مٹھی میں اک دنیا ہے…
ہمارے ہاں ٹیلی فون کوبہت سستا کر دیا گیا ہےنوجوان نسل کے ساتھ ساتھ ہم بزرگوں کو بھی اس کی لت ڈال دی گئی ہے۔
میں ، آپ اور وہ... ہم سب جانتے ہوئے بھی ایک ایسی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں جس کا شاید ہمیں اندازہ نہیں ہوتا یا اگر ہوتا بھی ہے تو ہمارا اس غلطی کے بغیر گزارا نہیں۔ کچھ عرصہ قبل کی بات ہے، لگ بھگ تین برس پہلے، زندگی جیسی آج ہے اس سے کافی مختلف تھی۔ گھر میں ایک لینڈ فون تھا اور اس کے علاوہ ہم میاں بیوی کے پاس ایک ایک موبائل فون تھا جو کہ ہم گھر میں داخل ہو کر آف کر دیتے تھے۔ باہر جاتے سمے کوئی نہ کوئی آواز لگا کر پوچھ لیتا تھا کہ موبائل ساتھ لے لیا کہ نہیں... اور نہ لینے پر ڈانٹ پڑ جاتی کہ کوئی زمانہ ہے یوں باہر جانے کا، کچھ ہو ہوا جائے تو تم سے رابطہ کیوں کر ممکن ہو گا... یہ تو خیر ایک عذر ہوتا تھا ڈانٹنے کا ورنہ ہو ہوا جانے کے بعد کس کا کسی سے کبھی رابطہ ہوا ہے۔
جب ہم ڈیفنس ٹو میں منتقل ہوئے تو یہاں پر ٹیلی فون کی سہولت موجود نہ تھی، تا حال نہیں ہے اور یہ بات کسی کو بتائی جائے تو کوئی یقین نہیں کرتا... اسلام آباد کے کسی علاقے میںٹیلی فون کا نہ ہونا یقیناً حیران کن ہے، تاہم اس وقت یہ ایک غیر متعلقہ بات ہے۔ پھر ہوا یوں کہ سارا انحصار موبائل ٹیلی فون پر ہو گیا، ایک ٹیلی فون جو ہمارے پاس تھا اس کمپنی کی سروس ہمارے علاقے میں اچھی نہ تھی اس لیے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اور کمپنی کی سم لے لی گئی... ایک وقت آ گیا کہ میرے پاس ایک ہی طرح کے تین سیٹ ہو گئے اور ان تینوں میں مختلف سمیں، ایک پر کال سستی تھی، ایک پر پیغامات اور ایک پر انٹرنیٹ۔ ان میں پہچان کے لیے میں نے ان کمپنیوں کے اشتہاری لوگو کے رنگوں کے کور چڑھا لیے۔
چھت پر کپڑے سوکھنے کے لیے ڈالنے جانا ہو تو بھی فون ساتھ لے کر جاتی کہ اوپر جا کر سروس بہتر ہو جاتی ہے سو کال بھی کر لی جائے گی۔ کام کرتے کرتے کال آتی، مما باتھ روم میں ہوں ،پانی گرم نہیں آ رہا، گیزر چیک کریں، کبھی پیغام آتا... چائے مل سکتی ہے؟ نظر اٹھا کر مطالبہ کرنیوالے کو دیکھا جاتا تو ہنسی نکل جاتی، مہمانوں کی اچانک آمد ہو جائے تو ان کے بیٹھے بیٹھے ٹیلی فون پر پیغامات کے ذریعے چیک کیا جا سکتا تھا کہ کیا پکا ہے، کھانا کافی ہو گا یا باہر کا پروگرام سیٹ کر لیا جائے؟ لگنے لگا کہ ٹیلی فون تو بڑے کام کی چیز ہے، بچوں نے انکشاف کیا کہ آپ کے پاس جو ٹیلی فون ہیں، یہ فقط اس لیے نہیں کہ آپ اس سے کال کریں اور وصول کریں، یا صرف پیغامات کا تبادلہ کریں۔ کال، پیغام، ای میل، فیس بک، یو ٹیوب، سکائپ، وائبر، واٹس ایپ، فری کال، گوگل،ڈکشنری، موسم، کیلکولیٹر، کیلنڈر، البمز، کرنسی کے تبادلے کے ریٹ، سونے کے بھاؤ، اسٹاک ایکسچینج، ڈائریکٹری،مختلف زبانوں کے تراجم، کتب، کئی طرح کی گیمز، سٹل اور وڈیو کیمرے،کمپاس، قبلے کی ڈایریکشن، نمازوں کے اوقات، قرآن کے آڈیو اور visual version، لطائف ، اقوال زریں، تاریخ اور جغرافیے کے حوالے، دنیا بھر کے نقشہ جات، فاصلوں کی پیمائش... اور جانے کیا کیا اس اڑھائی انچ چوڑے اور پانچ انچ کے فون میں تھا۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ دنیا ہماری مٹھی میں سمٹ آئی تھی۔ کسی کے منہ سے سوال نکلتا اور ہم ٹک ٹک کر کے ایک منٹ میں اسے بتا دیتے کہ دنیا کے کس کونے میں اس وقت کیا ہو رہا تھا... اب ٹیلی فون کا نشہ ہونے لگا اور اس کے بغیر خود کو ادھورا سا محسوس کرتے... کچھ نہ کچھ سرگرمی ہر وقت چل رہی ہوتی تھی، کسی پردیسی بچے سے بات ہو رہی ہوتی تھی یا پیغام رسانی، کسی کے جاگنے کا وہ وقت ہوتا جب ہمارا نیند کا اور کوئی اس وقت بات کرنے کو ملتا جب اپنے کام کے لیے ڈرائیونگ کر رہی ہوتی تھی، کئی بار ہارن سننے کو ملتے اور اندازہ ہوتا کہ چند لمحوں کی غفلت سے جانے کیا ہو جاتا مگر اثر نہ ہوتا اور یہی سلسلہ جاری رہتا۔
چچا کے ہاں چائے کی پیالی سامنے دھری تھی، ''بیٹا چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے... '' چچا کی آواز نے چونکا دیا اور ذرا سی نظر ہٹی تو ... '' شش... کریش ہو گیا!!!'' میرے منہ سے اچانک نکل گیا۔ '' اوہو... کہاں کریش ہوا؟ '' چچا نے ناک پر عینک جما کر ٹیلی وژن کی طرف دیکھا اور ہم نے بے بسی سے اپنے ٹیلی فون کی اسکرین پر جہاز اڑانیوالی گیم کو... ایک روز امو پاس بیٹھی تھیں اور میں کینیڈا والی بیٹی سے پیغام رسانی کر رہی تھی... اس طرح کے حالات میں ہم فون کو گود میں دھنسا کر رکھ لیتے ہیں تا کہ ہم بزرگوں کو متوجہ نظر آئیں اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد سر بھی ہلا دیتے ہیں... امو نے کچھ کہا اور اسکرین پر بیٹی کا پیغام دیکھ کر میری زور سے ہنسی نکل گئی۔ '' کیوں ہنسی ہو، تمہاری ان سے کیا دشمنی تھی؟ '' '' کس سے امو؟ '' میں نے سوال کیا۔ '' میں نے تمہیں اپنے چچا کی وفات کا بتایا ہے اور تم ہنس رہی ہو!!'' اسی طرح چند دن قبل ہی جب میں نے اچانک نعرہ لگایا، '' میں جیت گئی... '' تو صاحب نے فوراً تصحیح کی کہ ابھی لڑائی ختم نہیں ہوئی... میں فون پر گیم جیتی تھی اور انھیں اپنی اور میری لڑائی کی فکر پڑی تھی۔
دو دن تک امو اپنی آنکھ کے درد کی وجہ سے میرا کالم نہ پڑھ سکیں اور بار بار پوچھتی رہیں کہ کیا لکھا ہے اور میں سوچتی رہی کہ جونہی فارغ ہوں گی انھیں پڑھ کر سنا دوں گی ، مگر تین تین ٹیلی فونوں کے ہوتے ہوئے فارغ کون اور کیسے ہوتا۔ وہ چلی گئیں تو مجھے اپنا کمرہ صاف کرتے ہوئے اپنے تکیے کے نیچے وہ اخبار پڑا نظر آیا جو وہ میرے پاس اس امید پر لے کر آئی تھیں کہ میں انھیں کالم پڑھ کر سناؤں گی... اس وقت میں نے خود سے عہد کیا کہ اس لمحے سے خود کو تبدیل کرنے کا آغاز کرنا ہے۔ جو جو کوتاہیاں ہو چکیں سو ہو چکیں مگر اس کے بعد ایسا نہ ہو کہ ہم غیر موجود لوگوں کی محبت میں ایسے کھو جائیں کہ جو ہمارے پاس موجود ہیں انھیں نظر انداز کر دیں۔
ہمارے ہاں ٹیلی فون کو بہت سستا اور اس کے حصول کو سہل کر دیا گیا ہے ۔ نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ ہم بزرگوں کو بھی اس کی لت ڈال دی گئی ہے ۔ اس دن سے میں نے فون کے استعمال کے ساتھ ساتھ دوسرے امور اور رشتوں پر بھی توجہ دینی شروع کر دی ہے، ضروری کالیں اور پیغامات تو کرنا ہوتے ہیں، باقی کام اور کھیل بھی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اگر ہم اس وقت کسی کو نظر انداز نہ کر رہے ہوں۔ ان پیارے پیارے رشتوں کی قدر کریں جو آج ہمارے پاس ہیں ، کل ہوں نہ ہوں، فون کی یہ ٹیکنالوجی یقیناً اچھی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ہم ہر چیز کو لت کی طرح استعمال کرتے ہیں... ہر کسی کے ہاتھ میں فون نظر آتا ہے اور ایک ہی کمرے میں بیٹھے دس لوگ اپنے اپنے فون پر ٹک ٹک میں مصروف ہوتے ہیں، اکٹھے ہونے کا فائدہ تو تبھی ہے جب ہم واقعی ایک دوسرے کے ساتھ ہوں، ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں، وقت دیں، اہمیت دیں، ان کی سنیں اور اپنی سنائیں۔ جہاں ان ایجادات نے ملکوں کے درمیان فاصلوں کی کیفیت کو کم کر دیا ہے وہیں پر ان سے قریب کے لوگوں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ اگر کسی کو علم نہ ہو کہ کس کے ہاتھ میں فون ہے یا گود میں تو لوگ سمجھیں کہ اکیلے بیٹھا مسکرانے والا شاید کوئی پاگل ہے... اسی جیسے مواقع کے لیے شاعر نے کہا تھا:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آ سکتا نہیں!
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
آج سے پچاس برس، پچیس برس یا شاید دس برس قبل بھی دنیا سے جانے والا کوئی آدمی اگر دنیا میں لوٹ کر آئے تو وہ اس انقلابی ایجاد کودیکھ کر انگشت بدنداں رہ جائے۔ اس ایجادکے فوائد بھی بہت ہیں مگر کسی بھی ایجاد کو اگر مثبت طریقے سے استعمال نہ کیا جائے تو رحمت بھی زحمت بن جاتی ہے۔ ہمارے فون اکثر ان اوقات میں بھی بجتے رہتے ہیں جو ہمارے آرام کا وقت ہوتا ہے اور کبھی ہم بے آرام ہوتے ہیں تو کبھی انھیں بے وقت پیغامات کر کے ہم بے آرام کرتے ہیں۔ میں نے سب سے پہلے خود کو قصور وار ٹھہرایا ہے اور ان لوگوں میں خود کو شامل کیا ہے جو اس غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں ، آپ بھی اس آئینے میں خود کو دیکھیں، کہیں آپ بھی یہی غلطی تو نہیں کر رہے۔