اشتمالی سماج کیسا ہوگا
سوشلزم میں کارکنان کا راج ہوتا ہے، جب کہ کمیونزم میں عوام کا راج ہوتا ہے۔
LONDON:
ابھی تک دنیا میں اشتمالی یا امداد باہمی کا آزاد سماج کہیں بھی قائم نہیں ہوا۔ جسے ہم کمیونسٹ سماج غلط فہمی سے سمجھتے ہیں وہ کمیونسٹ نہیں سوشلسٹ سماج ہے۔ سوشلزم راہ گزر ہے یا یوں کہہ لیں کہ کمیونسٹ سماج میں داخل ہونے کے لیے ایک اسپیس اسٹیشن یا ریہرسل کی جگہ ہے۔ مگر یہ ریہرسل کرنے میں اگر دہائیاں یا صدیاں لگا دیں تو رد انقلاب بھی، یعنی سرمایہ داری بھی پلٹ کر آسکتی ہے۔
اس لیے کہ سوشلزم میں بھی طبقات موجود ہوتے ہیں۔ دیہات اور شہر کی تفریق، لکھے پڑھے اور ان پڑھ کی تفریق، ہنرمند اور غیرہنر مندوں کی تفریق، خاندانوں کی تفریق، سوچوں اور روایتوں کی تفریق وغیرہ وغیرہ۔ مگرکمیو نسٹ سماج میں یہ تفریقات ختم ہوجاتی ہیں۔ سوشلزم میں کارکنان کا راج ہوتا ہے، جب کہ کمیونزم میں عوام کا راج ہوتا ہے۔ کمیونزم اسٹیٹ لیس سوسائٹی کوکہتے ہیں، یعنی ریاست کا متبادل تشکیل دینا ہوتا ہے۔ کمیونسٹ سماج میں سرحدی محافظ، اسمبلی، عدلیہ، میڈیا، پولیس، فوج، کرنسی نوٹ، جیل، وکیل اور پارٹی وغیرہ کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔
سب سے پہلے خواتین کو دھوبی گھاٹ اور باورچی خانے سے آزادی دلوانی ہوگی۔ اس لیے بھی کہ کسی بھی خطے میں خواتین کی آبادی نصف سے کم نہیں، بلکہ کہیں کہیں تو زیادہ ہی ہے۔ گاؤں یا شہر میں ہر محلے یا گلی میں مشترکہ کینٹین اور دھوبی گھاٹ بنانے ہوں گے۔ ان دھوبی گھاٹ یا باورچی خانے میں کام کرنے والوں کے تمام اخراجات گلی، محلے والے برداشت کریں گے۔
اسی طرح گھروں کی صفائی کرنے والوں کے اخراجات بھی گلی والے برداشت کریں گے۔ ابھی تو یہ ساری چیزیں ایک خواب لگتی ہیں، لیکن خواب دیکھے بغیر ہم مستقبل کی تعمیر بھی نہیں کرسکتے۔ اگر پرندوں کو اڑتے ہوئے نہ دیکھتے تو ہم ہوائی جہاز بھی ایجاد نہ کرپاتے۔ اگر مکڑی کو جال بنتے ہوئے نہ دیکھتے تو کپڑا بنانا نہ سیکھ پاتے۔ انسان نے اس دنیا میں جو کچھ کیا اور کررہا ہے فطری ماحول اور عوامل کو دیکھ کر اور پرکھ کر ہی کر رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پیسے نہ ہوں تو کارخانے کہاں سے بنیں گے؟ پیسے درحقیقت تبادلے کا ذریعہ ہے۔ پہلے جانوروں سے، کھالوں سے، نمک سے، کوڑیوں، دھاتوں سے، بعد ازاں سکوں اور کرنسی نوٹوں سے اجناس کا تبادلہ ہونے لگا۔ ورنہ زمانہ قدیم میں سامان کے بدلے سامان دیا جاتا تھا۔ لہٰذا بنیادی طور پر کرنسی نوٹ اہم نہیں بلکہ قوت محنت بنیادی چیز ہے۔ پہاڑ میں پڑا ہوا پتھر اور دریا میں بہتے ہوئے پانی کی کوئی قیمت نہیں۔ مگر جب اسی پتھر کو ایک مزدور اٹھا کر لاتا ہے اور سڑک بنانے کے لیے توڑتا ہے یا دریا کا پانی پینے یا کھیت کو سیراب کرنے کے کام میں لاتا ہے تو اس میں مزدوروں کی قوت محنت شامل ہوجاتی ہے، اس لیے اس کی قدر بننے سے سرمایہ بن جاتا ہے۔
اب یہ طے پایا کہ سرمایہ اور سرمایہ دار کے بغیر کارخانے چل سکتے ہیں۔ ہر مٍل، فیکٹری اور کارخانے کے مزدور خود اس کا انتظام چلاسکتے ہیں۔ اسی طرح زمین کو لے لیں۔ ہر گاؤں کے لوگ مشترکہ طور پر زمین پر کاشت کرسکتے ہیں، جو کہ ہزاروں برس پہلے لوگ کرتے تھے، جب گندم، دھان یا کچھ اور فصل تیار ہوجائے تو مل کر کاٹا جاسکتا ہے اور سب کو برابری کی بنیاد پر بانٹا جاسکتا ہے۔
کیمیائی کھادوں کی کوئی ضرورت نہیں، یہ تو بیماریاں پھیلاتی ہیں اور زمین کو بانجھ کرتی جاتی ہیں۔ جہاں تک تبادلے کی بات ہے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر ہر گاؤں میں عبوری عوامی کمیون بنا لیا جائے تو وہ اگر کسی گاؤں میں بینگن زیادہ ہے تو پڑوس کے گاؤں والوں کو بینگن دے کر چاول اور کوئی آلو دے کر مچھلی حاصل کرسکتا ہے۔
جب ملکیت، جائیداد، خاندان کی غلامی، ونی، وٹہ سٹہ، کاروکاری، بے جوڑ جبری نکاح کا خاتمہ ہوجائے گا تو تقریباً تضادات بھی ختم ہوجائیں گے۔ اگر کبھی چھوٹے موٹے جھگڑے ہو بھی جائیں تو محلے کی عبوری کمیٹیاں باآسانی صلح صفائی کرلیں گی۔ جہاں تک سرحدی محافظین کا تعلق ہے تو جب جائیداد اور ملکیت کا خاتمہ ہوجائے گا تو پھر ان کی حفاظت کی کوئی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔ جب گلی گلی، گاؤں گاؤں صلح صفائی کی عبوری عوامی کمیٹیاں موجود ہوں گی تو پھر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے یہ عدالتیں کیا کریں گی۔
جب فیصلے گلی کوچوں، کھیتوں کھلیانوں میں ہونے لگیں گے تو پھر لاک اپ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ سماج میں بسنے والے لوگوں کو جب انصاف ملنے لگے گا تو پھر جیل کس کام کی ہوگی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں تو جیل انتقام کا ادارہ ہوتا ہے لیکن کمیونسٹ سماج میں سماجی بائیکاٹ کے ذریعے آدمی کو انسان بنادیا جائے گا، جسے ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ پولیس تو لوگوں کو سہولت دینے کے بجائے پریشانیوں سے دوچار کرتی رہتی ہے، اس لیے لوگ پولیس کے پاس جانے سے گھبراتے ہیں۔ میڈیا، وزارتیں اور عمائدین سے لوگ تنگ آچکے ہیں۔ ان کی مکروہ شکلیں اور تبصرے دیکھ اور سن سن کر اکتا گئے ہیں۔
یہ میڈیا عوام کے لیے نہیں بلکہ محنت کشوں کو تسلی اور بہکاوا دینے کے لیے ہوتا ہے، اس لیے اس میڈیا کو انتظامیہ اور مالکان کے ہاتھوں سے نکال کر شہریوں، پیداواری قوتوں اور محنت کشوں کے حوالے کرنا ہے، جو زیادہ سے زیادہ پانچ ماہ کی عبوری کمیٹیوں کے ذریعے چلاتے رہیں۔ جہاں تک وزارتوں کی بات ہے تو یہ بری طرح کام چلانے کے لیے ہوتی ہیں۔ یہ کام کوئی بھی شعبہ جات ماہرین کے ذریعے عبوری عوامی کمیٹیوں سے چلایا جاسکتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں ہر شعبے کو ایسے وزرا کے حوالے کیا جاتا ہے جنھیں اس شعبے کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا، صرف لٹیرے نوکر شاہی کو بٹھا دیا جاتا ہے، جن کے ذریعے لوٹ مار کی جاسکے۔ اس لیے کمیونسٹ نظام ایک ایسا نظام ہوگا جو مثالی ہوگا، چہار طرف خوشحالی اور محبتوں کے پھول کھلیں گے۔ سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا ہوگا۔ دنیا کی سرحدیں ختم ہوجائیں گی اور دنیا ایک ہوجائے گی۔
