فیصلہ ہو گیا

میاں صاحب ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر تیسری دفعہ فائز ہونے کے باوجود اس بار بھی اپنی سیاست کو بچانے میں ناکام رہے

Abdulqhasan@hotmail.com

پاناما کیس کا فیصلہ ہوگیا، وہی ہوا جس کی قیاس آرائیاں اور عوامی خواہشات تھیں ۔ سپریم کورٹ کے پانچ معزز ججوں نے اپنے متفقہ تاریخی فیصلے میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے اہم ترین افراد کو ناہل قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف احتساب ریفرنس بھجوانے کا حکم دیتے ہوئے صدر مملکت کو نئے وزیر اعظم کے لیے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے جمہوری تسلسل برقرار رکھنے کا کہا ہے۔

پاناما کیس کا یہ تاریخی فیصلہ ملکی سیاست کی نئی راہیں متعین کرنے کے ساتھ ملک میں عوام کی خواہشات کے مطابق اشرافیہ کے احتساب کی جانب انتہائی اہم قدم قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس متفقہ فیصلے میں عدلیہ نے کسی بھی نظریہ ضرورت کو مدنظر نہیں رکھا اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنا فیصلہ سنایا جس کے دور رس اثرات ملک کی اشرا فیہ کے احتساب کے شکنجے میں آنے کے بعد آپ کو بہت جلد نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔

پاناما کی تفصیلات آنے کے بعد دنیا بھر میں سب سے پہلے عوامی عہدے رکھنے والے حکمران ہی اس کا شکار بنے اور بعض تو الزامات سامنے آنے پر ہی اپنے عہدوں سے الگ ہو گئے تھے لیکن ہمارے ملک کی روایات کے مطابق میں نہ مانوں کا ورد جاری رہا اور ان تما م الزامات کو جھوٹاقرار دیا جاتا رہا اور میاں نواز شریف نے بطور منتخب وزیر اعظم اسمبلی میں اپنی تقریر میں نہ صرف ان تمام الزامات سے انکار کیا بلکہ یہ بات بھی ببانگ دہل کہی کہ ان کے پاس ان تمام الزامات کے جوابات اور ثبوت ہیں اور انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے لیکن عدالت کے بارہا اصرار کے باوجود وہ اپنے دفاع میں کوئی بھی ایسی دستاویز پیش کرنے سے قاصر رہے جو ان کو بے گناہی کو ثابت کر دیتی اور وہ نااہلی سے بچ جاتے۔

میاں نواز شریف اس سارے کیس کے دوران اپنے خلاف سازشوں کا ہی ذکر کرتے رہے اور یہ بھی کہا کہ وقت آنے پر یہ معلوم ہو جائے گا کہ کون ان کے خلاف سازشیں کر تا رہا ہے۔ وہ شاید اس غلط فہمی میں رہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کچھ نادیدہ قوتیں ان کا ساتھ دیں گی اور ان کو بچا لیں گی وہ اسی غلط فہمی کا شکار ہو کر اپنے آپ کو نااہل کرا بیٹھے ہیں اور اپنے ساتھ اپنے جان نشینوں کو بھی لے ڈوبے ہیں جن پر وہ اپنے مستقبل کی سیاست کے خدوخال بنا رہے تھے اور مطمئن تھے کہ اگر وہ سیاست سے آؤٹ بھی ہو گئے تو ان کے جان نشین ان کی جگہ سنبھال لیں گے اور وہ بطور سرپرست پیچھے بیٹھ کر معاملات کو چلا ئیں گے۔


میاں صاحب ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر تیسری دفعہ فائز ہونے کے باوجود اس بار بھی اپنی سیاست کو بچانے میں ناکام رہے اور مشورہ دانوں کے غلط مشوروں کا شکار ہو کر اپنی کئی دہائیوں سے جاری سیاست کو ختم کر بیٹھے ۔

پاکستان کی سیاست اس تاریخی فیصلے سے نیا موڑ تو لے گی لیکن پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے بھی پاکستانی عوام کو یہ امید دلائی ہے اور پیغام دیا ہے کہ پاکستان میںانصاف کا بول بالا ہے ۔ عدلیہ کے اس فیصلے سے ایک عام پاکستانی کا حوصلہ بھی بلند ہوا ہے کہ ملک کے بڑے لوگوں کے خلاف بھی فیصلے ہو سکتے ہیںاور ان سے بھی پوچھ گچھ ہو سکتی ہے۔

یہ فیصلہ ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب کرے گا اور اس کے سیاسی مضمرات کیا ہوں گے آنے والے وقت میں یہ تمام باتیں کھل کر سامنے آجائیں گی۔ مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیسا ہو گا اور میاں نواز شریف اپنی پارٹی کو اس سیاسی منظر نامے میں کس طرح شامل رکھ سکیں گے کیونکہ کہ رائیونڈ میں بیٹھ کر ملکی سیاست کو کنٹرول کرنا بہت کٹھن ہو گا جب کہ آپ کے خلاف احتساب ہو رہا ہو اور عدالتوں میں آپ پیشیاں بھگت رہے ہوں ، متحرک اپوزیشن ان کو اس بات کا موقع نہیں دے گی کہ وہ پارٹی معاملات کو معمول کے مطابق چلا سکیں وہ اپنی نااہلی کی وجہ سے آنے والے انتخابات میں وہ کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں گے، ان کے پاس واحد حل شہباز شریف کی صورت میں موجود ہے جو پارٹی کو پنجاب میں انتخابی مہم میں زندہ رکھ سکتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے ترقیاتی کاموں کا ایک جواز موجود ہے جس سے انکار ممکن نہیں ۔

پاکستان مسلم لیگ کی تاریخ ہے کہ یہ وہ سیاسی جماعت ہے جو ہمیشہ ہر دور میں استعمال ہوئی ، اس کو فوجی حکومتوں نے بھی مارشل لاء کے دوران استعمال کیا اور ان کے لیے سیاسی سہارا بنی، سیاسی حکومتوں کے دوران بھی اس جماعت نے مخصوص ایجنڈے کو پروان چڑھایا۔ نوے کی دہائی میں آئی جے آئی کی مثال سب کے سامنے ہے جب نواز شریف کو اقتدار میں لانے کے لیے مقتدر قوتوں نے اتحاد بنوا کر ان کو وزیر اعظم بنایا تھا جس کا بعد میں ہمارے مرحوم دوست حمید گل نے اقرار بھی کیا۔

موجودہ سیاسی حالات میں نواز لیگ کے لیے سب سے بڑا اور مشکل مرحلہ نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا ہے کہ وہ اقتدار کا ہما کس کے سر پر بٹھاتی ہے، میاں نواز شریف کا یہ فیصلہ ان کے آیندہ کے سیاسی ارادوں کا پتا دے گا کہ وہ کس طرح کی سیاست کرنا چاہتے ہیں اور اگر اس فیصلے میں بھی وہ کوئی غلطی کر بیٹھے تو ان کے لیے اپنی پارٹی کو بچانا انتہائی مشکل ہو جائے گا اور مسلم لیگیئے کسی نئی شاخ پر بیٹھنے کے لیے پرواز کر جائیں گے۔
Load Next Story