کیا جنگ گریز سماج ممکن ہے

جنگیں لوگوں کے ذہنوں میں شروع ہوتی ہیں‘‘ بالکل اسی طرح امن بھی انسانی ذہنوں میں شروع کیا جاسکتا ہے۔

shaikhjabir@gmail.com

اشتراکی تصور کے مطابق مزدور جب ایک دوسرے کو قتل کرنے کی حمایت سے انکار کریں تو جنگیں ختم ہوجائیں گی۔ (پہلی عالمی جنگ کی مخالفت میں لکھا جانے والا ایک منشور اعلان کرتا ہے۔) جنگیں کس طرح ختم ہو سکتی ہیں؟ کیا جنگ گریز سماج ممکن ہے؟ انسان بنیادی طور پر جنگ جُو ہے، لڑاکا ہے یا امن پسند؟ یہ سوالات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ آپ نے عام طور پر اِس قسم کے بیانات سنے ہی ہوں گے، جس میں انسان کو حیوان قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی اُسے حیوانِ ناطق کہا جاتا ہے تو کبھی سماجی حیوان۔ یہ بھی باور کیا جاتا ہے کہ ہر انسان کے اندر ایک حیوان چھپا ہوتا ہے۔ یعنی اس سے جبلی طور پر حیوانیت ہی سرزد ہوتی ہے۔ اگر انسان بنیادی طور پر حیوان قرار پاتا ہے تو اس سے حیوانیت کے علاوہ کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ اِس طرح گویا آپ نے اپنی بات کی ابتدا ہی میں یہ فرض کر لیا کہ جنگ گریز سماج ممکن ہی نہیں ہے۔ انسان لامحالہ لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل کی جانب جانے والا ہے۔

ولیم جیمز نے کہا تھا کہ تاریخ لہو میں نہائی ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بیسویں صدی میں مختلف جنگوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد سولہ کروڑ تھی۔ ہال کین نے 1995 میں لکھتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ ''ایک تجزیے کے مطابق 1945 کے بعد ہونے والی جنگوں میں ہلاکتوں کی تعداد انیسویں صدی سے دگنی اور اٹھارویں صدی سے سات گنا زیادہ تھی''۔ اس حیرت انگیز اضافے کی وجہ کیا تھی؟ اس اضافے کی وجوہات تلاش کرنے کے لیے ہمیں یونانی فکر و فلسفہ سے مغربی فکر و فلسفے تک کے اہم مباحث کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ طرز زندگی میں تبدیلی کا براہ راست تعلق الٰہیات، مابعد الطبیعیات اور علمیات سے ہے۔ یہ اگر تبدیل ہوں تو سب تبدیل ہوجاتا ہے۔ مغربی فکر و فلسفے کے فروغ نے دنیا میں تشدد کو جنم دیا ہے جو پھیلتا ہی جارہا ہے۔

سترھویں صدی سے پہلے دنیا کی تاریخ میں صرف چھتیس کروڑ لوگ مارے گئے تھے۔ سترھویں صدی کے بعد جب دنیا ترقی یافتہ ہوگئی، نئی سائنس پیدا ہوئی۔ جمہوریت کا انمول دور شروع ہوا، تب دہشت گردی اور جنگیں طاعون کی طرح پھوٹ پڑیں۔ رومیل کے مطابق صرف تین سو سال میں پونے دو ارب لوگ مارے گئے۔ اس کی وجوہات فلسفیوں کے متشدد افکار میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ تمام مغربی فلسفیوں کے افکار آخر کار حرص و حسد کی عالم گیریت کو ممکن بناتے ہیں۔ یہ عالم گیریت، عالم گیر تشدد، جنگی جنون کا باعث ہے۔ بنیادی حقوق، آزادی، انسانی حقوق، مساوات، جمہوریت، لبرل ازم کے فلسفے تشدد کے فروغ کا سبب بنے ہیں۔ اِن سے نفرت، حرص و حسد اور بہیمیت عام ہوئی ہے۔ سیاست میں یہ عمل جمہوریت کے ذریعے ممکن ہوتا ہے اور معیشت میں سرمایہ دارانہ نظم معیشت کے ذریعے۔ یہی دو ذریعے دنیا میں جنگوں کی دائمی موجودگی کو ممکن بناتے ہیں۔

یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ سیاسیات کے امریکی سیاسی علما اور ان کے شاگرد ہلاکت گریز سماج کے امکان کو پر زورطور پر مسترد کر دیتے ہیں۔ اگر کسی یونیورسٹی کے تعارفی کورس سے لے کر گریجویٹ کلاس سیمینار میں ہلاکت گریز سماج کا سوال اٹھایا جائے تو انسانی فطرت، معاشی وسائل کی کم یابی اور جنسی اور دیگر حملوں کے خلاف دفاع کی ضرورت کے بنیادی اعتراضات روایتی طور پر سامنے آتے ہیں۔ گو کہ جوابات ثقافتی بنیادوں پر دیے جاتے ہیں لیکن ان میں بلا کا تنوع پایا جاتا ہے اور ان کی شاخیں لامحدود ہوتی ہیں۔ ہر بار جب سوال اٹھایا جاتا ہے تو کوئی نئی بات سامنے آسکتی ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ نوع انسانی غلبے کی جستجو میں رہتی ہے، وہ خود غرض، حاسد، ظالم اور جنونی ہے، خود حفاظتی میں قتل کرنا حیوانی رجحان ہے اور ایک ناقابلِ تقسیم انسانی حق ہے۔ انسان معاشی طور پر حریص اور مقابلے پر آمادہ رہتے ہیں، سماجی اختلافات اور متصادم مفادات قتل کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔ سزا کے طور پر جرائم پیشہ افراد کو ہلاک کرنا سماج کو فائدہ پہنچاتا ہے اور دوسروں کو ایسے اقدام سے روکتا ہے۔ ہتھیاروں کی ایجاد کو ختم نہیں کیا جاسکتا، مہلک ٹیکنالوجی ہمیشہ موجود رہے گی۔ تاریخ میں ہلاکت گریز کسی سماج کی کوئی مثال نہیں ملتی، یہ قطعاً ناقابلِ تصور ہے۔ وغیرہ وغیرہ


مندرجہ بالا آراء اِس تواتر سے ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں کہ ہم کم ازکم لاشعوری طور پر تو جنگ گریز سماج کے امکان کو بھی مسترد کر بیٹھتے ہیں۔ ایسے میں گلین ڈی پیج کی آواز اجتماعی شعور کو جھنجھوڑنے کا کام دیتی ہے۔ وہ ثابت کرتا ہے کہ انسان انسان ہے حیوان نہیں۔ نیز یہ کہ جنگ گریز سماج عین ممکن ہے۔ وہ ایک نئی سیاسیات کی بنیاد رکھتا ہے اور اسے ''نان کِلنگ پولیٹیکل سائنس'' قرار دیتا ہے۔

ٹولین یونیورسٹی نیو اورلینز، لوزیانا کے ماہر نفسیات لوہ سنگ تسائی 1963 میں مظاہرہ کرچکے ہیں کہ چوہے کھانے والی بلی اور ایک چوہے کو پرامن طور پر ایک ہی برتن میں کھانا کھانے کی تربیت دی جاسکتی ہے۔ یہ سماجی آموزش کی آمیزش کا طریقہ کار تھا۔ تجربے کی ابتدا میں شیشے کی دیوار کے ذریعے دونوں کو علیحدہ رکھا گیا ۔جہاں دونوں جانوروں نے سیکھا کہ خوراک کی ایک مشترک پلیٹ میں خوراک پہنچانے والے آلے کو چلانے کے لیے یکے بعد دیگرے متوازی لیوروں کو دبانا پڑے گا۔ سات ہزار تربیتی نشستوں کے بعد یہ ممکن ہوسکا کہ شیشے کی درمیانی رکاوٹ کو ہٹا دیا جائے اور چوہا، بلی کا تر نوالہ نہ بنے۔ تسائی نتیجہ پیش کرتے ہوئے کہتا ہے: سائنس کی تاریخ میں ہم نے پہلی بار تجربات کے ذریعے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ بلیاں اور چوہے تعاون کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ اس طرح کی دریافت نفسیات میں اس روایتی عقیدے کو سمندر برد کر دیتی ہے کہ حیوانی فطرت میں ایک ناقابلِ تنسیخ جھگڑالو جبلت موجود ہے جو لڑائی یا جنگوں کو ناگزیر بنا دیتی ہے۔ تسائی نے کہا کہ ''بہت سوں کا خیال ہے کہ ہماری تحقیق نے امنِ عالم کے نظریاتی امکان کے لیے اساسی حیاتی بنیاد کا ابتدائی پتھر رکھ دیا ہے''۔ نفسیاتی معالج جیروم جے فرینک تعاون کی تجویز یہ ہے کہ ہلاکت خیز مخاصمتوں پر قابو پانے کے لیے مشترک فائدے مند ہدف ہونے چاہئیں۔ (فرینک:صفحات 261: 1960، 5۔204:1993ء)

ماہرین کے ایک بین الاقوامی گروپ نے 16 مئی 1986 کو سیوائل میں ''تشدد پر موقف'' کا تاریخی اعلان جاری کیا جس سے انسان کی ہلاکت گریز صلاحیتوں پر اعتماد کے لیے اہم سائنسی بنیاد فراہم ہوئی ہے۔ انھوں نے اعلان کیا: ''یہ کہنا سائنسی طور پرغلط ہے کہ ہم نے اپنے حیوانی اجداد سے جنگ کرنے کا رویہ ورثے میں پایا ہے۔ یہ کہنا سائنسی طور پرغلط ہے کہ جنگ یا کوئی دوسرا پرتشدد رجحان انسانی فطرت میں جینیاتی طور پر داخل کیا گیا ہے۔ یہ کہنا سائنسی طور پر صحیح نہیں کہ انسانی ارتقا کے عمل میں رجحانات کی دیگر قسموں کے مقابلے میں جارحانہ رجحان کو زیادہ اختیار کیا گیا۔ سائنسی طور یہ بات قطعی بے بنیاد ہے کہ انسان ایک ''پرتشد ذہن'' کا مالک ہے۔ سائنس اس بات کی کوئی بنیاد فراہم کرنے سے قاصر ہے کہ جنگ کا باعث ''جبلت'' یا کوئی واحد تحریک ہے۔

انسان حیاتیاتی طور پر پرتشدد مزاج نہیں رکھتا۔ جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ ''جنگیں لوگوں کے ذہنوں میں شروع ہوتی ہیں'' بالکل اسی طرح امن بھی انسانی ذہنوں میں شروع کیا جاسکتا ہے۔ جان لیجیے انسانی اذہان میں امن کی کاشت کی ذمے داری ہم میں سے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے۔ زیتون کی شاخ بندوق کی نال میں نہیں محبت کے باغ میں سرسبز رہتی ہے۔
Load Next Story