کاملیت
قرآنی تعلیمات کی روشنی میں نسخِ ادیانِ سابقہ تکمیل دین اور ختمِ نبوت رسالت محمدیؐ کے لازمی اجزا ہیں
رسالت کے لغوی معنی پیامبری کے ہیں۔ جو شخص کسی کا پیغام کسی دوسرے شخص کے پاس لے جائے وہ رسول ہے۔ مگر اسلام کی اصطلاح میں رسول اس کو کہتے ہیں جو خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچائے اور راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرے۔ رسول کے لیے ہادی کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے، یعنی سیدھی راہ دکھانے والا۔
رسالت کی ضرورت: زندگی کی عملی تشکیل اور خیر و شر کے پورے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حقائق کا جتنا شعور، علم اور نور بصیرت انسان کو درکار ہے وہ باطنی رہنما، عقل، وجدان اور اجتماعی غور و فکر سب مل کر بھی فراہم نہیں کرسکتے۔ خیر و شر کا تعین کرنے اور احکام و مرضیاتِ الٰہی معلوم کرنے کے لیے ان ذرایع کی نارسائی بالکل مسلم و ثابت ہے، جس طرح انسان کو غذا، پانی، روشنی اور ہوا کی ضرورت ہے اسی طرح اس کی سب سے بڑی ضرورت مرضیاتِ الٰہی، بندگی اور اطاعت کی راہ اور خیر و شرکا علم ہے۔
اللہ نے اس ضرورت کو پورا کرنے کا انتظام بھی اسی طرح کردیا جس طرح اس کی جسمانی ضرورتوں کا۔ اس خارجی انتظام کا عنوان، نظام رسالت ہے، اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کی ابتدا کے ساتھ ساتھ اس کا اہتمام کیا اور اس سلسلے میں کوئی بھی تاخیر روا نہ رکھی، دنیا کا پہلا انسان نبی تھا، اس طرح تاریخ انسانی کا آغاز ہدایت اور روشنی میں ہوا جہالت اور تاریکی میں نہیں۔ پھر یہ روشن سلسلہ برابر جاری رہا، ہر دور اور ہر قوم میں اللہ تعالیٰ کے نبی احکام اور مرضیات الٰہی اپنی اپنی قوموں تک پہنچاتے رہے اس سرچشمہ ہدایت کی آخری کڑی محمد عربی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم ہیں۔
رسالت کی اہمیت: توحید کے بعد اسلام کا دوسرا بنیادی عقیدہ رسالت ہے، جس طرح اعتقاد کے معاملے میں توحید اصل دین ہے، اسی طرح اطاعت کے معاملے میں رسالت اصل دین ہے۔ رسالت کے بغیر انسان اللہ کے احکام سے واقف نہیں ہوسکتا، یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ انسان اس واسطے سے قطع تعلق کرکے علم صحیح سے دامن فکر کو وابستہ کرسکے۔ رسالت ہی وہ ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت اور آخرت کا صحیح علم عطا کرتا ہے۔ رسالت کا عقیدہ درحقیقت اسلامی تہذیب و تمدن کی جان، اس کی روح حیات اور قوت بقا ہے، اسلام میں مفکر، رہنما اور قانون ساز نبی کی ذات ہے اللہ کے عطا کردہ علم اور نور بصیرت کی روشنی میں وہ انداز فکر، اصول، اخلاق اور تمدنی قوانین وضع کرتا ہے وہ اسلامی تہذیب و تمدن کا معمار، شارع اور شارح ہوتا ہے۔
ان کا قائم کیا ہوا طریقہ شریعت، منہاج اور صراط مستقیم ہوتا ہے اس کی اطاعت عین خدا کی اطاعت ہوتی ہے، قرآنی تعلیمات کی روشنی میں نسخِ ادیانِ سابقہ تکمیل دین اور ختمِ نبوت رسالت محمدیؐ کے لازمی اجزا ہیں، اطاعت اور اتباع کا تعلق عملاً سب انبیا کرام سے منقطع ہوکر صرف محمد عربیؐ کی تعلیم اور اسوۂ حسنہ کے ساتھ منسلک ہوگیا ہے۔ ہدایت اور فلاح کا دامن نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع سے وابستہ ہے رسالت کے متعلق کسی کا ایمان اللہ کی نظر میں اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک کہ وہ رسالتِ محمدیؐ کے اس امتیازی وصف کو ملحوظ رکھ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے کیونکہ یہ فرمان الٰہی ہے۔
قرآن مجید میں انبیا کی جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں ان میں سے نمایاں مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں:
