2013ء میں 8.1 فیصد ہو گئی۔


Editorial February 09, 2013
گزشتہ4 سال میں بجٹ سپورٹ کیلیے حکومتی قرضہ 60 فیصد بڑھاجوتشویشناک ہے ،آئی ایم ایف ادائیگیوں سے بھی صورتحال بہترنہیں ہوگی،گورنراسٹیٹ بینک کی پریس کانفرنس۔ فوٹو: اے پی پی

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے آئندہ دو ماہ کے لیے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق شرح سود 9.5 فیصد برقرار رکھی گئی ہے۔گورنرا سٹیٹ بینک یاسین انور نے پریس کانفرنس میں مالیاتی پالیسی پیش کرتے ہوئے بتایا کہ نومبر 2012ء میں افراط زر کی شرح 6.9 فیصد تھی جو جنوری 2013ء میں 8.1 فیصد ہو گئی۔گورنر کا کہنا تھا کہ رواں سال میں اوسط گرانی 8 سے 9 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے جب کہ سرکاری طور پر اس کے لیے جو 9.5 فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا تھا، وہ اس کے اندر ہی ہے۔

واضح رہے کہ بینکوں کی شرح سود میں کمی یا اضافے کا کلی اختیار ایس بی پی کے ہاتھ میں ہے لیکن اس شرح کو اوپر نیچے کرنے والے ماہرین اقتصادیات مالیاتی استحکام پیدا کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو پاتے، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس سوال کا جواب اعداد و شمار کے جس طومار کے ذریعے دیا جاتا ہے ایک عام پڑھے لکھے آدمی کو اس کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔ انھیں اول تو شرح سود کی اصطلاح کا ہی پتہ نہیں ہوتا، وہ معیشت پر اس کے اثرات کے بارے میں کیا سمجھ سکتے ہیں؟ عوام روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر سے پریشان ہیںکیونکہ وہ جب بازار میں کوئی چیز خریدنے جاتے ہیں تو انھیں پتہ چلتا ہے کہ ہزار روپے کی کوئی ویلیو نہیں ہے۔ اتنی رقم سے توسارے گھر والوں کے لیے کپڑے بھی نہیں خریدے جا سکتے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے اعتراف کیا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی مہنگائی میں مزید اضافے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ روپے کی قدر کو مسلسل زوال پذیر ہونے سے کس طرح روکا جا سکتا ہے، اس کے لیے سخت پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

گورنرا سٹیٹ بینک نے یہ بھی بتایا کہ 2013ء کی پہلی ششماہی میں بیرونی جاری کھاتے میں 250 ملین ڈالر کے اضافہ کے باوجود زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 31 جنوری 2013ء کو 8.7 ارب ڈالر رہ گئے۔ جب کہ جون 2012ء میں یہ 10.8 ارب ڈالر تھے۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی صرف اس وقت ہوتی ہے جب درآمدی اشیاء کی قیمت زرمبادلہ میں ادا کرنا پڑے۔ تو کیا ایس بی پی اس پہلو پر بھی کوئی نظر رکھتا ہے کہ زر مبادلہ میں ادائیگی کن اشیاء کی خریداری پر کی جاتی ہے ۔ اس حوالے سے بھی عوام کو آگاہ کیا جانا چاہیے۔ گورنر ایس بی پی نے تسلیم کیا کہ مالیاتی خسارے میں اضافہ ہوا ہے لیکن انھوں نے اس مالیاتی خسارے کی وجوہات پر روشنی نہیں ڈالی۔ دریں اثناء رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں جی ڈی پی کے 0.7 فیصد کے برابر اتحادی سپورٹ فنڈ کی وصولی کے بعد حکومت کے غیر ٹیکس محاصل میں اضافہ ہوا تاہم اس کے باوجود مالیاتی خسارہ ہدف سے بہت بعید رہنے کی توقع ہے، گورنر اسٹیٹ بینک نے توقع ظاہر کی کہ جاری کھاتوں کا خسارہ معیشت کا ایک فیصد رہ سکتا ہے۔

انھوں نے ملک کے اقتصادی بحران کو عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں مسلسل اضافہ کا نتیجہ قرار دیا اور ''نوید'' سنائی کہ ملک میں توانائی کے بحران اور امن و امان کے بگڑتے ہوئے حالات کی وجہ سے 2013ء میں معاشی شرح نمو 4 فیصد سے کچھ کم رہنے کی توقع ہے۔ حکومت کی جانب سے بجٹ سپورٹ کے مقصد کی خاطر لیے گئے بھاری مالیاتی قرضے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یاسین انور نے کہا کہ گزشتہ 4 سال کے دوران حکومت کی جانب سے بجٹ سپورٹ کے لیے لیے گئے مالیاتی قرضے میں 60 فیصد کے لگ بھگ اضافہ ہوا ہے، جو تشویشناک ہے۔ گورنر نے مزید بتایا کہ مالی سال 2013ء کے پہلے سات ماہ کے اخراجات چلانے کے لیے آئی ایم ایف سے 1.4 بلین ڈالر کا قرضہ درکار ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی مد میں 2013ء کے پہلے پانچ ماہ کے دوران 1.6 ارب ڈالر اور 2014ء میں 3.2 ارب ڈالر کی ادائیگیوں سے بھی صورتحال بہتر نہیں ہو گی، البتہ حکومت کو جی تھری لائسنس کی فروخت سے 850 ملین ڈالر کی آمدنی متوقع ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں