رواں سال بھی پاکستانی میدان ویران رہنے کا امکان
پاکستان سپر لیگ ملتوی ہونے کے بعد نئی تاریخوں کا تعین کرنے کیلیے کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے۔
سپر لیگ ملتوی ہونے سے رواں سال بھی پاکستانی میدان ویران رہنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
عام انتخابات، سیکیورٹی صورتحال اور ٹیموں کی مصروفیات ایونٹ کے انعقاد کا موقع نہیں دیں گی،لیگ کھٹائی میں پڑنے کے سبب پی ایس ایل سے وابستہ افرادکی ملازمتوں کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں، ہارون لورگاٹ کو بھی الوداع کہہ دیا جائے گا،دوسری طرف بنگلہ دیشی لیگ میں کمائی سے محروم رہنے والے قومی کرکٹرز نقصان کی تلافی کا موقع ہاتھ سے نکل جانے پر مایوسی کا شکار ہیں۔ تفصیلات کے مطابق26 مارچ سے7اپریل تک شیڈول پاکستان سپر لیگ ملتوی ہونے کے بعد نئی تاریخوں کا تعین کرنے کیلیے کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے، البتہ زمینی حقائق کے پیش نظر ایونٹ کا رواں سال انعقاد ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
ملک میں عام انتخابات کی تیاریاں زوروں پر ہیں، ایسے میں سیکیورٹی سمیت حکام اور عوام کی تمام تر توجہ انتخابی سرگرمیوں پر ہوگی، پاکستانی ٹیم اور دیگر ممالک کے پلیئرز کی مصروفیات بھی ایسی ہیں کہ دستیابی یقینی نہیں بنائی جا سکتی، قومی کرکٹ ٹیم دورئہ جنوبی افریقہ 24مارچ کومکمل کرے گی، 6 سے 23 جون تک چیمپئنز ٹرافی انگلینڈ میں شیڈول ہے،اس سے قبل آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ سے2،2 میچز کھیلنے ہیں، جولائی میں گرین شرٹس کو ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنا ہو گا،اکتوبر میں جنوبی افریقہ کی میزبانی کرنی ہے جس کیلیے ممکنہ طور نیوٹرل وینیو یو اے ای کا انتخاب ہوگا، دسمبر میں انہی میدانوں پر پاک سری لنکا سیریز کرائی جائے گی۔
اس دوران وقفے میں دیگر ٹیموں کے کھلاڑی بھی مصروف ہوں گے، ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتحال میں بھی نمایاں بہتری کیلیے صرف نیک خواہشات کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے،ان حالات میں رواں سال پی ایس ایل کی توقع رکھنا حقیقت سے زیادہ خوش کن خواب دیکھنے کے مترادف ہوگا۔ایونٹ کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہنے کے بعد پی سی بی کو بھاری معاوضوں پر تعینات پی ایس ایل آفیشلز کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرنا ہے، بورڈ حکام آئی سی سی کے سابق چیف ہارون لورگاٹ کو کنسلٹنٹ بنائے جانے کے بعد سے اب تک تنخواہ بتانے سے گریز کرتے رہے ہیں تاہم ان کو ڈالرز میں دیا جانے والا معاوضہ خطیر ہی ہوگا، پی ایس ایل کے مستقبل کے حوالے سے کچھ بھی واضح نہ ہونے کے بعد انھیں ادائیگی جاری رکھنا ممکن نہیں،دیگر آفیشلز کی بڑی تعداد بھی بے کار بیٹھی رہ کر تنخواہیں نہیں لے سکتی۔
ذرائع کے مطابق بورڈ نے اس حوالے کچھ اہم فیصلوں کیلیے غور بھی شروع کردیا ہے، دوسری طرف ہوم ایونٹ ملتوی کیے جانے کے بعد پی سی بی کی طرف سے این او سی نہ دیے جانے کی وجہ سے بنگلہ دیشی لیگ میں شرکت سے محروم رہ جانے والے کرکٹرز کی آس بھی ٹوٹ گئی ہے،یاد رہے کہ بی سی بی کی طرف سے بار بار وعدوں کے باوجود ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کے بعد پی سی بی نے کھلاڑیوں کو بنگلہ دیش جانے کا پروانہ جاری کرنے سے انکار کردیا تھا، ایک پلیئر کے مطابق ہمیں پی ایس ایل میں کسی حد تک اپنے نقصان کی تلافی ہونے کی امید تھی جو اب ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں بہتر معاوضے دلانے کی تسلی دی گئی تھی مگر اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ایونٹ کا انعقاد کب ہوگا، ایک کرکٹر نے کہا کہ معلوم نہیں کس بنیاد پر بورڈ کو یقین تھا کہ وہ ایونٹ کا انعقاد ممکن بنا سکتا ہے،پی سی بی اپنے کھلاڑیوں کی آئی پی ایل میں جگہ بنانے کیلیے بھی راہ ہموار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یاد رہے کہ بی پی ایل میں نہ کھیلنے والے زیادہ تر پلیئرز ایک سے3 لاکھ ڈالر تک کما سکتے تھے۔
