مہنگائی کا سونامی
انفرادی مفادات کے حصول کی بنا پر اشیائے خور و نوش کا عدم دستیاب ہونا یا مہنگا ہونا ماتم و گریہ وزاری کا مقام ہے۔
آج کل ہمارا ملک مہنگائی کے نہایت تاریک دور سے گزر رہا ہے، جس میں نہ صرف انسانی زندگی کے استعمال کی اشیا مہنگائی سے متاثر ہیں بلکہ روزمرہ کی اشیائے خور و نوش جوکہ زندگی کی روانی کے لیے ازحد ضروری ہیں، وہ بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں۔ متوسط طبقے کے لوگ جو کہ تنخواہ دار ملازم ہیں یا معمولی قسم کے چھوٹے کاروبار کرنے والے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح اپنے ماہانہ اخراجات کو کھینچ تان کر پورا کرلیتے ہیں، لیکن ان حضرات پر کیا گزر رہی ہے جو روزانہ اجرت پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے وہ لوگ جو روزانہ مشقت اور مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں، روزانہ کی آمدنی کی بنیاد پر اپنے اخراجات ترتیب دیتے ہیں اس لیے کہ ان کا کاروبار ایسا ہوتا ہے کہ کسی دن اوسط درجے کا کاروبار ہوتا ہے اور کبھی کاروبار میں مندی کا رجحان ہوتا ہے، ایسے طبقے کو بھی اپنے گھریلو اخراجات کو ایک منظم ٹائم ٹیبل کے ذریعے چلانا ہوتا ہے اس لیے یہ طبقہ بھی مہنگائی کی زد میں رہتا ہے۔
مہنگائی کے اس جن کو قابو کرنے کا کوئی منظم نظام ترتیب نہیں دیا جارہا بلکہ منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور اجناس و اشیائے خور و نوش کی اسمگلنگ کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں آزادانہ طور پر اشیا کی قیمتیں مقرر کریں، ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مصنوعی قلت پیدا کرکے من مانی قیمتوں پر کم تعداد میں اشیا بازار میں لائیں اور عوام کی معاشی بدحالی کا ذریعہ بنیں۔ عوام بے بسی کے عالم میں ان انسانیت سوز مظالم کے آگے مجبور ہوجائیں کہ جس قیمت پر بھی اشیا مل رہی ہیں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خریداری کریں۔ یوں کہیے کہ کاروباری حضرات کے رویوں کے آگے عوام کا حال ''مرتا کیا نہ کرتا'' کے مصداق ہوتا ہے، کیونکہ بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے، خوراک مہیا کرنا بھی تو انسانی زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے ضروری ہے جو خاندان کے سربراہ کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ انسان کی زندگی کا انحصار ہی غذا اور صحت پر ہے، پھر انسان کیسے ان اشیا سے چشم پوشی یا راہ فرار اختیار کرسکتا ہے، کوئی اور ضرورت پوری ہو نہ ہو غذائی و صحت و تندرستی کی اشیا کا حصول اولین ترجیح ہوتی ہے۔ انسان کا پیٹ بھرا رہے گا اس کی صحت و تندرستی برقرار رہے گی تب ہی تو وہ زندگی کے تمام مراحل آسانی سے طے کرسکے گا، ورنہ ایک بھوکا اور ناتواں انسان کس طرح اس دشوار گزار زندگی کا مقابلہ کرسکے گا؟ وہ دوسروں کا محتاج رہے گا یا پھر کوئی اور دوسرا راستہ اختیار کرے گا جو اس کے لیے معاشرے میں گزارہ کرنے کے لیے اذیت ناک صورت اختیار کرجائے گا۔ اس طرح اس کی سوچ اور معتدل راہ اختیار کرنے کا تصور عضوئے معطل بن کر رہ جائے گا۔
