لال مسجدآپریشنمشرف مذاکرات سے حل چاہتے تھےکمال شاہ
مولاناعبدالعزیزبرقعے میں گرفتارہوئے توبعد میں مسجداورمدرسہ سے کوئی باہرنہ آیا
لال مسجد کمیشن میں سابق سیکریٹری داخلہ کمال شاہ،سابق ڈپٹی کمشنر چوہدری محمد علی،سابق آئی جی اسلام آبادچوہدری افتخار سمیت6 گواہوں نے اپنے تحریری بیانات پیش کر دیے ہیں۔
کمیشن کا اجلاس ہفتہ کوجسٹس شہزادو شیخ کی زیر صدارت ہوا۔چیف کمشنر اسلام اباد طارق محمود پیرزادہ، موجودہ ڈی سی اسلام آباد عامر علی احمد اور آئی جی اسلام آباد بینامین خان نے اپنے تحریری بیان جمع کرا دیئے ہیں۔سابق سیکریٹری داخلہ نے جمع کرائے گئے بیان میں موقف اختیارکیا ہے کہ لال مسجد آپریشن کا فیصلہ بہت دیر بعدکیا گیا، اس سے پہلے مشرف حکومت معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرانا چاہتی تھی، اس مقصدکے لیے امام کعبہ اورچوہدری شجاعت کی جانب سے مولانا عبد العزیز اور ان کے بھائی عبد الرشید غازی سے مذاکرات کیے گئے جو بے نتیجہ ختم ہوئے اور لال مسجد انتظامیہ نے حکومت کی کسی بات پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔
ذرائع کے مطابق بیان میں مزیدکہا گیا ہے کہ لال مسجد آپریشن شروع ہونے سے قبل 3جولائی 2007 تک طلبا و طالبات اور دیگر افراد مسجد و مدرسہ سے باہر آتے رہے ہیں تاہم تین جولائی کو جب مولانا عبد العزیز برقعے میں مسجد سے باہر آتے ہوئے گرفتار ہوئے تو اس کے بعد جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں موجود کوئی بھی فرد باہر نہیں آیا کمیشن نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف، سابق وزیر اعظم شوکت عزیز،ایم این اے سمیرا ملک، مولانا عبد الغفورحیدری،میاں اسلم ، شیخ رشید احمد سمیت تقریبا 60افراد کواگلے اجلاس میں پیش ہونے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے کمیشن کی سماعت کل پیر تک ملتوی کر دی۔
پرویز مشرف کی وکیل افشاں عادل نے بتایا ہے کہ تحریری بیان پیش کرنے کیلیے ہوم ورک مکمل کر رہے ہیں بہت جلد ٹھوس حقائق پر مشتمل بیان پیش کر دیا جائے گا۔آئی این پی کے مطابق کمیشن نے گواہان کے بیان پرکہ آپریشن کاحکم سابق وزیراعظم شوکت عزیزنے دیاتھااس پر ان کا آپریشن کاتحریری حکم نامہ طلب کرلیا ہے۔کمیشن نے سیکیورٹی فورسز اور لال مسجدکے مارے جانیوالے افراد اورلاپتہ ہونے والوں کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں ۔ کمیشن کے ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ کو لال مسجد آپریشن کرنے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم کا تحریری حکم پیش کرنیکی ہدایت کی گئی ہے، وزارت داخلہ نے وزارت خارجہ کے ذریعے سابق وزیر اعظم شوکت عزیزکو خط بھجوانے کافیصلہ کیاہے۔
کمیشن کا اجلاس ہفتہ کوجسٹس شہزادو شیخ کی زیر صدارت ہوا۔چیف کمشنر اسلام اباد طارق محمود پیرزادہ، موجودہ ڈی سی اسلام آباد عامر علی احمد اور آئی جی اسلام آباد بینامین خان نے اپنے تحریری بیان جمع کرا دیئے ہیں۔سابق سیکریٹری داخلہ نے جمع کرائے گئے بیان میں موقف اختیارکیا ہے کہ لال مسجد آپریشن کا فیصلہ بہت دیر بعدکیا گیا، اس سے پہلے مشرف حکومت معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرانا چاہتی تھی، اس مقصدکے لیے امام کعبہ اورچوہدری شجاعت کی جانب سے مولانا عبد العزیز اور ان کے بھائی عبد الرشید غازی سے مذاکرات کیے گئے جو بے نتیجہ ختم ہوئے اور لال مسجد انتظامیہ نے حکومت کی کسی بات پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔
ذرائع کے مطابق بیان میں مزیدکہا گیا ہے کہ لال مسجد آپریشن شروع ہونے سے قبل 3جولائی 2007 تک طلبا و طالبات اور دیگر افراد مسجد و مدرسہ سے باہر آتے رہے ہیں تاہم تین جولائی کو جب مولانا عبد العزیز برقعے میں مسجد سے باہر آتے ہوئے گرفتار ہوئے تو اس کے بعد جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں موجود کوئی بھی فرد باہر نہیں آیا کمیشن نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف، سابق وزیر اعظم شوکت عزیز،ایم این اے سمیرا ملک، مولانا عبد الغفورحیدری،میاں اسلم ، شیخ رشید احمد سمیت تقریبا 60افراد کواگلے اجلاس میں پیش ہونے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے کمیشن کی سماعت کل پیر تک ملتوی کر دی۔
پرویز مشرف کی وکیل افشاں عادل نے بتایا ہے کہ تحریری بیان پیش کرنے کیلیے ہوم ورک مکمل کر رہے ہیں بہت جلد ٹھوس حقائق پر مشتمل بیان پیش کر دیا جائے گا۔آئی این پی کے مطابق کمیشن نے گواہان کے بیان پرکہ آپریشن کاحکم سابق وزیراعظم شوکت عزیزنے دیاتھااس پر ان کا آپریشن کاتحریری حکم نامہ طلب کرلیا ہے۔کمیشن نے سیکیورٹی فورسز اور لال مسجدکے مارے جانیوالے افراد اورلاپتہ ہونے والوں کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں ۔ کمیشن کے ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ کو لال مسجد آپریشن کرنے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم کا تحریری حکم پیش کرنیکی ہدایت کی گئی ہے، وزارت داخلہ نے وزارت خارجہ کے ذریعے سابق وزیر اعظم شوکت عزیزکو خط بھجوانے کافیصلہ کیاہے۔