عام انتخابات، سیکیورٹی صورتحال اور ٹیموں کی مصروفیات ایونٹ کے انعقاد کا موقع نہیں دیں گی،لیگ کھٹائی میں پڑنے کے سبب پی ایس ایل سے وابستہ افرادکی ملازمتوں کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں، ہارون لورگاٹ کو بھی الوداع کہہ دیا جائے گا،دوسری طرف بنگلہ دیشی لیگ میں کمائی سے محروم رہنے والے قومی کرکٹرز نقصان کی تلافی کا موقع ہاتھ سے نکل جانے پر مایوسی کا شکار ہیں۔ تفصیلات کے مطابق26 مارچ سے7اپریل تک شیڈول پاکستان سپر لیگ ملتوی ہونے کے بعد نئی تاریخوں کا تعین کرنے کیلیے کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے، البتہ زمینی حقائق کے پیش نظر ایونٹ کا رواں سال انعقاد ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
ملک میں عام انتخابات کی تیاریاں زوروں پر ہیں، ایسے میں سیکیورٹی سمیت حکام اور عوام کی تمام تر توجہ انتخابی سرگرمیوں پر ہوگی، پاکستانی ٹیم اور دیگر ممالک کے پلیئرز کی مصروفیات بھی ایسی ہیں کہ دستیابی یقینی نہیں بنائی جا سکتی، قومی کرکٹ ٹیم دورئہ جنوبی افریقہ 24مارچ کومکمل کرے گی، 6 سے 23 جون تک چیمپئنز ٹرافی انگلینڈ میں شیڈول ہے،اس سے قبل آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ سے2،2 میچز کھیلنے ہیں، جولائی میں گرین شرٹس کو ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنا ہو گا،اکتوبر میں جنوبی افریقہ کی میزبانی کرنی ہے جس کیلیے ممکنہ طور نیوٹرل وینیو یو اے ای کا انتخاب ہوگا، دسمبر میں انہی میدانوں پر پاک سری لنکا سیریز کرائی جائے گی۔
اس دوران وقفے میں دیگر ٹیموں کے کھلاڑی بھی مصروف ہوں گے، ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتحال میں بھی نمایاں بہتری کیلیے صرف نیک خواہشات کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے،ان حالات میں رواں سال پی ایس ایل کی توقع رکھنا حقیقت سے زیادہ خوش کن خواب دیکھنے کے مترادف ہوگا۔ایونٹ کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہنے کے بعد پی سی بی کو بھاری معاوضوں پر تعینات پی ایس ایل آفیشلز کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرنا ہے، بورڈ حکام آئی سی سی کے سابق چیف ہارون لورگاٹ کو کنسلٹنٹ بنائے جانے کے بعد سے اب تک تنخواہ بتانے سے گریز کرتے رہے ہیں تاہم ان کو ڈالرز میں دیا جانے والا معاوضہ خطیر ہی ہوگا، پی ایس ایل کے مستقبل کے حوالے سے کچھ بھی واضح نہ ہونے کے بعد انھیں ادائیگی جاری رکھنا ممکن نہیں،دیگر آفیشلز کی بڑی تعداد بھی بے کار بیٹھی رہ کر تنخواہیں نہیں لے سکتی۔
ذرائع کے مطابق بورڈ نے اس حوالے کچھ اہم فیصلوں کیلیے غور بھی شروع کردیا ہے، دوسری طرف ہوم ایونٹ ملتوی کیے جانے کے بعد پی سی بی کی طرف سے این او سی نہ دیے جانے کی وجہ سے بنگلہ دیشی لیگ میں شرکت سے محروم رہ جانے والے کرکٹرز کی آس بھی ٹوٹ گئی ہے،یاد رہے کہ بی سی بی کی طرف سے بار بار وعدوں کے باوجود ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کے بعد پی سی بی نے کھلاڑیوں کو بنگلہ دیش جانے کا پروانہ جاری کرنے سے انکار کردیا تھا، ایک پلیئر کے مطابق ہمیں پی ایس ایل میں کسی حد تک اپنے نقصان کی تلافی ہونے کی امید تھی جو اب ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں بہتر معاوضے دلانے کی تسلی دی گئی تھی مگر اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ایونٹ کا انعقاد کب ہوگا، ایک کرکٹر نے کہا کہ معلوم نہیں کس بنیاد پر بورڈ کو یقین تھا کہ وہ ایونٹ کا انعقاد ممکن بنا سکتا ہے،پی سی بی اپنے کھلاڑیوں کی آئی پی ایل میں جگہ بنانے کیلیے بھی راہ ہموار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یاد رہے کہ بی پی ایل میں نہ کھیلنے والے زیادہ تر پلیئرز ایک سے3 لاکھ ڈالر تک کما سکتے تھے۔