4 جج متعصب ہیں اٹارنی جنرل جانبداری کا الزام لگانے والا خود سامنے آئے سپریم کورٹ

عدلیہ نے جرنیلوں کوکبھی کچھ نہیں کہا،عرفان قادر، بینچ سے تکرار، جس نے الزام لگانے کا کہا اسکی طرف سے ثبوت دیں،عدالت


Numainda Express August 03, 2012
عدلیہ نے جرنیلوں کوکبھی کچھ نہیں کہا،عرفان قادر، بینچ سے تکرار، ججز کو بدنام کرنا آپکا وطیرہ بن گیا، جس نے الزام لگانے کا کہا اسکی طرف سے ثبوت دیں،عدالت۔ فوٹو ایکسپریس

RAWALPINDI: اٹارنی جنرل عرفان قادر نے توہین عدالت قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ پر جانبداری کا الزام لگا تے ہوئے مقدمہ 16 رکنی لارجر بینچ کے سامنے رکھنے کی استدعا کی ہے جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے آبزرویشن دی کہ اداروں میں تصادم کا منفی تاثراب ختم ہو نا چا ہیے جان بوجھ کر غلط تاثر پھیلایا گیا حالانکہ عدالت نے کسی شخصیت کے خلاف خط لکھنے کا ہر گز نہیں کہا بلکہ مقدمات دوبارہ کھولنے کی بات کی ہے۔

عدالت نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ جانبداری کا الزام لگانے والے فریق میں اتنی جرأت ہونی چاہیے کہ وہ خود سامنے آکر بولے۔ جمعرات کو اٹارنی جنرل نے عدالت پر جانبداری کا الزام لگایا اور کہا کہ 5 رکنی بینچ میں 4 جج بظاہر متعصب نظر آرہے ہیں۔عدالت نے اس الزام کا سخت نوٹس لیا۔ چیف جسٹس نے کہا ججوں کو بدنام کرنا اٹارنی جنرل کا وطیرہ بن گیا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل آفس کو مذاق مت بنائیں جس آدمی نے اعتراض اٹھانے کے لیے کہا ہے ان کی طرف سے جواب بھی جمع کر دیں۔

چیف جسٹس نے الزام ثابت کرنے کے لیے ثبوت مانگے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے، بعض چیزوں کو ثبوت کی ضرورت نہیں ہو تی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ اعتراض پہلے دن اٹھا دیا جاتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کو غیر ضروری طور پر بدنام کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا الزام لگانے والے فریق میں اتنی جرأت ہونی چاہیے کہ سامنے آکر بولے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر بینچ کو اس نکتے پر اعتراض ہے تو وہ اس پر زور نہیں دیتے۔ اٹارنی جنرل نے دلائل آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس قانون سے کسی کا بنیادی حق متاثر نہیں ہو ا ہے موجودہ قانون اقوام متحدہ کے اعلامیے کے بھی عین مطا بق ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر نئے قانون میں کوئی خامی ہے تو اسے دور ہو نا چا ہیے لیکن قانون کو کالعدم نہیں ہو نا چاہیے۔ جسٹس جواد نے کہا یہی بات تو چیف جسٹس نے بار بار کی ہے کہ قانون میں خامی دور کرکے قابل عمل بنایا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تو بارہا قانون بچانے کا کہہ چکے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے پاکستان بار کونسل پر بھی تنقید کی اور کہا کہ بار کونسل کو فریق نہیں بننا چا ہیے تھا، بار نے توہین عدالت کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو لوگ اس قانون سے متاثر ہو رہے ہیں، انھیں بھی نوٹس جاری کر کے سنا جائے تاہم عدالت نے اس نکتے سے اتفاق نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دفعہ 302 میں ترمیم ہو تو کیا عدالت سزائے موات پانے والے تمام افراد کے ورثاء کو نوٹس جاری کرے گی۔ اٹارنی جنرل کا جواب تھا کہ انصاف کا یہی تقاضا ہے۔ انھوں نے درخواستیں ہائی کورٹ منتقل کرنے کی استدعا کی تاہم عدالت نے یہ موقف بھی مسترد کر دیا۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ 7 رکنی بینچ نے وزیر اعظم گیلانی کو آرٹیکل 248 کی خلاف ورزی پر مجبور کیا جس کو استثنٰی حاصل تھا ان کے خلاف خط لکھنے کے لیے کہا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا نام بتا دیں جنھیں استثنٰی حا صل تھا اور عدالت نے استثنٰی کے باوجود ان کے خلاف خط لکھنے کے لیے کہا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت پر بہت بڑا الزام ہے حالانکہ خود وزیر اعظم نے استثنٰی کی بات نہیں کی۔ انھوں نے کہا کہ این آر او فیصلے کے پیرا گراف نمبر 178کے حوالے سے بہت غلط فہمی پھیلائی گئی ہے۔ عدالت نے ہرگز کسی شخصیت کے بارے خط لکھنے کا نہیں کہا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ نہیں کہہ رہے بلکہ خود وزیر اعظم گیلانی نے نشتر میڈیکل کالج میں تقریر میں یہ بات کہی تھی۔

