کیا پاکستان لاوارث ہے
پاکستان کے حالات کی نوبت اب یہاں تک آ پہنچی ہے کہ آدھے پاکستانی بھی اس کی قیادت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
دنیا کا روئے زمین کا سب سے بڑا نظریاتی ملک پاکستان آج ایک لاوارث ہے جسے طالع آزماؤں' غیر نظریاتی لوگوں اور قسمت کا حال جاننے والوں نے بچوں کے کھیل کا میدان بنا لیا ہے۔ آج کی دنیا میں یوں تو نظریات کی بنیاد پر قائم ہونے والے ملک دو ہیں' اسرائیل اور پاکستان لیکن اسرائیل یوں ایک نا جائز ملک ہے کہ اس کے شہری یہودیوں نے اسے عربوں سے چھینی گئی زمین پر آباد کیا ہے اور مقبوضہ عرب زمینوں پر اس کی وسعت بدستور جاری ہے۔
یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کی بین الاقوامی' جغرافیائی سرحدیں نہیں ہیں کیونکہ اس قبضہ گروپ کو دنیا کے بہت بڑے اسلامی حصے پر پھیلنا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان خالصتاً جمہوری طریق کار کے مطابق ایک سمجھوتے کے تحت وجود میں آیا ہے۔ اس نے نہ تو کسی کی ایک انچ زمین پر قبضہ کیا ہے اور نہ ہی اپنی جغرافیائی سرحدیں غیر متعین اور نامعلوم رکھی ہیں بلکہ یہ ملک نہ صرف ایشیا کے اس بڑے خطے کے مسلمانوں کا ملک ہے بلکہ عالم اسلام کا ایک ''فرد'' اور شہری بھی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس کے قیام پر فخر کیا تھا اور اسے اپنی نو خیز طاقت قرار دیا تھا۔ اگرچہ پاکستان کے بیشتر سیاست دانوں نے اسلام کا پرچم لہرانے میں تامل سے کام لیا بلکہ مغربی دنیا کی خوشنودی کو ترجیح دی البتہ بھٹو جیسے متنازعہ حکمران نے ملک میں ایٹمی ترقی کی بنیاد رکھی جس کے نتیجے میں یہ ملک بالآخر ایک ایٹمی ملک بن گیا۔ مسلمانوں کا پہلا ایٹمی ملک اور دنیا کا ساتواں۔
پاکستان کے ایٹمی ملک بن جانے پر مسلمانوں نے اس قدر خوشی ظاہر کی کہ دنیا بھر میں مسجدیں پاکستان کی تعریف سے گونج اٹھیں۔ بیت المقدس کے مفتی اعظم نے خصوصی بیان جاری کیا اور میاں نواز شریف کے بقول انھیں کئی مسلمان سربراہوں نے مبارکباد دی اور کہا کہ یہ ایٹم پاکستان کا ہی نہیں ہم سب کا ہے لیکن اسلام دشمن اور اس واسطے سے پاکستان دشمن مغربی ملکوں کی خوشامد میں ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کی اسلامیت کو دبا کر رکھا اور اس کو ایک سیکولر ملک بنانے کا اعلان کرتے رہے مگر اس ملک کے عوام نے اس ملک کو اب تک ایک مسلمان ملک ہی سمجھا اور آج بھی وہ کسی کتوں والی روشن خیال سرکار کو علانیہ ناپسند کرتے ہیں۔
اس بڑی ہی طویل تمہید کو میری اس گزارش کا ابتدائیہ سمجھئے جو میں اس کے لیڈروں کے بارے میں عرض کرنے والا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے اور یہ ایک نہایت ہی حیران کن بات ہے کہ وہ لوگ بھی پاکستان کے قائدین میں شمار ہو رہے ہیں جو پاکستانی نہیں ہیں۔ یوں کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور کسی نظریاتی ملک کی دوہری شہریت نہیں ہو سکتی یعنی آپ اسلام اور کسی دوسرے مذہب کو بیک وقت اپنا نہیں سکتے۔ آپ ایک مسیحی' یہودی یا ہندو ملک کے (اگرچہ رسمی طور پر ہندو ملک کوئی نہیں ہے) بیک وقت شہری نہیں ہو سکتے اور ایک لحظہ کے لیے اگر یہ مان بھی لیا جائے تو آپ پھر صرف آدھے پاکستانی ہوئے اور کسی ملک کا کوئی آدھا شہری اس ملک کا لیڈر اور الیکشن کا امیدوار کیسے بن سکتا ہے۔
