ہم اپنے گریبان میں کب جھانکیں گے
اِس سے پہلے کہ میں آئینہ بکف شہر کی گلیوں میں نکلوں اپنے گھر پر نظر ڈالنے میں کیا ہرج ہے؟
ٹی وی اینکر کے گھر ملازم کی قید کے واقعہ سے اہلِ درد کی آنکھوں میں لہو اترا ہوا ہے، اِس سے پہلے بھی کسی ایم این اے کا گھریلو ملازم تشدد کی بناء پر جان کی بازی ہار گیا تھا، اِس سے بھی پہلے کی بات کریں تو کسی منصف کے گھر سے ایک زخم خوردہ بچی برآمد ہوئی تھی۔ ایسی خبریں پڑھتا ہوں تو دل پر ہاتھ پڑتا ہے کہ آخر ہمارے اہلِ اختیار کو کیا ہوگیا ہے؟ کمزوروں کی مجبوریوں کی سودے بازے کرتے ہوئے وہ شرفِ انسانیت سے بھی کیوں گرجاتے ہیں؟ لیکن اِس سے پہلے کہ میں آئینہ بکف شہر کی گلیوں میں نکلوں اپنے گھر پر نظر ڈالنے میں کیا ہرج ہے؟
ہمارے ہاں پاکستان میں ایک اُدھیٹر عمر خاتون کام کرنے کے لئے آتی ہیں، اُن کا کام صرف گھر کی صفائی ستھرائی ہے۔ اِس کے عوض وہ دو اڑھائی ہزار روپے وصول کرتی ہیں۔ اِسی طرز پر اِس سے پہلے بھی چند خواتین گھر پر چند گھنٹوں کے لیے آتی تھیں اور صفائی ستھرائی میں ماں جی کا ہاتھ بٹاتی تھیں جس کے عوض انتہائی قلیل تنخواہ پاتی تھیں۔ اتنی قلیل کے ایک گھر میں کام کرنے سے اُن کا گزارہ تک نہیں ہوتا تھا، اِس لئے وہ کئی کئی گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہوتیں ہیں۔ ایسا سیٹ اپ لوئر مڈل کلاس کی بہت سے گلی محلوں میں عام ملتا ہے، جہاں آپ کے پاس کام کرنے والوں کو رکھنے کی جگہ نہیں ہے، لیکن کلاس اور گھر کے بڑھنے کے ساتھ اِسی طرز کے پارٹ ٹائم کام کرنے والے فل ٹائم کسی کے ہاں ملازم ہوجاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس مزدوری کے عوض وہ کیا پاتے ہیں؟
پاکستانی معاشرے میں اُن مالکوں کو بہت اچھا تصور کیا جاتا ہے جو اِن لوگوں کے کپڑے، لتے اور کھانے پینے سمیت فیملی کی کفالت کی ذمہ داری بھی اٹھا لیتے ہوں۔ کچھ نیک دل لوگ ایسے کام کرنے والوں کے بچوں کو پڑھا کر اور اُن پر کچھ مہربانیاں کرکے خود کو حاجی ثناءاللہ قسم کی شے بھی سمجھنے لگ جاتے ہیں، حالانکہ وہ بھی اِسی استحصالی نظام کا حصہ ہیں، بس فرق یہ ہے کہ وہ زیادہ بُروں میں کم بُرے ہیں، اور سچ تو یہ ہے کہ اِس طرح مجبوروں کی محرومیوں سے فائدہ اٹھانا کسی طرز بھی قابلِ ستائش نہیں۔
آپ نے کسی بزرگ کی وہ مثال تو سنی ہوگی جن کے پاس کوئی مجبور جواہرات بیچنے آیا اور اُس نے بہت کم رقم طلب کی، بزرگ نے مجبور سے اونے پونے رقم کے عوض جواہرات خریدے تو کسی اور بزرگ نے اُن سے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اِس مجبور کو جواہرات کی قیمت کا اندازہ نہ ہو لیکن کیا تمہیں بھی اِن جواہرات کی مالیت کا اندازہ نہیں تھا؟ اسی مثال سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ کام کرنے والے جن مجبوریوں کے تحت گھروں میں کام کرنے نکلتے ہیں اُن کی مجبوریاں اپنی جگہ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم لوگ ایسے لوگوں کی قیمت کو ویلیو کر پاتے ہیں؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں۔ اب ایک اور سوال اُٹھتا ہے کہ اِن کی قیمت کو کیسے ویلیو کیا جاسکتا ہے، اِس کے لئے اسکینڈی نیویا ممالک کے تنخواہ کے نظام کو فالو کیا جا سکتا ہے۔