عدالت کے بار بار اصرار کے باوجود اٹارنی جنرل نے وہ نام بتانے سے گریز کیا جنھیں ان کی رائے میں استثنیٰ حا صل تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ یوسف رضا گیلانی کی آج بھی عزت کرتے ہیں، وہ ہمارے لیے قابل عزت ہیں لیکن ایک فیصلہ تھا جو قانون کو دیکھ کر صادر کیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حاجی عدیل نے سینیٹ میں اس قانون پر بحث کے دوران کہا تھا کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری ختم ہو گئی ہے عوام کے منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ یہ کہنا چا ہتے ہیں کہ یہ قانون وزیر اعظم کو بچانے کے لیے بنایا گیا، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہتے بلکہ ایک پارلیمنٹرین کی یہ رائے ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کی مجموعی دانش کو دیکھا جاتا ہے کسی ایک کی رائے کو نہیںدیکھا جا تا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون ایک فرد کے لیے نہیں ہو تا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے ہمیشہ منتخب عوامی نمائندوں کے خلاف کارروائی کی ہے لیکن جرنیلوں کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی جن جرنیلوں نے پی سی او کے اجرا میں پرویز مشرف کی مدد کی ان کے خلاف آج تک توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوئی۔

اٹارنی جنرل نے مقدمے میں معاون مقرر کرنے کی استدعا کی لیکن عدالت نے اتفاق نہیں کیا۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ آپ عدالت کے معاون ہیں آپ ہی قانون کو بچانے کا راستہ بتا دیں۔ سماعت آج پھر ہوگی۔ این این آئی کے مطابق سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کے رویے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ معاونت کرنے کے بجائے کیس میں پارٹی نہ بنیں۔ کسی کو استثنیٰ چاہیے تو اپنا نام بتائے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ انھیں تحریری شکل میں ان ججز کے نام اور ان کے جانبدار ہونے سے متعلق وجوہ بھی بتانا ہوں گی۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ جس نے اعتراض اٹھانے کا مشورہ دیا اس کی جانب سے تحریری جواب جمع کرادیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انھوں نے حقیقی نہیں بلکہ بظاہر تعصب کی بات کی ہے جس پر بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ بظاہر تعصب کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں آپ کو ڈرا نہیں رہا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ڈرنے والے ہوتے تو یہاں نہ بیٹھے ہوتے۔ عرفان قادر کا کہنا تھا توہین عدالت کے نئے قانون کی ضرورت اس وقت پیش آئی کیونکہ ملک میں توہین عدالت کا کوئی نیا قانون موجود ہی نہیں تھا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو یہ تاثر دیا گیا کہ ملک میں توہین عدالت کا کوئی قانون موجود نہیں ہے جبکہ اس نئے قانون سے پہلے بھی توہین عدالت کا قانون موجود تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے بتایا جائے نیا قانون کس طرح آئینی تقاضے پورے کر رہا ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت، جرنیلوں کے خلاف توہین عدالت کارروائی سے کیوں ہچکچاتی ہے؟۔ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007کے اقدامات سے متعلق پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کو تو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کیے گئے مگر ان جرنیلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی جنھوں نے ایمرجنسی لگانے میں پرویز مشرف کا ساتھ دیا تھا۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی اس وقت بھی بینچ سے تکرار ہو گئی جب جسٹس جواد ایس خواجہ نے ان سے کہا کہ وہ دھیمے لہجے میں بات کریں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کی آواز قدرتی طور پر اونچی ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان بار کونسل کی درخواست توہین عدالت کے مترادف ہے ۔ اس طرح بار کونسل عدالت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بار کی عزت کرتے ہیں آپ کو بھی کرنی چاہیے۔ پاکستان بار کونسل کے خلاف اعتراضات واپس لے لیں ورنہ ہم اس نقطے پر کونسل کو نوٹس دیں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ بے شک نوٹس دیں بلکہ رولنگ دے دیں کہ کونسل درخواست دائر کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے گیلانی کو آرٹیکل 248 کی خلاف ورزی پر مجبور کیا جو وہ نہیں کر سکتے تھے۔ یوسف رضا گیلانی نے تصادم سے گریز کیا اور قربانی دی عدالت بھِی گریز سے کام لے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں