مکران کا ساحل یا کچرا دان

لمحہ فکریہ یہ کہ بلدیہ پسنی کی جانب سے کچرا عین اُسی جگہ پر جمع کیا جارہا ہے جہاں کیکڑوں کی افزائش نسل ہوتی ہے

بے حسی اور غیر ذمہ داری کی وجہ سے نہ صرف ساحل کی خوبصورتی ماند پڑرہی ہے بلکہ آبی حیات کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ تصاویر: ظریف بلوچ

موسمی تغیرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے مکران کے حساس ساحلی علاقوں پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ درجہ حرارت بڑھنے کا اثر اِس سال مکران کی ساحلی علاقوں میں بھی پڑا ہے اور موسمِ گرما میں مکران کے ساحلی علاقوں میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو ماہرین کلائمٹ چینج، موسمی تغیرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے جوڑ رہے ہیں۔



ایک طرف قدرتی طور پر موسمی تبدیلیوں کے منفی اثرات ساحلِ مکران اور یہاں کے مکینوں پر پڑ رہے ہیں تو دوسری طرف مقامی افراد اور ماہی گیروں کی جانب سے ساحلی علاقوں پر پھیلائی جانے والی گندگی سے بھی معاملات خراب ہورہے ہیں۔ مکران کے ساحلی شہر پسنی میں ساحل کو گندا کرنے کا بیڑا خود بلدیہ پسنی نے اٹھایا ہے۔ اگرچہ اِس کی ذمہ داری شہر کو صاف ستھرا رکھنا ہے لیکن شہر کو صاف کرنے کے لیے وہ وہاں کا سارا کوڑا کرکٹ تلف کرنے کے بجائے ساحل پر جمع کررہی ہے۔ اِس بے حسی اور غیر ذمہ داری کی وجہ سے نہ صرف ساحل کی خوبصورتی ماند پڑرہی ہے بلکہ آبی حیات کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔



مکران میں ایک محتاط اندازے کے مطابق آٹھ (8) سے دس (10) لاکھ افراد کا ذریعہ معاش سمندر سے منسلک ہے، مگر عجیب اتفاق ہے کہ نہ تو حکومت کی جانب سے اِس حوالے سے کوئی اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں اور نہ ہی ماہی گیر اور اِس شعبے سے منسلک دیگر کاروباری طبقے ساحل کی صفائی کا خیال کررہے ہیں، بلکہ یہاں حال یہ ہے کہ سمندر میں ڈیزل کی ترسیل اور لانچ مالکان تبدیل شدہ آئل کو سمندر میں ہی پھینک رہے ہیں جس کی وجہ سے سمندری مخلومات کی نسل کو ہی نہیں بلکہ انسانی زندگی کو بھی شدید نقصان کا سامنا ہے۔



لکھاری اور سوشل ایکٹیوسٹ گلزار گچکی اس بارے میں اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں کہ پلاسٹک کی بوتل اور جال پانی میں حل نہیں ہوتے اور کچھوے کی خوراک چونکہ جیلی فش ہوتی ہے، لہذا وہ ساحل پر پڑے پلاسٹک کے تھیلوں کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں جس کی وجہ سے پلاسٹک اُن کے گلے میں پھنس جاتی ہیں اور یوں وہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کے فاضل مواد اور پلاسٹک کے تھیلے سمندر اور سمندری حیات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔




مکران کے ساحلی علاقوں میں زیادہ تر 'فش کمپنیاں' ساحل کے قریب بنائی گئی ہیں مگر اکثر کمپنیوں میں ماحولیات کے اصولوں کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا کہ 'فش کمپنیوں' کا فاضل مواد بھی سمندر میں گھل جاتا ہے جس کی وجہ سے بھی مچھلیوں کو نقصان پہنچنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔

پسنی کے سینئر صحافی اور بلاگر غلام یاسین بزنجو اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سمندری آلودگی سے آبی حیات بُری طرح متاثر ہوتی ہیں اور آبی آلودگی کے سبب جھینگے، کیکڑے اور دیگر کی نسل معدوم ہونے کے خطرہ کے ساتھ انسانی صحت کے لئے بھی نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی سمندری نباتات پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

حیاتیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پلاسٹک کی بوتلوں اور دیگر فاضل مواد کو بہتر اور مناسب طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا گیا تو یہ سمندر کے اندر پہنچ کر ایکو سسٹم کو تباہ کرسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اِس حوالے سے آگہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ پلاسٹک سے بنی اشیاء کا کم استعمال کریں، اگر ایسا ممکن نہیں تو کوشش کرکے اِس کے نعم البدل اشیاء کا بندوبست کریں کیونکہ دھوپ اور سمندر کے نمکین پانی سے پلاسٹک ٹوٹ کر ذرات میں تبدیل ہوجاتی ہے، اور اِن ذرات کو سمندری مچھلیاں خوراک سمجھ کر کھانے کی کوشش کرتی ہیں جس کی وجہ سے اُن کو نقصان پہنچتا ہے۔



سائبریا سے نقل مکانی کرنے والے پرندے چونکہ پسنی کے ساحل کو عرصہِ دراز سے اپنا مسکن بناتے آرہے ہیں لیکن بلدیہ پسنی کی جانب سے اِس ساحل کو کچرا دان بنانے کے بعد سے یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ شاید نقل مکانی کرنے والے پرندے اب یہاں کا رُخ نہ کریں۔ ایک اور اہم بات یہ کہ یہاں کچرا عین اُسی جگہ پر جمع کیا جارہا ہے جہاں کیکڑوں کی افزائش نسل ہوتی ہے اور کیکڑوں کے بِل بھی موجود ہیں۔

غلام یاسین بزنجو نے بات کرتے ہوئے دُکھی لہجے میں کہا کہ پوری دنیا میں ساحل کے قریب گندگی پھینکنا ممنوع ہے لیکن یہاں پسنی میں جس کی ذمہ داری کچرے کو صاف کرنے کی ہے وہی ساحل پر کچرا جمع کررہی ہے، ایسی صورت میں اب کسے وکیل کریں کس سے شکایت کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
Load Next Story