یہاں مزدور اور چھوٹے کاموں کی کم از اکم تنخواہ مقرر ہے، جیسے آجکل کم از کم تنخواہ ایک سو آٹھ کرون فی گھنٹہ کے حساب سے ہے۔ یعنی سولہ سو روپیہ فی گھنٹہ۔ آپ خواہ دفتر میں کلرک ہیں، صفائی کا کام کرتے ہیں، نرس ہیں، اسکول میں پڑھاتے ہیں، پیزا لگاتے ہیں، برگر بناتے ہیں، چوکیدار ہیں یا مزدور ہیں سب کی تنخواہ کم و بیش برابر ہے۔ ایسے میں اگر مجھے اپنے گھر کام کرنے کے لئے ایک نوکر کی ضرورت ہے تو ظاہر ہے مجھے اُس کی تنخواہ بھی کم از کم تنخواہ کے معیار کے مطابق رکھنی ہوگی۔
ڈنمارک میں آکر پہلے پہل جو کام میں نے کئے اُن میں ایک کام گھروں کے لان وغیرہ کی کٹائی کا تھا۔ ایک فرد کی کمپنی کھولی اور کئی سپر مارکیٹوں میں اشتہار لگا دیے۔ ایک وقت میں اپنی ہمت سے زیادہ کام ملا تو میرے پاس کسی ملازم کو دینے کے لئے تنخواہ نہیں تھی، کیونکہ اگر میں کام کے لئے ایک سو دس کرون فی گھنٹہ خود وصول کررہا ہوں تو اتنے ہی پیسے مجھے اپنے لئے کام کرنے والے کو بھی دینے ہوں گے۔
ایسا نہیں کہ یہاں امیر آدمی نہیں بستے، یورپ میں بھی لوگ فلپائن سے کام کرنے والوں کو لاتے ہیں، یا گھریلو کاموں میں مدد کرنے والے ملازم یہاں بھی دستیاب ہوتے ہیں لیکن اُن کی تنخواہ پوری کرنے کے لئے آپ کو بہت امیر ہونے کی ضرورت ہے، جبکہ پاکستان میں اپنے سے غریب آدمی ڈھونڈنا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ جیسے ہمارے ایک دوست نے گاوں میں بسنے والے اپنے دیگر کزن کی مدد کے لئے ایک جانوروں کا فارم قائم کرکے دیا تاکہ اُس کے بیکار کزن کوئی کام کرسکیں، لیکن کچھ ہی عرصہ بعد اُس نے دیکھا کہ اُس کے بیکار کزن جن کے پاس کوئی کام بھی نہیں تھا انہوں نے جانوروں کو چارہ ڈالنے کے لئے ایک اور بندہ رکھ لیا۔ یعنی پاکستان میں آپ کو مزدور اتنا سستا دستیاب ہے کہ آپ کو خود کام کرنے کی ضرورت کیا ہے؟
لوگ کہیں گے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کے قوانین درست نہیں اِس لئے کچھ بچوں پر ظلم ہو رہا ہے، لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پورے کا پورا نظام سیٹھ کلچر پر چلتا ہے، جہاں سیٹھ جی لوگوں کے خون پسنے سے پیسے چھانٹ کر اپنی تجوری بھرتے ہیں اور حسبِ منشاء لوگوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ کیا دفاتر میں کام کے اوقات مقرر ہیں؟ کیا شام کو پانچ بجے دفتر بند ہوجاتے ہیں؟ آپ چھوٹے دفاتر کی تو بات ہی نہ کیجئے، بڑے بڑے اداروں میں جب تک سیٹھ سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے تو جی ایم لیول کے لوگ بھی چھٹی کے وقت چھٹی نہیں کرسکتے۔ پھر یہی جی ایم جب اپنے گھر جاتا ہے تو اپنے سیٹھ کا بدلہ اپنے ملازم سے لینا اپنا حق سمجھتا ہے، یہاں پرائیویٹ نوکری میں سیٹھ کے عمل دخل کی بات تو سمجھ آتی ہے لیکن سرکاری دفاتر تک میں لوگ اپنے سے چھوٹے آفیسرز اور ماتحتوں کے ساتھ نوکروں والا سلوک کرتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹی میں پڑھانے والے ایک اسسٹنٹ پروفیسر دوست نے بتایا کہ اُن کا سالانہ انکریمنٹ صرف اِس وجہ سے منسوخ ہوا ہے کہ اُن کے اپنے چئیرمین سے کچھ اختلافات چل رہے تھے۔
اب بھلا ایسی صورتحال میں گھر میں کام کرنے والے نوکر کی اوقات ہی کیا؟ جب اُس گھر کا مالک بھی کسی نہ کسی انداز میں اِسی جیسی مشقت سے گزر رہا ہے۔ ایسے حالات میں ہر طاقتور اپنے سے کمزور کی گردن دباتا چلا جاتا ہے اور ظلم یہ ہے کہ وہ اِس استحصال کو اپنا حق سمجھنے لگا ہے۔ پاکستان میں نوکری میں وقت کی بندش کو معیار بنانے کی ضرورت ہے، دنیا بھر میں اوور ٹائم کی فی گھنٹہ قیمت عام کام کے اوقات سے زیادہ ہوتی ہے، جبکہ یہاں اکثریت اداروں میں اوور ٹائم کا معاوضہ دینے کا کوئی رواج تک نہیں۔ لوگوں کی کم ازکم فی گھنٹہ تنخواہ کا قانون لانے اور اُس پر عملدرآمد کروانے کی بھی ضرورت ہے، وگرنہ وہی کچھ ہوتا رہے گا جو ہوتا آ رہا ہے، کیونکہ
اور ہاں چند مذکور لوگوں کو ہی نہیں یہاں ہم سب کو اخلاقیات کا درس پڑھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایک غیر متوازن معاشرہ ہے، جہاں امیر اور غریب کی تقسیم بہت واضح ہے۔ ایسے معاشرے میں لوگوں کی عزتِ نفس بحال کرنے کے لئے سب سے پہلے اُن کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہوگا۔ کیا ہمارا طاقتور طبقہ کمزوروں کو اِس قابل بننے دے گا؟ ایسا شاید مستقبل قریب میں ممکن نہیں اور جب تک ایسا نہیں ہوتا ٖغریبوں کے بچے غلامی کی زندگی اختیار کرنے پر ہی مجبور رہیں گے۔
ٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
ہمارے ہاں پاکستان میں ایک اُدھیٹر عمر خاتون کام کرنے کے لئے آتی ہیں، اُن کا کام صرف گھر کی صفائی ستھرائی ہے۔ اِس کے عوض وہ دو اڑھائی ہزار روپے وصول کرتی ہیں۔ اِسی طرز پر اِس سے پہلے بھی چند خواتین گھر پر چند گھنٹوں کے لیے آتی تھیں اور صفائی ستھرائی میں ماں جی کا ہاتھ بٹاتی تھیں جس کے عوض انتہائی قلیل تنخواہ پاتی تھیں۔ اتنی قلیل کے ایک گھر میں کام کرنے سے اُن کا گزارہ تک نہیں ہوتا تھا، اِس لئے وہ کئی کئی گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہوتیں ہیں۔ ایسا سیٹ اپ لوئر مڈل کلاس کی بہت سے گلی محلوں میں عام ملتا ہے، جہاں آپ کے پاس کام کرنے والوں کو رکھنے کی جگہ نہیں ہے، لیکن کلاس اور گھر کے بڑھنے کے ساتھ اِسی طرز کے پارٹ ٹائم کام کرنے والے فل ٹائم کسی کے ہاں ملازم ہوجاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس مزدوری کے عوض وہ کیا پاتے ہیں؟
پاکستانی معاشرے میں اُن مالکوں کو بہت اچھا تصور کیا جاتا ہے جو اِن لوگوں کے کپڑے، لتے اور کھانے پینے سمیت فیملی کی کفالت کی ذمہ داری بھی اٹھا لیتے ہوں۔ کچھ نیک دل لوگ ایسے کام کرنے والوں کے بچوں کو پڑھا کر اور اُن پر کچھ مہربانیاں کرکے خود کو حاجی ثناءاللہ قسم کی شے بھی سمجھنے لگ جاتے ہیں، حالانکہ وہ بھی اِسی استحصالی نظام کا حصہ ہیں، بس فرق یہ ہے کہ وہ زیادہ بُروں میں کم بُرے ہیں، اور سچ تو یہ ہے کہ اِس طرح مجبوروں کی محرومیوں سے فائدہ اٹھانا کسی طرز بھی قابلِ ستائش نہیں۔
آپ نے کسی بزرگ کی وہ مثال تو سنی ہوگی جن کے پاس کوئی مجبور جواہرات بیچنے آیا اور اُس نے بہت کم رقم طلب کی، بزرگ نے مجبور سے اونے پونے رقم کے عوض جواہرات خریدے تو کسی اور بزرگ نے اُن سے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اِس مجبور کو جواہرات کی قیمت کا اندازہ نہ ہو لیکن کیا تمہیں بھی اِن جواہرات کی مالیت کا اندازہ نہیں تھا؟ اسی مثال سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ کام کرنے والے جن مجبوریوں کے تحت گھروں میں کام کرنے نکلتے ہیں اُن کی مجبوریاں اپنی جگہ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم لوگ ایسے لوگوں کی قیمت کو ویلیو کر پاتے ہیں؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں۔ اب ایک اور سوال اُٹھتا ہے کہ اِن کی قیمت کو کیسے ویلیو کیا جاسکتا ہے، اِس کے لئے اسکینڈی نیویا ممالک کے تنخواہ کے نظام کو فالو کیا جا سکتا ہے۔
یہاں مزدور اور چھوٹے کاموں کی کم از اکم تنخواہ مقرر ہے، جیسے آجکل کم از کم تنخواہ ایک سو آٹھ کرون فی گھنٹہ کے حساب سے ہے۔ یعنی سولہ سو روپیہ فی گھنٹہ۔ آپ خواہ دفتر میں کلرک ہیں، صفائی کا کام کرتے ہیں، نرس ہیں، اسکول میں پڑھاتے ہیں، پیزا لگاتے ہیں، برگر بناتے ہیں، چوکیدار ہیں یا مزدور ہیں سب کی تنخواہ کم و بیش برابر ہے۔ ایسے میں اگر مجھے اپنے گھر کام کرنے کے لئے ایک نوکر کی ضرورت ہے تو ظاہر ہے مجھے اُس کی تنخواہ بھی کم از کم تنخواہ کے معیار کے مطابق رکھنی ہوگی۔
ڈنمارک میں آکر پہلے پہل جو کام میں نے کئے اُن میں ایک کام گھروں کے لان وغیرہ کی کٹائی کا تھا۔ ایک فرد کی کمپنی کھولی اور کئی سپر مارکیٹوں میں اشتہار لگا دیے۔ ایک وقت میں اپنی ہمت سے زیادہ کام ملا تو میرے پاس کسی ملازم کو دینے کے لئے تنخواہ نہیں تھی، کیونکہ اگر میں کام کے لئے ایک سو دس کرون فی گھنٹہ خود وصول کررہا ہوں تو اتنے ہی پیسے مجھے اپنے لئے کام کرنے والے کو بھی دینے ہوں گے۔
ایسا نہیں کہ یہاں امیر آدمی نہیں بستے، یورپ میں بھی لوگ فلپائن سے کام کرنے والوں کو لاتے ہیں، یا گھریلو کاموں میں مدد کرنے والے ملازم یہاں بھی دستیاب ہوتے ہیں لیکن اُن کی تنخواہ پوری کرنے کے لئے آپ کو بہت امیر ہونے کی ضرورت ہے، جبکہ پاکستان میں اپنے سے غریب آدمی ڈھونڈنا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ جیسے ہمارے ایک دوست نے گاوں میں بسنے والے اپنے دیگر کزن کی مدد کے لئے ایک جانوروں کا فارم قائم کرکے دیا تاکہ اُس کے بیکار کزن کوئی کام کرسکیں، لیکن کچھ ہی عرصہ بعد اُس نے دیکھا کہ اُس کے بیکار کزن جن کے پاس کوئی کام بھی نہیں تھا انہوں نے جانوروں کو چارہ ڈالنے کے لئے ایک اور بندہ رکھ لیا۔ یعنی پاکستان میں آپ کو مزدور اتنا سستا دستیاب ہے کہ آپ کو خود کام کرنے کی ضرورت کیا ہے؟
لوگ کہیں گے کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کے قوانین درست نہیں اِس لئے کچھ بچوں پر ظلم ہو رہا ہے، لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پورے کا پورا نظام سیٹھ کلچر پر چلتا ہے، جہاں سیٹھ جی لوگوں کے خون پسنے سے پیسے چھانٹ کر اپنی تجوری بھرتے ہیں اور حسبِ منشاء لوگوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ کیا دفاتر میں کام کے اوقات مقرر ہیں؟ کیا شام کو پانچ بجے دفتر بند ہوجاتے ہیں؟ آپ چھوٹے دفاتر کی تو بات ہی نہ کیجئے، بڑے بڑے اداروں میں جب تک سیٹھ سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے تو جی ایم لیول کے لوگ بھی چھٹی کے وقت چھٹی نہیں کرسکتے۔ پھر یہی جی ایم جب اپنے گھر جاتا ہے تو اپنے سیٹھ کا بدلہ اپنے ملازم سے لینا اپنا حق سمجھتا ہے، یہاں پرائیویٹ نوکری میں سیٹھ کے عمل دخل کی بات تو سمجھ آتی ہے لیکن سرکاری دفاتر تک میں لوگ اپنے سے چھوٹے آفیسرز اور ماتحتوں کے ساتھ نوکروں والا سلوک کرتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹی میں پڑھانے والے ایک اسسٹنٹ پروفیسر دوست نے بتایا کہ اُن کا سالانہ انکریمنٹ صرف اِس وجہ سے منسوخ ہوا ہے کہ اُن کے اپنے چئیرمین سے کچھ اختلافات چل رہے تھے۔
اب بھلا ایسی صورتحال میں گھر میں کام کرنے والے نوکر کی اوقات ہی کیا؟ جب اُس گھر کا مالک بھی کسی نہ کسی انداز میں اِسی جیسی مشقت سے گزر رہا ہے۔ ایسے حالات میں ہر طاقتور اپنے سے کمزور کی گردن دباتا چلا جاتا ہے اور ظلم یہ ہے کہ وہ اِس استحصال کو اپنا حق سمجھنے لگا ہے۔ پاکستان میں نوکری میں وقت کی بندش کو معیار بنانے کی ضرورت ہے، دنیا بھر میں اوور ٹائم کی فی گھنٹہ قیمت عام کام کے اوقات سے زیادہ ہوتی ہے، جبکہ یہاں اکثریت اداروں میں اوور ٹائم کا معاوضہ دینے کا کوئی رواج تک نہیں۔ لوگوں کی کم ازکم فی گھنٹہ تنخواہ کا قانون لانے اور اُس پر عملدرآمد کروانے کی بھی ضرورت ہے، وگرنہ وہی کچھ ہوتا رہے گا جو ہوتا آ رہا ہے، کیونکہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضیعفی کی سزا مرگ مفاجات
اور ہاں چند مذکور لوگوں کو ہی نہیں یہاں ہم سب کو اخلاقیات کا درس پڑھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایک غیر متوازن معاشرہ ہے، جہاں امیر اور غریب کی تقسیم بہت واضح ہے۔ ایسے معاشرے میں لوگوں کی عزتِ نفس بحال کرنے کے لئے سب سے پہلے اُن کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہوگا۔ کیا ہمارا طاقتور طبقہ کمزوروں کو اِس قابل بننے دے گا؟ ایسا شاید مستقبل قریب میں ممکن نہیں اور جب تک ایسا نہیں ہوتا ٖغریبوں کے بچے غلامی کی زندگی اختیار کرنے پر ہی مجبور رہیں گے۔
ٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی