بے حِسی
نفسا نفسی کے اس دور میں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں۔ ہر شخص صرف اپنا فائدہ سوچتا ہے
میرے اردگرد ہر طرح کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں سبھی لوگوں کے ساتھ اس طرح ہوتا ہے۔ اس طرح کا ہونا کوئی خاص بات نہیں ہے۔ خاص بات صرف یہ ہے کہ اب بے حِسی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ بے حسی نہ صرف اسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں تک پہنچ گئی ہے بلکہ اب تو اسپتالوں، دکانوں، پارکوں، کارخانوں سے ہوتی ہوئی دفتروں اور گھروں کے اندر تک چلی آئی ہے۔ بے حسی نے ہم سب کو بری طرح اپنی لپیٹ میں جکڑ لیا ہے اور اس سے جان چھڑانا بہت حد تک نامکمن نہیں تو مشکل ضرور ہوگیا ہے سمجھ میں نہیں آتا ہمارا کیا بنے گا۔
خیر یہ تو ایک جاہلانہ سوال ہے کہ ہمارا کیا بنے گا کیونکہ یہ بات کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس کا کیا بنے گا۔ اگلہ لمحہ بھی غائب ہے اور گذشتہ لمحہ بھی، غیب کا علم سوائے خدا کے کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس کے باوجود غائب پر ایمان فرض کیا گیا ہے اور غیب پر ایمان نہ رکھنے والا بھی مسلسل غیب ہی کے کرشموں کا شکار رہتا ہے۔
ہم لوگ بدقسمت یا بد بخت اس لیے ہیں کہ غیب کو ماننے کے باوجود بے حِس ہو رہے ہیں۔ جو دن میں پانچ مرتبہ غائب کی گواہی دے وہ بے حس کیسے ہوسکتا ہے۔ کیونکہ وہ تو اس زندگی سے آگے بھی ایک زندگی کا تصور رکھتا ہے۔ تصور کیا رکھتا ہے بلکہ ایمان رکھتا ہے۔ اب اس طرح کے بہت سارے لوگ جب اکٹھے زندگی گزار رہے ہوں تو وہ بے حس کس طرح ہو سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ یعنی ہم لوگ بے حس ہوگئے ہیں اب اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ بظاہر اس کی صرف ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ ہم غائب کو زبانی زبانی ضرور مانتے ہیں یعنی زبان سے اقرار ضرور کرتے ہیں لیکن دل سے تصدیق نہیں کرتے۔ جیسے اکثر مسلمان نماز پنجگانہ نہیں پڑھتے لیکن جمعہ کی نماز ضرور پڑھتے ہیں جیسے بہت سارے مسلمان شراب ضرور پیتے ہیں لیکن سور کا گوشت نہیں کھاتے۔
خیر مجھے اپنی فکر کرنی چاہیے اور لوگوں کے بارے زیادہ بات اس لیے نہیں کرنی چاہیے کیونکہ میں بھی اور لوگوں کی طرح نہیں ہونا چاہتا جو وہ تمام باتیں خود ان لوگوں سے زیادہ کرتے ہیں جن کی اپنی باتوں پر وہ باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ان کی مثال چنگیز خان کے اس بڑھیا پر رحم کھانے کی مثال سے واضح ہوتا ہے جس کے میدان میں گرے ہوئے زندہ بیٹے کو نیزہ مار کے چنگیز خان نے اس کی ماں کی گود میں ڈال دیا تھا۔ ہم لوگ کچھ اس انداز سے باتوں کے ذریعے بھی رحم دلی کا اظہار کرتے رہتے ہیں یہ بات قطعاً جائز نہیں ہے۔
بے حسی کے انگنت واقعات جو آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں اور اکثر اوقات ہمارے سامنے ہوتے ہیں گنوائے جا سکتے ہیں۔ ان واقعات کا تسلسل کے ساتھ ہونا اب کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی جیسے کراچی میں لاشیں گرنا روز مرہ کا معمول ہے اور اب اسے کوئی بھی اچنبھے کی بات نہیں سمجھتا۔ خود کش حملوں کا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے جس طرح اور بے شمار ناگوار باتوں کا تکرار کے ساتھ ہونا اب ہمارے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی لیکن پھر بھی اکا دکا واقعات آدمی کو سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں ک ؎
ابھی کون تھے اور کیا ہوگئے ہم
ابھی جاگتے تھے ابھی سوگئے ہم
مورخہ 5 فروری کو میں صبح کے وقت ایک پرواز سے کراچی سے اسلام آباد آرہا تھا۔ پرواز وقت پر کراچی سے روانہ ہوئی۔ عین وقت پر اسلام آباد کی فضائوں میں داخل ہوئی لیکن بارش اور طوفان کے باعث اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اتر نہ سکی اور لاہور چلی گئی۔ چونکہ جمبو جہاز تھا اس لیے پائلٹ کے اعلان کے مطابق پانچ سو سے زاید مسافر حضرات خوتین اور بچے اس پرواز کے ذریعے لاہور پہنچے تھے، ساڑھے نو بجے لاہور پہنچنے والی پرواز تقریباً پانچ گھنٹوں کے بعد یعنی تین بجے لاہور سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئی اور تمام مسافر بخیریت اسلام آباد پہنچ گئے۔
اب آپ کہیں گے کہ اس میں بے حسی کیا ہوئی بالکل ٹھیک سوال ہے بے حسی ان چار گھنٹوں کے لاہور کے ہوائی اڈے کے لائونج میں مسافروں کے ساتھ برتائو کے مظاہرے کے دوران ہوئی۔ ہزاروں روپے سرکاری یا اپنی جیب سے خرچ کرنے والے مسافروں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا جو شاید کسی بھی معزز شہری کے لیے جائز نہ تھا کم ازکم اس شہری کے لیے جو آپکا گاہک بھی ہو۔ مسافروں میں ایک صاحب محمد عارف یار ملک نامی مسافر بھی تھے۔ جو سعودی عرب سے کراچی پہنچے تھے اور اسی پرواز سے اسلام آباد جا رہے تھے کیونکہ ان کے والد کا جسد خاکی تلہ گنگ میں دفن سے پہلے اپنے لخت جگر کی راہ تک رہا تھا۔ بے چین اور مضطرب بیٹا اپنے والد بزرگوار کا آخری دیدار کرنے سے محروم نہیں رہنا چاہتا تھا۔ اس کے بیوی اور بچے بھی سعودی عرب سے اس کے ساتھ جہاز میں اسلام آباد جا رہے تھے ۔ وہ لاہور ہی میں جہاز سے off load ہونا چاہتا تھا تاکہ بذریعہ روڈ تلہ گنگ پہنچ سکے اور والد مرحوم کے جنازے میں شریک ہوسکے لیکن وہ دستی سامان کے علاوہ جہاز میں موجود اپنا سامان بھی لے کر off load ہونا چاہتا تھا۔ میں ائرپورٹ پر جہاز کمپنی کے عملے کے ساتھ اس کی منتوں سماجتوں درخواستوں اور التجائوں کو سن رہا تھا لیکن عملہ اسے بتا رہا تھا کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ سارا سامان اسلام آباد پہنچ کر ہی کھولا جائے گا اور سارے سامان کا لاہور میں کھولنا ممکن نہیں ہے۔ سامان نہ کھلنا تھا نہ کھلا کیونکہ سیکیورٹی خدشات کے تحت ایسا ممکن نہ تھا۔ اس حد تک بے حِسی کا کوئی لمحہ نہ تھا۔
بے حِسی اس ناروا رویے اور سلوک سے چھلک چھلک کر ظاہر ہو رہی تھی جو عارف یار ملک کے ساتھ روا رکھا جارہاتھا عملے کے کسی بھی فرد نے اس کے جذبات واحساسات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
اسی عارف ملک نے سعودی عرب سے چلنے سے پہلے وہاں کے واقعات سنائے اور بتایا کہ والد کی موت کی خبر اچانک سننے کے بعد اسے خیال آیا کہ اس کے سفری کاغذات سعودی لوازمات کے تحت پورے نہیںہیں جنھیں ضروری کارروائی کے لیے کم از کم تین چار روز درکار ہونگے۔ بہرحال جب اس کے مجاز افسران کو پتہ چلا کہ ملک کے باپ کی موت واقع ہوگئی ہے تو دفتری اوقات گزرجانے کے باوجود ساری کارروائی مکمل کروائی گئی تاکہ وہ فوری طور پر روانہ ہوسکے صرف یہ فرق تھا دونوں جگہوں کا جس کے باعث میں نے آج کا کالم اس کربناک بے حسی کے بارے میں لکھنے کا فیصلہ کیا ۔
اس بے حِسی کی وجہ کیا ہے؟
اس کی صرف اور صرف اور واحد وجہ یہ ہے کہ ہر طرف افراتفری کا عالم ہے سب ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ نفسا نفسی کے اس دور میں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں۔ ہر شخص صرف اپنا فائدہ سوچتا ہے اخبار اور ٹیلیوژن صبح سے شام تک آدمی کو ظلم وستم اور خوں ریزی کی انتہائوں سے اس قدر شرابور کردیتے ہیں کہ وہ اپنے آپ سے بھی ہمدردی کے قابل نہیں رہتا جو شخص اپنا نہیں ہوسکتا وہ دوسرے کا کیسے ہوسکتا ہے۔ ہم اب صرف اور صرف اپنے لیے جی رہے ہیں دوسرے چاہے کتنے ہی اپنے کیوں نہ ہوں اب پرائے ہی رہتے ہیں اور پرایا چاہے پڑوسی ہی کیوں نہ ہو اپنا نہیں ہوسکتا۔ ہم نے اب اسی صورت حال کو اصول بنالیا ہے اور اچھے لوگ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ خدا ہمار حامی وناصر ہو۔ آمین