(1) بشریت: اگرچہ انبیا و رسل علیہم السلام کی سیرت انتہا درجہ پاکیزہ، ان کا باطنی اور معنوی پہلو باکمال، ان کا علم اور نور بصیرت لا جواب ہوتا ہے عام انسان ان کی خاکِ پا بھی نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود وہ سب بشرتھے، نہ وہ فرشتے تھے نہ جن، نہ وہ خدا کے بیٹے تھے نا اوتار، ان میں الوہیت ذرہ برابر نہ تھی، انھوں نے اپنے بشری پہلو کی خود بھی کبھی نفی نہیں کی۔ بلکہ عجز و انکساری کے ساتھ اپنی بندگی اور خدا کی معبودیت کا اقرار کیا۔ ہر نبی نے اس بات کا واضح اعلان کیا کہ ''میں اللہ کا بندہ ہوں۔ تمہاری طرح ایک بشر ہوں۔ میرے کمالات میری ذاتی صلاحیت اور ذہن کی پیداوار نہیں بلکہ خدا کے مرہون منت ہیں''۔
(2) وھبیت: وھبیت کے معنی ہیں کہ رسالت کوئی ایسا عہدہ یا منصب نہیں جو محنت، عبادت اور ریاضت سے حاصل کیا جاسکے۔ یہ اللہ کا خصوصی انعام ہے جو کسی حسنِ کارکردگی کے نتیجے میں نہیں ملتا بلکہ صرف اس شخص کو ملتا ہے جس پر اللہ کی نظر کرم پڑ جائے۔ نبوت کے ملنے میں انسانی کوشش اور ارادے کا دخل نہیں ہوتا وہ خودساختہ یا عوام ساختہ نہیں ہوتے بلکہ خدا ساختہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے منصب نبوت کے لیے افراد کا انتخاب اور چناؤ خود کیا اس انتخاب ربانی کو قرآن کی زبان میں اصطِفا کہتے ہی۔ اصطفا کے معنی ہیں بہت سی چیزوں میں سے بہترین چیز کو چن لینا۔
(3) الہامیت: پیغمبر مذہب کے نام پر جو کچھ انسانوں کے سامنے پیش کرتا ہے وہ عین مرضی اور منشا الٰہی کے مطابق ہوتا ہے اس کے اپنے نفس کا کوئی دخل نہیں ہوتا وہ اپنے نفس سے کچھ نہیں کہتا بلکہ وہی کچھ کہتا ہے جس کی ان کو وحی کی جاتی ہے وہ اپنی خواہشات نفس سے فرمان الٰہی میں تبدیلی ترمیم یا اضافہ بھی نہیں کرسکتا اس پر اللہ کی خصوصی نگرانی ہوتی ہے۔
(4) معصومیت: نبی معصوم اور انتہا درجہ کا طاہر ہوتا ہے، اس کی فکر اور اس کا اجتہاد غلطی سے پاک ہوتا ہے۔ نفس اور شیطان اسے گمراہ نہیں کرسکتا ان کو اپنے نفس پر نہایت ضبط ہوتا ہے ان کا خوفِ خدا اندیشہ و آخرت اور اخلاقی حس اس قدر نکھری، اجلی اور ترقی یافتہ ہوتی ہے کہ گناہ کی تحریک ان کی طبیعت میں جنم ہی نہیں لیتی ان کا دامن گناہ کی آلودگی اور کثافت سے پاک ہوتا ہے معصوم صرف اور صرف نبی کی ذات ہوتی ہے۔ یہ وصف صرف نبی کا ہے ان کی زندگی اور افکار و نظریات دین میں سند اور حجت رکھتے ہیں اس لیے شک و شبہ اور تنقید سے بالاتر ہوتے ہیں۔ عام انسان ان کی تعلیمات کی حکمتوں کی رفعت کو نہایت عرق ریزی کے بعد بھی نہیں چھوسکتا۔
انبیا کرام اور دیگر بانیان مذہب میں صرف تاریخ ''تاریخی'' ہونے کی شان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ حضور اکرمؐ کی سیرت مبارکہ کا سب سے مستند اور صحیح ترین حصہ وہ ہے جس کا ماخذ خود قرآن مجید ہے۔
سیرت النبیؐ کا کامل پہلو: لاکھوں انبیا کرام کی جماعت میں سے صرف تین چار ہی ہستیاں ایسی ہیں جو تاریخی کہی جاسکتی ہیں لیکن کاملیت کے پہلو پر وہ بھی پوری نہیں اترتیں، کوئی زندگی خواہ کسی قدر تاریخی ہو جب تک کامل نہ ہو انسانوں کے لیے نمونہ اور مثال نہیں بن سکتیں کاملیت سے مراد ہے کہ اس کی زندگی کے تمام حالات اور واقعات ہمارے سامنے موجود ہوں۔ اس معیار پر کوئی بانیٔ مذہب سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پورا نہیں اترتا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپؐ خاتم الانبیا ہیں۔
حضور اکرمؐ کی سیرت کا سب سے روشن ترین پہلو یہ ہے کہ آپؐ نے اپنے پیروؤں کو جو نصیحت فرمائی اس پر سب سے پہلے خود عمل کرکے دکھایا۔ قرآن مجید نے آپؐ کی زندگی کو خود آپؐ کی نبوت اور قرآن کی صداقت کے لیے بطور دلیل پیش کیا ہے۔ قرآن مجید دنیا کے تمام انسانوں کو دعوت عام دیتا ہے کہ کامل، جامع، عملی اور تاریخی انسان کی سیرت کی پیروی کرکے سلیم العقل ہونے کا ثبوت دیں کیونکہ یہ روشنی کا ایک ایسا مینار ہے جو صراط مستقیم کا پتا دیتا ہے۔ انسانیت کی سعادت فلاح اور ہدایت کا ضامن اور کفیل ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔
ترجمہ: ''بے شک تمہارے لیے اللہ کے رسولؐ کی زندگی ایک بہترین مثالی نمونہ ہے''۔