انتظار
حکومت رعایت کا فائدہ اٹھا کر سرکاری محکموں میں تھوک کے حساب سے بھرتیاں کر رہی ہے.
پکنک پر جانے والے طلبا سے بھری ہوئی بس، سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے سیبوں کے ایک ٹھیلے کے پاس آکر رکی۔ بس سے چند طلبا باہر آئے، سیب کا ریٹ پوچھا، بھاؤ تاؤ کیا اور سیب خریدنے پر آمادہ ہوگئے۔ ٹھیلے والے سردار جی نے پوچھا ''کتنے تول دوں؟'' طالب علموں نے بس کی جانب دیکھ کر ساتھیوں کی تعداد کا اندازہ لگایا اور کہا ''سردار جی ٹھیلے پر موجود تمام سیب تول دو۔'' سردار جی نے نفی میں گردن ہلائی اور بولے۔ ''پورے ٹھیلے کا سودا ہرگز نہیں کروں گا۔'' لڑکوں نے حیرت سے پوچھا ''کیوں؟'' سردار جی دانشورانہ انداز میں سر ہلا کر بولے ''میرے بچو، اگر میں نے صبح ہی صبح تمام سیب تمھارے ہاتھ فروخت کردیے تو پھر میں شام تک کیا بیچوں گا؟'' لطیفہ سن کر حبیب اﷲ پہلے تو بے ساختہ ہنس پڑے اور ان کی مونچھوں کی پوزیشن ایسی ہوگئی جیسے وال کلاک کی سوئیوں کی اس وقت ہوجاتی ہے، جب وہ دس بج کر دس منٹ کا ٹائم بتا رہی ہوتی ہیں۔
حبیب اﷲ کی مونچھیں جب اس پوزیشن پر آجائیں تو ان کے تمام دوستوں اور دشمنوں کے لیے یہ کھلا اشتہار ہوتا ہے کہ حبیب اﷲ اِس وقت بہت زیادہ خوش ہیں۔ لیکن ہوا یہ کہ ہنستے ہنستے اچانک وہ خاموش ہوگئے اور ان کی مونچھیں سوا نو، بجانے لگیں، مونچھوں کی اِس پوزیشن کا صاف مطلب تھا کہ وہ بے انتہاہ سنجیدہ ہیں۔ خاموش ہو کر انھوں نے مجھے گھورنا شروع کیا، چند ہی لمحوں بعد وہ مجھے قہر آلود نظروں سے گھورنے لگے۔ ان کی مونچھوں کی پوزیشن ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوئی اور اب یہ مونچھیں آٹھ بج کر بیس منٹ کا وقت دکھا رہی تھیں۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ سخت برہم ہیں۔ یکایک وہ مجھ پر چنگھاڑتے ہوئے حملہ آور ہوئے اور بولے ''مگر میرے سوال کا اِس لطیفے سے کیا تعلق ؟'' میں نے تحمّل سے کام لیتے ہوئے جواب دیا ''بڑا گہرا تعلق ہے، آپ نے مجھ سے یہی تو پوچھا تھا نا کہ زرداری صاحب جلد سے جلد الیکشن کا اعلان کیوں نہیں کردیتے؟ الیکشن اگر ڈیڑھ دو ماہ قبل ہو جائیں تو اِس میں کیا آئینی رکاوٹ ہے؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ پھر موجودہ حکومت سولہ مارچ 2013 تک کیا کرے گی؟ موجودہ حکومت میں شامل تقریباً تمام ہی چیدہ چیدہ سیاسی جماعتوں کے سکہ بند دانشوروں کو کیا آپ سیب فروخت کرنے والے سردار جی سے بھی زیادہ گیا گزرا تصور کرتے ہیں؟'' وہ چند لمحوں کے لیے سوچ میں ڈوب گئے پھر بولے ''اچھا فرض کرلیتے ہیں کہ حکومت نے آج ہی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی تاریخ اور انتخابات کا باقاعدہ شیڈول جاری کردیا تو پھر حکومت کو، کون سے ایسے نقصانات سے دو چار ہونا پڑے گا، جو 16 مارچ تک آئینی مدت پوری کرنے کی صورت میں اسے نہیں ہونگے؟'' میں نے عرض کیا ''انتخابات کے شیڈول کا اعلان نہ کرنے یا تاخیر سے کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ الیکشن شیڈول کا اعلان ہوتے ہی حکومت کے تمام ادارے براہ راست چیف الیکشن کمشنر کے کنٹرول میں آجاتے ہیں اور آئینی طور پر الیکشن کمیشن کے احکامات کی تعمیل کرنے کے پابند ہوجاتے ہیں۔ حکومت اسی رعایت کا فائدہ اٹھا کر سرکاری محکموں میں تھوک کے حساب سے بھرتیاں کر رہی ہے اور اس کے اتحادی بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کر رہے ہیں۔'' حبیب اﷲ زچ ہو کر بولے ''ذرا یہ تو سوچیے، اسمبلیوں کی عمر تقریباً 5 ہفتے ہی باقی رہ گئی ہے ابھی نگراں سیٹ اپ اور صوبائی وزرائے اعلیٰ کی تقرری سمیت درجنوں ایسے معاملات باقی ہیں، جنہیں حل کرنے کے لیے یہ عرصہ انتہائی کم ہے، حکومت ان تمام مسائل سے کیسے نمٹے گی؟ حکومت کا ہر وزیر صرف یہی اعلان کر رہا ہے کہ 'انتخابات ملتوی کروانے کی سازش کی جارہی ہے۔' کوئی اِن سے پوچھے کہ بھائی انتخابات ملتوی ہونے کا سب سے بڑا فائدہ کسے پہنچے گا؟ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف تو یہ سازش کرنے سے رہیں، وہ تو اپنی باری کی آس لگائے بیٹھی ہیں ۔ لے دے کر پھر فوج ہی رہ جاتی ہے اور اگر فوج نے یہ کرنا ہوتا تو پھر اسے اِس کے لیے اتنا انتظار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟''
میں نے عرض کیا ''موجودہ حکومت شاید اسی معجزے کے انتظار میں بیٹھی ہے اور آخر لمحے تک اپنی یہ امید توڑنا نہیں چاہتی کہ کاش کوئی قوت آئے اور ان کی حکومت کو 'شہید' کردے، لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ تمام مقتدر قوتیں اس حکومت کو عوام کے ہاتھوں 'غازی' بنا کر واپس بھیجنے پر متفق ہوچکی ہیں۔ حبیب صاحب ابھی تو آپ دیکھیے گا کہ حکومت کے وہ کون کون سے قریبی حمایتی ہیں جنہیں 'اچانک' خیال آنے والا ہے کہ وہ عمران خان یا میاں نواز شریف کی قیادت پر کتنا بھرپور اعتماد رکھتے ہیں؟'' حبیب اﷲ کی مونچھیں دس بج کر دس منٹ کا وقت بتانے لگیں، وہ قہقہہ لگا کر بولے ''پھر ابھی تک انھیں یہ خیال کیوں نہیں آیا؟'' میں نے کہا ''الیکشن شیڈول کا اعلان جو نہیں ہوا ابھی تک۔
دراصل اقتدار ایسے نشے کا نام ہے جس کے آخری قطرے سے بھی کوئی دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوتا اور آخری قطرہ ختم ہوتے ہی بندہ اِدھر دوڑلگاتا ہے جس طرف اقتدار کی یہ بوتل لڑھکنے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔'' حبیب اﷲ یکایک سنجیدہ ہوگئے اور وہ مجھ پر اور موضوع پر بیک وقت جھپٹتے ہوئے بولے ''میں نے سنا ہے کہ الیکشن میں بھٹو خاندان کی سیاسی وراثت کا مسلئہ بھی سر اٹھانے والا ہے، آپ کیا کہتے ہیں؟'' انھوں نے ڈپٹ کر جواب طلب کیا۔ میں نے عرض کیا ''اس کا بھی امکان ہے کہ فاطمہ بھٹو یا بھٹو جونیئر کو بلاول زرداری کے مقابلے میں اتار دیا جائے تاکہ سندھ میں پی پی پی کے ووٹ بینک کو تقسیم کرکے قوم پرست جماعتوں اور نواز شریف کو ممتاز بھٹو کے ذریعے فائدہ پہنچایا جاسکے۔ ممتاز بھٹو پہلے ہی مسلم لیگ ن میں اپنی پارٹی ضم کر چکے ہیں۔ میاں صاحب کی سندھ میں کامیابی کی صورت میں بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ غوث علی شاہ تو حج کے لیے روانہ ہوجائیں گے اور ممتاز بھٹو کا رخ چیف منسٹر ہائوس کی طرف ہوگا۔'' حبیب اﷲ اٹھتے ہوئے بولے ''اب آخری سوال۔ پی پی پی اب کیا کرے گی؟'' میں نے جواب دیا ''وہ اِس کے سوا کر بھی کیا سکتی ہے کہ اپنے آخری سیب کے بک جانے تک بازار میں ٹھیلا لگا کر کھڑی رہے اور وہ یہی کر رہی ہے۔''