انفرادی مفادات کے حصول کی بنا پر اشیائے خور و نوش کا عدم دستیاب ہونا یا مہنگا ہونا کس قدر قابل افسوس ہے بلکہ ماتم و گریہ وزاری کا مقام ہے۔ یہ صرف میری سوچ نہیں بلکہ ملک کے غریب اور متوسط طبقوں کی پکار ہے، مگر معلوم نہیں کیوں مہنگائی کے شکار عوام کی پکار حکام بالا کے کانوں تک نہیں پہنچتی، یا پہنچتی بھی ہو تو ''ایک کان سے سنا دوسرے سے باہر نکال دیا'' والی صورت اختیار کرلی جاتی ہے۔ بظاہر حکام بالا کے رویوں سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے دباؤ میں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان پر کوئی سختی یا پابندی عائد کرسکتے ہیں۔ کاروباری حضرات پر نظر رکھنے کے لیے ایک پرائس کنٹرول کمیٹی بنائی گئی ہے، وہ روزانہ کی بنیاد پر پرائس کنٹرول لسٹ شایع کرتی ہے اور دکانداروں، ٹھیلے والوں کو بھی سپلائی کی جاتی ہے، مگر وہ ان کے پاس پہنچ کر ایک نمائشی اشتہار یا پمفلٹ کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے، محض حکومتی معائنہ ٹیموں کو مطمئن کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں، گاہک کی کوئی مجال نہیںکہ دکاندار سے اس پرائس کنٹرول لسٹ کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ کرسکے، ایسا کرنے پر دکاندار کی طرف ایک ٹکا سا جواب سامنے آجاتا ہے۔
یہ بات بالکل عیاں ہوگئی ہے کہ آنے والی حکومت کو ان مسائل کو حل کرنے کے لیے معلوم نہیں کتنا عرصہ درکار ہوگا، لیکن مشکل یہ بھی تو ہے کہ ہمارے ہاں نظام ہی میں یہ بگاڑ ہے کہ ہر آنے والی حکومت، جانے والی حکومتوں کی پالیسیوں کا تسلسل رکھ کر اسے آگے لے جانے کے بجائے یکسر مسترد کردیا جاتا ہے اور پھر نئے سرے سے نئی پالیسی سازی کا کام شروع کردیا جاتا ہے، اس طرح ملک کی معیشت کو اتنا دھچکا لگتا ہے کہ جس کو صحت مند رکھنا یا صحت مند بنانا اتنا آسان نہیں ہوتا بلکہ اس نظام میں پڑی ہوئی دراڑیں پُر کرنا بھی ناقابل عمل ہوجاتا ہے اور اصل جو مسئلہ یا مسائل رہتے ہیں وہ پس پشت چلے جاتے ہیں۔ یہیں سے ہیرا پھیری کا عمل شروع ہوجاتا ہے جو کہ ''کرپشن'' کو جنم دیتا ہے۔ ایسے میں غربت، مہنگائی، بے روزگاری، توانائی، ایندھن اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر نیک نیتی سے کام کرنے کے بجائے چوری، جعلسازی، بے ایمانی، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، اسمگلنگ کی طرف دھیان چلا جاتا ہے اور مسائل کی ڈوری اتنی الجھ جاتی ہے کہ اسے سلجھانا ازخود کاردارد ہوجاتا ہے۔ پھر گھوم پھر کر مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کا پہیہ وہیں آکر ٹھہر جاتا ہے جہاں سے آغاز ہوا تھا۔ نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ عوام کو ریلیف ملنے کے بجائے مسائل کی چکی میں پیس دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ عوام کا خون بھی خشک ہوجاتا ہے۔ بے چارے عوام کو بھوک، فاقہ کشی، خودکشی اور دیگر غیر انسانی تقاضوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بات چلی تھی مہنگائی کے عنوان سے مگر کہیں اور چل نکلی، ظاہر ہے مسائل کے حل نہ کرنے سے ہی نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں، عوام پچھلے 5 سال سے بے یارومددگار، مصلحتوں میں گھرے، خودساختہ مشکلات کا سامنا کرتے چلے آرہے ہیں۔ نہ روٹی ملی، نہ مکان، نہ کپڑا۔ سب نعرے یوں ہی دھرے کے دھرے رہ گئے، شاید عوام کو کچھ ریلیف مل جاتا تو اس جانے والی حکومت کو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل جاتا۔ مگر عوام کو اس کے ڈوب جانے کا خیال سماگیا ہے۔