انسان سماج کو تبدیل کرتے ہیں

محنت کشوں کو نظریاتی شعور سے مسلح کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ورنہ انقلاب بے کار ہو جاتا ہے.


Zuber Rehman February 09, 2013
[email protected]

انسان اپنی تاریخ خود بناتے ہیں، لیکن جن حالات میں وہ یہ کرتے ہیں ان کا انتخاب وہ خود نہیں کرسکتے ۔ انسانی تاریخ کا ترقی کی جانب عظیم سفرکسی سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی انسان ایسے سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت سماج اور نظام کو تبدیل کرتے ہیں بلکہ انسانی سماج اور اس کے مختلف نظام اپنے ارتقا کے دوران خود ایسے حالات جنم دیتے ہیں کہ انسان زندہ رہنے کے لیے ان کو انقلاب کے ذریعے تبدیل کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ تاریخی واقعاتانسانی خواہشات، توقعات اور جذبات کے زیر اثر وقوع پذیر نہیں ہوتے بلکہ مختلف واقعات کا ایک تسلسل انسانی زندگی اور سوچوں پر انمٹ نقوش ثبت کرتا چلا جاتا ہے جس سے سماج میں موجود تضادات کسی مخصوص وقت پر پھٹ پڑتے ہیں۔ انسان میں واقعات اور حالات کو اپنا تابع اور اپنی خواہشات کے مطابق کرنے کی ضرورت نہ صرف موجود رہی ہے بلکہ مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے۔

انسانی سماج کی ترقی اور ارتقا فطرت پر قدرت حاصل کرنے کی انسانی کوششوں کی تابناک داستان ہے۔ انسان اپنی محنت کے بل بوتے پر معیار زندگی کو بہتر سے بہتر کرتا چلا گیا۔ جب جب سماجی ، سیاسی اور معاشی نظام ترقی کی راہ میں حائل ہوئے انسان نے ان کے خلاف تب تک بغاوت کی، جب تک وہ رکاوٹیں عبور نہ ہوگئیں۔ سائنس اور ہنر و فن کی ترقی ہو یا ادب اور فن کا عروج، زندگی کے ہر شعبے کا سماجی اور سیاسی انقلابات سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ صنعت اور پیداواری ذرایع نے جتنی ترقی کی اس ترقی سے سماجی استفادے کے لیے درکار سیاسی انقلابات کے لیے اتنی ہی شعوری کوششوں کی ضرورت میں اضافہ ہوتا گیا۔

انسانی محنت کے بل بوتے پر تخلیق کردہ جدید مادی دنیا نے انسانی شعور کو جتنا بلند کیا مزید ترقی اور بہتری کے لیے انسانوں کی شعوری مداخلت اتنی ہی ضروری اور ناگزیر ہوتی چلی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ غلام داری اور جاگیرداری میں ہونے والے انقلابات میں بہت کم انسانوں کی براہ راست شعوری مداخلت رہی ہے مگر صنعتی انقلاب اور سرمایہ دارانہ نظام نے ترقی کی رفتار کو اتنی مہمیز دی کہ ہزاروں سال کا سفر چند صدیوں میں طے ہوگیا۔ مگر مسائل ختم نہیں ہوئے بلکہ وہ نئی بیہودہ شکلیں اختیار کرتے گئے، مسئلے کے حل نے کئی نئے مسئلوں کو جنم دیا، مسائل جتنے منتشر ہوتے چلے گئے ان کا حل اتنا ہی مرتکز ہوتا چلا گیا۔ گزشتہ دہائیوں اور برسوں کے عالمی سیاست کے تجربات اور ان سے اخذ کردہ نتائج انتہائی متضاد کردار کے حامل ہیں۔

جہاں سرمایہ دارانہ اصلاح پسند سیاست کی کمینگی اور منافقت عیاں ہوگئی ہے وہیں اس کے مکروہ چہرے کے بے نقاب ہوجانے کی وجہ سے سیاست سے بے زاری عوامی طرز عمل کی پہچان بن گئی ہے۔ تصنع ، جعلسازی اور دھوکا دہی کی آمیزش نے سیاست کو قابل نفرت اور بے لذت گناہ میں بدل دیا ہے۔ مگر دوسری طرف ماضی کی اصلاحات کے دفاع اور نسل انسانی کی بقاء کے لیے بہت سے ترقی یافتہ اور نام نہاد ترقی پذیر ممالک میں بھی عوام کی وسیع تر قوتیں اپنے آپ کو سیاسی میدان سے گریزاں نہیں رکھ پا رہیں۔ کیا ہی مزاحیہ المیہ ہے کہ سیاسی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں متحرک اور ملوث انسانوں کی بڑی تعداد اپنے آپ کو غیر سیاسی قرار دینے میں زیادہ تشفی اور تکرم محسوس کر رہے ہیں۔ ایسے میں موضوعی عنصر کے لیے مشکلات اور پیچیدگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

