عصمت گئی تو کیا ہواَ خاندانی ناک تو بچ گئی نا

ملتان کی حوازادیوں نے اپنی عصمت کے خون سے ’خاندانی ناک‘ کو غسل دیا تو یہ ناک محفوظ ہوئی اور دونوں گھرانے شیروشکر ہوگئے


صدام حسین July 27, 2017
اِس اندھیر نگری میں 1947ء سے آج تک ہم پر حکمرانی کرنے والے اُن تمام حکمرانوں کا احتساب کیا جائے جنہوں نے اِس معاشرے کو جان بوجھ کر جاہل اور گنوار رکھا۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR: گاوں میں بڑے بوڑھے ہمیشہ اپنی اولاد کو خاندانی وقار کے تحفظ کے لیے اپنی ''پَگ'' جسے عرف عام میں پگڑی کہتے ہیں کا واسطہ دیتے کہ بیٹا کوئی ایسا کام نہ کر گزریو جس سے تیرے باپ کی 'پَگ' پر داغ لگ جائے اور معاشرے میں عزت رُل جائے۔ بالکل اِسی طرح مائیں بھی اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے فقط روٹی گول کرنے کا طریقہ بتاتیں اور ساتھ ساتھ 'خاندانی پَگ' کی حرمت ہر صورت برقرار رکھنے کا سبق دیتیں۔

اگر کسی کا بیٹا یا بیٹی ناخلف اور ناہنجار نکل آتے اور کوئی ایسا کام کر بیٹھتے جس سے باپ کی پگڑی پر داغ لگنے یا 'خاندان کی ناک' کٹنے کا خدشہ ہوتا تو گاوں بھر میں غدر برپا ہوجاتا۔ چونکہ گاوں میں دوسروں کے معاملات میں دلچسپی لینا عام بات ہے اِس لیے کسی کی بہو بیٹی کی بدنامی کی بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ پھر یہ بات آس پڑوس کے گاوں تک بھی پہنچتی اور کچھ اِس طرح ہاہا کار مچتی کہ الامان الحفیظ۔

اگر کوئی لڑکا یا لڑکی کبھی پسند کی شادی کی خواہش نوکِ زبان پر لے آتے یا خاندان کے فیصلے کے برخلاف جانے کا سوچ بھی لیتے تو یہ 'مقدس ناک' فوراََ خطرے میں گِھر جاتی اور اِس کو بچانے کے لیے ہر طرح کی قتل و غارت گری، خون ریزی، ظلم و زیادتی جائز ٹھہرتی۔ سینکڑوں حوازادیاں اِس 'خاندانی وقار' اور 'حد سے بڑھی ہوئی ناک' کی حفاظت کے لیے قربان ہوچکیں ہیں۔ سینکڑوں لڑکیوں کے گلے اُن ہی کے اپنے بھائیوں اور باپوں نے کاٹے۔ صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی غلطی کو غلطی سمجھنے کے بجائے جرم قرار دیکر سزا کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے، اور ترقی کے اوج کمال کو چھوتی تہذیب کے دور میں بھی ہمارے معاشرے کی سب سے قیمتی متاع یہ 'خاندانی ناک' ہی ہے۔

ملتان کے مضافاتی علاقے میں بھی جب ایک خاندان کی 'ناک' کٹ گئی تو اُس کی سرجری کے لیے بھی وہی طریقہ کار اپنایا گیا جس طرح سے ناک کٹی تھی۔ ایک 12 سالہ لڑکی سے جنسی زیادتی ہوئی تو خاندان کے بڑوں کے اکٹھ میں ایک 'لمبی ناک والے' نے فیصلہ صادر کیا کہ زیادتی کرنے والے کی بہن اب اِس کا بدلہ چکائے گی۔ حکمِ حاکم تھا سو مرگ مفاجات ٹھہرا، اور تکمیل کیلئے ایک اور حوا زادی کو اپنی عصمت کی بھنیٹ پیش کرنا پڑی۔ اِس جہالت پر زمین پھٹی نہ آسمان ٹوٹا۔ دو حوازادیوں نے اپنی عصمت کے خون سے 'خاندانی ناک' کو غسل دیا تب جاکر یہ ناک محفوظ ہوئی اور دونوں گھرانے شیر و شکر ہوگئے۔ لیکن پھر معاملے کی بھنک میڈیا کو پڑگئی اور میڈیا کے شور و غوغے پر پولیس کو بھی ایک ہفتہ قبل ہونے والی انسانیت کی اس تذلیل کی گواہی دینا پڑگئی اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی سو موٹو ایکشن لینا پڑگیا، یوں رنگ میں بھنگ پڑگیا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ایسے لاتعداد واقعات ہر دن اِس جہالت زدہ اور جھوٹی انّا کی حفاظت میں لگے احساس محرومی سے شکست خوردہ اِس بے راہرو معاشرے میں وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں المیہ یہ کہ لمبی لمبی ناکوں والے گدھ اِس معاشرے میں عورت کو بے زبان مخلوق سے زیادہ درجہ دینے کو تیار نہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2004ء سے 2016ء تک ملک میں 4734 حوازادیوں کو ہوس پرست انسانی کھال میں درندوں نے اپنی جنسی ہوس کا نشانی بنایا، 5504 عورتوں کو اغواء کیا گیا جن میں سے بازیابی کی شرح ناہونے کے برابر ہے، اور سب سے لمبے چوڑے اعداد و شمار تو اُن بد قسمت بیٹیوں کے ہیں جن کو خاندان کی ناک پر بوجھ سمجھتے ہوئے اُنہی کے اپنوں نے گلہ دبا کر، شہ رگ کاٹ کر، زہر پلا کر اور پٹرول سے آخری غسل دیکر ختم کردیا۔ ایسی بدقسمت لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد 15222 ہے۔ یہ وہ شماریے ہیں جو کسی نہ طرح رپورٹ ہوتے رہے، لیکن ہزاروں کیس تو ایسے ہوتے ہیں جہاں 'ناک' کو محفوظ رکھنے کی خاطر کسی کو واقعے کی بھنک تک نہیں پڑنے دی جاتی۔

اِس اندھیر نگری میں اب احتساب کی ہوا چل رہی ہے تو ایسے میں 1947ء سے آج تک ہم پر حکمرانی کرنے والے اُن تمام حکمرانوں کا احتساب کیا جائے جنہوں نے اِس معاشرے کو جان بوجھ کر جاہل اور گنوار رکھا۔ ملکی تاریخ میں تعلیم کبھی بھی کسی حکمران کی ترجیح نہیں رہی۔ اشرافیہ کو ڈر اِس بات کا ہے کہ چیتھروں میں ملبوس غریبوں، بدبو دار مزدوروں اور دھوپ سے سڑے جسموں والے کسانوں کی اولادوں کو پڑھا لکھا دیا گیا تو کل کلاں یہی ادنیٰ مخلوق اپنے حقوق سے آگاہ ہوکر گلے کو آئے گی۔ بہتر یہی ہے اِنہیں تعلیم و شعور دینے کی بجائے نسل در نسل جاہل رکھو۔ یہ جاہل خود ہی بچے کھانے والے سانپ کی طرح اپنے بچے کھاکر اپنے انتقام کو پہنچ جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