ابھی تک دنیا میں اشتمالی یا امداد باہمی کا آزاد سماج کہیں بھی قائم نہیں ہوا۔ جسے ہم کمیونسٹ سماج غلط فہمی سے سمجھتے ہیں وہ کمیونسٹ نہیں سوشلسٹ سماج ہے۔ سوشلزم راہ گزر ہے یا یوں کہہ لیں کہ کمیونسٹ سماج میں داخل ہونے کے لیے ایک اسپیس اسٹیشن یا ریہرسل کی جگہ ہے۔ مگر یہ ریہرسل کرنے میں اگر دہائیاں یا صدیاں لگا دیں تو رد انقلاب بھی، یعنی سرمایہ داری بھی پلٹ کر آسکتی ہے۔
اس لیے کہ سوشلزم میں بھی طبقات موجود ہوتے ہیں۔ دیہات اور شہر کی تفریق، لکھے پڑھے اور ان پڑھ کی تفریق، ہنرمند اور غیرہنر مندوں کی تفریق، خاندانوں کی تفریق، سوچوں اور روایتوں کی تفریق وغیرہ وغیرہ۔ مگرکمیو نسٹ سماج میں یہ تفریقات ختم ہوجاتی ہیں۔ سوشلزم میں کارکنان کا راج ہوتا ہے، جب کہ کمیونزم میں عوام کا راج ہوتا ہے۔ کمیونزم اسٹیٹ لیس سوسائٹی کوکہتے ہیں، یعنی ریاست کا متبادل تشکیل دینا ہوتا ہے۔ کمیونسٹ سماج میں سرحدی محافظ، اسمبلی، عدلیہ، میڈیا، پولیس، فوج، کرنسی نوٹ، جیل، وکیل اور پارٹی وغیرہ کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔
سب سے پہلے خواتین کو دھوبی گھاٹ اور باورچی خانے سے آزادی دلوانی ہوگی۔ اس لیے بھی کہ کسی بھی خطے میں خواتین کی آبادی نصف سے کم نہیں، بلکہ کہیں کہیں تو زیادہ ہی ہے۔ گاؤں یا شہر میں ہر محلے یا گلی میں مشترکہ کینٹین اور دھوبی گھاٹ بنانے ہوں گے۔ ان دھوبی گھاٹ یا باورچی خانے میں کام کرنے والوں کے تمام اخراجات گلی، محلے والے برداشت کریں گے۔
اسی طرح گھروں کی صفائی کرنے والوں کے اخراجات بھی گلی والے برداشت کریں گے۔ ابھی تو یہ ساری چیزیں ایک خواب لگتی ہیں، لیکن خواب دیکھے بغیر ہم مستقبل کی تعمیر بھی نہیں کرسکتے۔ اگر پرندوں کو اڑتے ہوئے نہ دیکھتے تو ہم ہوائی جہاز بھی ایجاد نہ کرپاتے۔ اگر مکڑی کو جال بنتے ہوئے نہ دیکھتے تو کپڑا بنانا نہ سیکھ پاتے۔ انسان نے اس دنیا میں جو کچھ کیا اور کررہا ہے فطری ماحول اور عوامل کو دیکھ کر اور پرکھ کر ہی کر رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پیسے نہ ہوں تو کارخانے کہاں سے بنیں گے؟ پیسے درحقیقت تبادلے کا ذریعہ ہے۔ پہلے جانوروں سے، کھالوں سے، نمک سے، کوڑیوں، دھاتوں سے، بعد ازاں سکوں اور کرنسی نوٹوں سے اجناس کا تبادلہ ہونے لگا۔ ورنہ زمانہ قدیم میں سامان کے بدلے سامان دیا جاتا تھا۔ لہٰذا بنیادی طور پر کرنسی نوٹ اہم نہیں بلکہ قوت محنت بنیادی چیز ہے۔ پہاڑ میں پڑا ہوا پتھر اور دریا میں بہتے ہوئے پانی کی کوئی قیمت نہیں۔ مگر جب اسی پتھر کو ایک مزدور اٹھا کر لاتا ہے اور سڑک بنانے کے لیے توڑتا ہے یا دریا کا پانی پینے یا کھیت کو سیراب کرنے کے کام میں لاتا ہے تو اس میں مزدوروں کی قوت محنت شامل ہوجاتی ہے، اس لیے اس کی قدر بننے سے سرمایہ بن جاتا ہے۔
اب یہ طے پایا کہ سرمایہ اور سرمایہ دار کے بغیر کارخانے چل سکتے ہیں۔ ہر مٍل، فیکٹری اور کارخانے کے مزدور خود اس کا انتظام چلاسکتے ہیں۔ اسی طرح زمین کو لے لیں۔ ہر گاؤں کے لوگ مشترکہ طور پر زمین پر کاشت کرسکتے ہیں، جو کہ ہزاروں برس پہلے لوگ کرتے تھے، جب گندم، دھان یا کچھ اور فصل تیار ہوجائے تو مل کر کاٹا جاسکتا ہے اور سب کو برابری کی بنیاد پر بانٹا جاسکتا ہے۔
کیمیائی کھادوں کی کوئی ضرورت نہیں، یہ تو بیماریاں پھیلاتی ہیں اور زمین کو بانجھ کرتی جاتی ہیں۔ جہاں تک تبادلے کی بات ہے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر ہر گاؤں میں عبوری عوامی کمیون بنا لیا جائے تو وہ اگر کسی گاؤں میں بینگن زیادہ ہے تو پڑوس کے گاؤں والوں کو بینگن دے کر چاول اور کوئی آلو دے کر مچھلی حاصل کرسکتا ہے۔
جب ملکیت، جائیداد، خاندان کی غلامی، ونی، وٹہ سٹہ، کاروکاری، بے جوڑ جبری نکاح کا خاتمہ ہوجائے گا تو تقریباً تضادات بھی ختم ہوجائیں گے۔ اگر کبھی چھوٹے موٹے جھگڑے ہو بھی جائیں تو محلے کی عبوری کمیٹیاں باآسانی صلح صفائی کرلیں گی۔ جہاں تک سرحدی محافظین کا تعلق ہے تو جب جائیداد اور ملکیت کا خاتمہ ہوجائے گا تو پھر ان کی حفاظت کی کوئی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔ جب گلی گلی، گاؤں گاؤں صلح صفائی کی عبوری عوامی کمیٹیاں موجود ہوں گی تو پھر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے یہ عدالتیں کیا کریں گی۔
جب فیصلے گلی کوچوں، کھیتوں کھلیانوں میں ہونے لگیں گے تو پھر لاک اپ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ سماج میں بسنے والے لوگوں کو جب انصاف ملنے لگے گا تو پھر جیل کس کام کی ہوگی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں تو جیل انتقام کا ادارہ ہوتا ہے لیکن کمیونسٹ سماج میں سماجی بائیکاٹ کے ذریعے آدمی کو انسان بنادیا جائے گا، جسے ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ پولیس تو لوگوں کو سہولت دینے کے بجائے پریشانیوں سے دوچار کرتی رہتی ہے، اس لیے لوگ پولیس کے پاس جانے سے گھبراتے ہیں۔ میڈیا، وزارتیں اور عمائدین سے لوگ تنگ آچکے ہیں۔ ان کی مکروہ شکلیں اور تبصرے دیکھ اور سن سن کر اکتا گئے ہیں۔
یہ میڈیا عوام کے لیے نہیں بلکہ محنت کشوں کو تسلی اور بہکاوا دینے کے لیے ہوتا ہے، اس لیے اس میڈیا کو انتظامیہ اور مالکان کے ہاتھوں سے نکال کر شہریوں، پیداواری قوتوں اور محنت کشوں کے حوالے کرنا ہے، جو زیادہ سے زیادہ پانچ ماہ کی عبوری کمیٹیوں کے ذریعے چلاتے رہیں۔ جہاں تک وزارتوں کی بات ہے تو یہ بری طرح کام چلانے کے لیے ہوتی ہیں۔ یہ کام کوئی بھی شعبہ جات ماہرین کے ذریعے عبوری عوامی کمیٹیوں سے چلایا جاسکتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں ہر شعبے کو ایسے وزرا کے حوالے کیا جاتا ہے جنھیں اس شعبے کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا، صرف لٹیرے نوکر شاہی کو بٹھا دیا جاتا ہے، جن کے ذریعے لوٹ مار کی جاسکے۔ اس لیے کمیونسٹ نظام ایک ایسا نظام ہوگا جو مثالی ہوگا، چہار طرف خوشحالی اور محبتوں کے پھول کھلیں گے۔ سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا ہوگا۔ دنیا کی سرحدیں ختم ہوجائیں گی اور دنیا ایک ہوجائے گی۔