غنیمت ہے کہ اس گئے گزرے وقت میں بھی قانون نے کسی دہری شہریت والے کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی لیکن ایسے نصف پاکستانی اور دہری شہریت والے سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی کر رہے ہیں اور دوسروں کو الیکشن بھی لڑوا رہے ہیں۔ ہماری بعض نامور سیاسی جماعتوں کے لیڈر اپنے ساتھی لیڈروں کا ایک 'جم غفیر' لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور ان سے آنے والے الیکشن کے معاملات پر گفتگو کرتے ہیں۔ مجھے اس ملاقات میں بعض لیڈروں کو دیکھ کر واقعی دکھ ہوا کہ وہ بھی ایسے ہی ہیں یا کسی جادوگری کے اثر میں تھے۔ مغربی دنیا نے پاکستان کو جلانے کے لیے ڈالروں کی بوریاں بھجوائی ہیں جو بھوکے اور لالچی ملکوں میں جلدی آگ پکڑ لیتی ہیں اور اس خاصیت میں آزمودہ ہیں۔ ہم نے ہزاروں لوگوں کو ڈالر لہراتے ایک جلسے میں دیکھا اور یہ نتیجہ تھا ان خود پرست اور کرپٹ لیڈروں اور حکمرانوں کا جنھوں نے ملک کو بھوکا مار دیا ہے اور اس بے حیائی کے ساتھ کہ محل پر محل تعمیر ہو رہے ہیں' کروڑوں اربوں کے خرچ سے مگر کسی کی پروا نہیں ہے کیونکہ وہ اس قوم کے لوگوں کو بھوکوں مار کر بے جان کر چکے ہیں جن میں ہلنے جلنے کی سکت باقی نہیں رہی۔
خبر ملی ہے کہ لاہور کے اس دوسرے شاہی قلعے کو دیکھنے کے لیے میڈیا والے بھی پہنچ گئے اور اس کے اہم ترین پاکستانی مکین کو دیکھنے اور بات کرنے کے لیے بھی کیونکہ یہ ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے لیکن یہاں ان کے ساتھ وہی ہوا جو کسی بے قابو جلسے جلوس کو قابو میں لانے والی پولیس کیا کرتی ہے یعنی لاٹھی چارج' پانی کی تیز دھاروں سے حملہ' مار پیٹ وغیرہ وغیرہ۔ میڈیا کے کچھ لوگ اسپتال میں ٹکور بھی کروا رہے ہیں۔ میں نے ٹی وی پر یہ مناظر دیکھے ہیں اور اب تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر ایسی بات کیا تھی جس پر اس قدر ہنگامہ ہوا۔کچھ بھی غیر معمولی نہیں تھا' ایک عام سی بات تھی لیکن یہ سب رموز خسرواں کے ضمن میں آتا ہے اور گدائے گوشہ نشین کے موضوع سے باہر ہے۔
رموز مملکت خویش خسرواں دانند
گدائے گوشہ نشینی تو حافظا! مخروش
عرض یہ کر رہا تھا کہ پاکستان کے حالات کی نوبت اب یہاں تک آ پہنچی ہے کہ آدھے پاکستانی بھی اس کی قیادت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔کوئی مسیحی ملک کینیڈا کا شہری ہے تو کوئی مسیحیوں کے لیڈر ملک برطانیہ کا۔ ویسے کینیڈا بھی ملکہ برطانیہ کی عملداری میں شامل ہے۔ اپنا آئین بننے تک ہم پاکستانی بھی ملکہ معظمہ کی رعایا میں سے تھے۔ اس کی ایک عبرت انگیز مثال میں ایک سے زیادہ مرتبہ نقل کر چکا ہوں لیکن یہ عام پاکستانی نہیں ان کے لیڈروں کی تھی جو نہایت بے شرمی کے ساتھ مکہ معظمہ کے سامنے کورنش بجا لائے۔ اب اسی قبیلے کے لوگ آنے والے الیکشن میں امیدوار بھی ہوں گے۔ میں نے ان سطروں کے آغاز پر اس ملک کو لاوارث کہا تھا کیونکہ یہ اب تک اپنے ان وارثوں سے محروم ہے جو اس کی وجہ قیام اور اس کے نظریات کے وارث کہلا سکیں۔ مجھے ڈر ہے کہ لاوارثی کے اس زمانے میں کوئی ایسا وارث نہ بن جائے جو غیر پاکستانی بھی ہو سکتا ہے اور کوئی بالکل اجنبی بھی۔ تعجب اور شکایت ان لیڈروں سے ہے جنھیں قوم نے بانس پر چڑھا دیا لیکن وہ یہ دیکھ کر گھبرا گئے اور جلد ہی روایتی لیڈروں' موقع پرست اور طالع آزماؤں کے چنگل میں پھنس گئے۔