سیاست کوئی جرم یا گناہ نہیں بلکہ حقیقی تبدیلی کا واحد معتبر اوزار ہے بشرطیکہ سیاسی میدان سے لیڈروں کو نکال باہر کیا جائے اور عوام خود اس کی باگ ڈور سنبھال لیں۔ اسی کو انقلاب کہا جاتا ہے۔ کوئی حقیقی انقلاب محض سماجی یا غیر سیاسی نہیں ہوسکتا اور کوئی چور راستہ انقلابی منزل تک نہیں پہنچاسکتا۔ عوام کسی کے اکسانے یا بہکانے سے انقلاب نہیں کیا کرتے بلکہ وہ حالات زندگی اور روزمرہ کے جبر کے ردعمل میں تاریخی ارتقاء کے مخصوص مرحلے میں بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ انقلابی حالات میں یہ بغاوت ایک طبقاتی جنگ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس جنگ کے ابتدائی اور نسبتاً غیر واضح مراحل میں ہی ہراول پرتوں کو بحیثیت مجموعی طبقے کے اتحاد اور ربط کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔مگر اتحاد ایک مجرد نعرہ ہوتا ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے طبقے کو منظم اور ایسے نظریات اور لائحہ عمل سے مسلح کرنا ضروری ہوتا ہے جو طبقے کی مختلف اور منتشر پرتوں کو ایک سمت میں گامزن کرکے وحدت کی تشخص اور اکائی کے احساس کو جنم دیں۔ محنت کشوں کی اکثریت کتابوں اور انقلابی دانشوروں کی بحثوں سے نہیں بلکہ عملی للکاروں، کامیابیوں اور پسپائیوں کے پے درپے تجربوں سے یہ تاریخی سبق سیکھتے ہیں۔

چونکہ محنت کشوں کی لڑائی ایک ایسے طبقے سے ہوتی ہے جو اقلیت میں ہونے کے باوجود ایک منظم ریاستی مشینری، سیاسی اور سماجی اداروں اور معاشی کنٹرول کے ذریعے اکثریت کو اپنا مطیع اور غلام بنائے ہوئے ہوتا ہے۔ عرب اور یورپ کے گزشتہ برسوں کے واقعات نے ایک دفعہ پھر ہر مرحلے اور کیفیت میں اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ محنت کش غلامی سے تنگ آچکے ہیں۔ اس لیے وہ بار بار بغاوت کرتے ہیں، بہت سے ممالک میں محنت کشوں نے انقلاب برپا کرنے اور قربانیاں دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہڑتالیں، مظاہرے، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ، قبضے اور حتیٰ کہ ہتھیار اٹھانے تک سے گریز نہیں کیا اور درجنوں بار حکمران طبقے اور اس کی ریاست کو ہوا میں تحلیل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے مگر بہت سی جانوں کی قربانیاں دینے کے باوجود حتمی فتح حاصل نہ کر پائے۔

اس کے علاوہ بہت سے ممالک کے محنت کش جو ابھی تک تاریخ کے میدان میں نہیں اترے وہ بھی کسی نہ کسی شکل میں ان انقلابات کو بہت غور سے دیکھ رہے ہیں اور سنجیدہ نتائج اخذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان پر جھوٹے تجزیے اور دلیلیں مسلط کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ پاکستان کے محنت کش بھی 1968-69 کے ناکام انقلاب کو ابھی تک نہیں بھلا پائے ہیں۔ ہفتوں پاکستانی ریاست ہوا میں معلق تھی، سیکڑوں کارخانوں، کھیتوں کھلیانوں، بسوں، ٹرینوں اور سڑکوں پر عوام کا راج تھا۔ مقداری تبدیلی کی کیفیتی تبدیلی میں لانے کے لیے محنت کشوں کو نظریاتی شعور سے مسلح کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ورنہ انقلاب بے کار ہو جاتا ہے، سرمایہ دار پھر سے ریاست پر قابض ہوجاتے ہیں اور جب محنت کش نظریاتی شعور سے لیس ہوجاتے ہیں تو وہ ناقابل تسخیر قوت میں تبدیل ہوکر وقت اور تاریخ کے دھارے کو انسانی شعور اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہوکر سماج کو بدل دیتے ہیں۔

جیساکہ جے مارکیٹ شکاگو میں ہوا، انقلاب فرانس، بالشویک انقلاب، انقلاب چین، انقلاب اسپین، پیرس کمیون وغیرہ کی شکل میں برپا ہوا۔ اس کے لیے لازم ہے کہ عرب اور یورپ کے انقلابات اور کچھ ممالک میں ان کی خانہ جنگیوں یا فرقہ وارانہ زوال پذیری کو درست اور قابل فہم انداز میں محنت کشوں کے سامنے رکھا جائے اور ان کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے ان کو صبر کے ساتھ یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک جیسی محنت کشوں کی عالمی تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ جو آگے چل کر ایک ایسا عالمی انقلاب برپا کرے جو طبقات کا خاتمہ کرکے فطری سماج یعنی امداد باہمی کا معاشرہ قائم کرے گا۔ ہر طرف نسل انسانی محبت اور خوشحالی کی گیت گائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں