انتخابی اصلاحات کہیں دیر نہ ہو جائے
شفاف اور غیر جانبدار انتخابی سسٹم جمہوریت کی بقا کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
پاناما کیس کے حوالے سے سسپنس جاری ہے، عوام اس انتظار میں ہیں کہ ''محفوظ'' فیصلہ جانے کب آئے گا؟ چونکہ اگست میں جج صاحبان کی مرحلہ وار چھٹیاں شروع ہونے والی ہیں، لگتا یہی ہے کہ اس کیس کا فیصلہ تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ آخری اطلاعات آنے تک پاناما بینچ کے 2 رکن ججز 11 اگست تک اسلام آباد میں دستیاب نہیں ہوں گے، جسٹس عظمت سعید سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں کیس سنیں گے۔
جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن آیندہ ہفتے سے چھٹیوں پر چلے جائیں گے۔ اس لیے سوچا کہ ایک بار پھر انتخابی اصلاحات کو ہی موضوع بنا لیا جائے کیونکہ الیکشن 2018ء اگر شفاف ہوا تو یہ پاکستان کی تقدیر بدلنے والا الیکشن ہو گا، اگر روایتی طریقہ کار اپنایا گیا تو وہی گالم گلوچ قسم کی دھاندلی شروع ہو جائے گی۔ چند دن پہلے بھی راقم نے اسی موضوع پر ایک تفصیلی کالم ''الیکشن 2018ء میں بھی وہی کچھ ہو گا؟'' کے عنوان سے لکھا تھا جس کے دو روز بعد 21 جولائی کو انتخابی اصلاحات کی منظوری کے حوالے سے خبریں آنا شروع ہوگئیںاور آیندہ ہفتے پارلیمنٹ میں بل پیش کرنے کا بھی پلان کیا گیا۔
یہ قوم کے لیے خوشی کی بات تھی کہ اُن کا دیرینہ مطالبہ پورا ہونے جا رہا تھا، لیکن یہ وقتی خوشی محض وقتی ہی ثابت ہوئی، کیوں کہ ان الیکشن ریفارمز میں ماسوائے ایک آدھ پوائنٹ کے باقی سب پرانے سسٹم کے مطابق ہی الیکشن ہونا قرار پایا، ان نام نہاد ''اصلاحات'' میں سے پہلی یہ تھی کہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم نافذ نہیں ہوسکے گا، انتخابات کے عمل کو آزادانہ، منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، بیرون ملک پاکستانی ووٹ کا حق استعمال نہیں کر سکیںگے، پرانی حلقہ بندیوں کے مطابق الیکشن ہوں گے، اصلاحات پر مبنی بل میں الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے اور اسے مکمل طور پر آزاد اور خودمختار بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
اور اسی طرح کی ایک دو اور شقیں تھیں جنھیں حصہ بنا کر ایک بار پھر قوم کے ساتھ مذاق کیا گیا۔ بندہ پوچھے ان میں سے کون سی چیز نئی ہے؟ اہم بات یہ ہے کہ اب 3 سال کی کھپت اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد کیا ایک بار پھر ہم اُسی پرانے سسٹم کی طرف جا رہے ہیں،کیا ہمیں 2013ء کے الیکشن بھول گئے جب ہمارے انتخابی نظام میں موجود بہت سی ایسی خامیاں کھل کر سامنے آئیں جو سارے انتخابی عمل کو داغدار کرنے کے لیے کافی تھیں۔ چاہے گمشدہ بیلٹ باکس ہوں یا پھر جعلی ٹھپوں سے بھرے ہوئے بیلٹ پیپرز، انتخابات کے بعد ہماری ٹی وی اسکرینوں پر بہت سے ایسے ثبوت لہرائے گئے جن کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ سارا کا سارا انتخابی نظام تشکیل ہی کسی بڑے فراڈ کو سرانجام دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ 35 پنکچر، اردو بازار کے مبینہ بیلٹ پیپر جیسی شکایتیںعام تھیں۔ ریاست بچاؤ کی تحریک بھی اسی دھاندلی کے الزام کے بطن سے پیدا ہوئی۔
ماڈل ٹاؤن کا سانحہ بھی اسی مطالبہ سے جوڑا گیا۔ الیکشن کے فوراََ بعد ہی پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی کے مختلف حلقوں کے نتائج کو الیکشن کمیشن کے سامنے چیلنج کر دیا گیا، پھر الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی عذرداری کی درخواستوں کو سننے کے عمل کی سست روی سے تنگ آکر پی ٹی آئی نے حکومت سے چار حلقوں کے نتائج کو کھولنے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔کئی مہینوں پر محیط دھرنے کے بعد آخر کار پی ٹی آئی اپنی شکایات کو سپریم کورٹ کے روبرو لے گئی، جہاں مزید کئی مہینوں کے انتظار کے بعد درخواست یہ کہہ کر نمٹا دی گئی کہ گو 2013ء کے انتخابی عمل میں بے تحاشا خامیاںسامنے آئی ہیںتاہم کسی منظم دھاندلی کے شواہد نہیں ملے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی کئی سنگین کوتاہیوں کی نشاندہی بھی کی۔ یوںدنیا کے سامنے ہمارے انتخابی نظام کی قلعی کھل گئی۔
ہمارے مقابلے میں بھارت کا الیکشن کمیشن ایک چیف الیکشن کمشنر اور صرف دیگر دو ارکان پر مشتمل ہے جن کا تعلق انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس سے ہوتاہے۔ بھارتی حکومت نے غیر معمولی انتظامی صلاحیت اور غیر جانب داری کی پختہ روایات پر مبنی ایک ایسا قابل اعتماد انتخابی نظام قائم کیا ہے جسے دیانتداری اور شفافیت کے اعتبار سے دنیا بھر میں ایک رول ماڈل تسلیم کیا جاتا ہے، بھارت کا حلقہ بندی کمیشن بھی اسی طرح کا ایک مثالی ادارہ ہے، سری لنکا میں پاکستان کی طرح دھاندلی عام تھی اس نے اس حوالے سے بھارت سے خدمات لی گئیں ، آج کل وہاں پرسکون ماحول میں الیکشن ہوتے ہیں۔
ایران کی مثال لے لیں جہاں ایک بار دھاندلی کی شکایت ہوئی تھی جسے دور کرنے کے لیے سپریم کونسل نے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا اور یورپ کا جدید نظام نافذ کرکے اس مسئلے سے مستقل چھٹکارہ حاصل کرلیا۔ کیا پاکستان میں ایسا سسٹم رائج نہیں ہوسکتا؟ یہاں تو ری کاؤنٹنگ کا مسئلہ ہی زندگی موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ جمہوری نظام کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں بھی وطن عزیز میں اسی طرح کے ادارے تشکیل دینے ہوں گے۔
خدارا اپنے قریبی ملک سے ہی کچھ فائدہ اُٹھا لیں، ویسے بھی تو اربوں روپے ضایع کیے جاتے ہیں تو چند کروڑ کے عوض بین الاقوامی فرموں کی خدمات لے لی جائیں ؟ یا پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون بنادے کہ اگلے الیکشن سے پہلے فلاں فلاں ریفارمز ہونی چاہئیںورنہ الیکشن نہیں ہوں گے، لیکن اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اکٹھے ہونے والے ان پارلیمنٹیرینز نے جو کام نہیں کرنا وہ نہیں کرنا۔ لیکن پارلیمنٹ سے یہ سوال تو کیا جا سکتا ہے کہ اس نے ساڑھے چار سالوں میں کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیے؟ عوام کی خوشحالی، ان کو ریلیف دینے کے لیے کتنے نئے قوانین بنائے۔ آئین میں وہ شقیں جو عوامی مفادات کے برعکس ہیں، ان کے خاتمہ کے لیے کتنی کوششیں ہوئیں؟ احتساب جس کا آج چرچا ہے۔
اس کو موثر بنانے کے لیے ادارہ جاتی ڈھانچہ کو کس طرح اور کتنا مضبوط کیا گیا۔ کیا احتساب کا نیا قانون بنا؟ نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا آج کی طرح سب سیاستدانوں کے گریبان کسی اور کے ہاتھ میں ہوتے؟ اب اسی پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات کا بل پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ پارلیمنٹ اب جس میں ہر کوئی اپنے مفادات کی ڈگڈی پکڑ کر تماشا کر رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹر تصور ہو سکیں۔ سوال یہ ہے کہ 2013ء کی پارلیمنٹ وجود میں آئی تو اس کے سامنے کون سے حل طلب ایشوز تھے۔ مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی، دہشتگردی، چوبیس گھنٹوں تک پھیلی لوڈشیڈنگ کا اذیت ناک عذاب۔ لیکن ایک مسئلہ اور بھی تھا۔ یاد رہے دھاندلی۔
ہمارے انتخابی نظام کی ایک اور بڑی خامی یہ بھی ہے کہ اس میں ووٹ ضایع ہوجاتے ہیں اور کامیاب قرار پانے والا امیدوار عوام کا حقیقی نمایندہ نہیں ہوتا کیونکہ اس نے عام طور پر تیس فیصد یا اس سے بھی کم ووٹ حاصل کیے ہوتے ہیں لہٰذا انتخابی اصلاحات کمیٹی کو 51 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے لیے قانون سازی کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات بھی الیکشن کمیشن ہی کی نگرانی میں کرائے جائیں تاکہ عام آدمی بھی سیاسی جماعتوں میں کلیدی پوزیشن تک رسائی حاصل کرسکے۔
ہمارے انتخابی نظام کو ممکنہ حد تک قابل اعتماد اور فول پروف بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد حاصل کرنا اور فرسودہ طریقہ کار کو یکسر ترک کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ دھاندلی کے الزامات عائد کرنے کی ذرا سی بھی گنجائش باقی نہ رہے۔ انتخابی اصلاحات کا مقصد منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہونا چاہیے نہ کہ ایسے قوانین تشکیل دیے جائیں جس سے برسراقتدار جماعت اور اس کی ہمنوا سیاسی جماعتوں کو فائدہ پہنچے۔ شفاف اور غیر جانبدار انتخابی سسٹم جمہوریت کی بقا کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
انتخابی سسٹم پر عوام کو یقین ہو گا تو کوئی سیاسی جماعت یا امید وار دھاندلی کے الزام عائد نہیں کر سکے گا کیونکہ عوام میں اس کے اس الزام کی پذیرائی نہیں ہو گی۔ اس سلسلے میں حکومت کے ہاتھ باندھ کر اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے،کیونکہ اگر اسحاق ڈار یا دوسرے وزراء کی نگرانی میں یہ کام ہوا تو پھر ہمارا اور اگلے الیکشن کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اور اگر اس سلسلے میں مزید دیر ہو گئی تو ہمیں اگلے الیکشن میں بھی گل گھوٹو قسم کے قائدین کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بقول شاعر
پھر وہ جنرل الیکشن میں بھی ہوگا کامیاب
وہ جو ہے معروف گل گھوٹو کے عرف عام سے