امریکی انصاف کا شاہکار

دہشت گردوں کی لعنت صرف امریکا افغانستان پاکستان اور بھارت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے


Zaheer Akhter Bedari July 29, 2017
[email protected]

امریکی ایوان نمایندگان نے بھارت سے دفاعی تعاون میں اضافے اور پاکستانی امداد پر سخت شرائط عائد کرنے کا بل منظور کر لیا۔ دفاعی پالیسی بل میں پاکستان پر سخت شرائط عائد کرنے کی ترامیم اراکین اسمبلی ڈانا روہرا باچر اور ٹیڈپو کی جانب سے پیش کی گئیں۔

ایوان نے 6215 ارب ڈالر کا یہ دفاعی پالیسی بل منظور کر لیا جس میں پاکستان پر نئی شرائط عائد کر دی گئیں جن کے تحت پاکستان کو امداد کے حصول کے لیے اپنے ہاں موجود نیٹو سپلائی راستوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا۔ انسداد دہشت گردی آپریشنز میں مدد کے لیے واضح اقدامات کرنے ہوں گے، سرحد پار ہونے والے حملوں کو روکنا اور بارودی سرنگوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مناسب کارروائی کرنا ہو گی۔

اس بل کے تحت یکم اکتوبر 2017ء سے 31 دسمبر 2018ء تک پاکستان کے لیے مختص کردہ 40 کروڑ ڈالرکی امداد اس وقت تک نہیں دی جائے گی۔ جب تک امریکی وزیر دفاع اس بات کی تصدیق نہ کردیں کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف مسلسل کارروائی کر رہا ہے اور شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کو محفوظ پناہ گاہیں قائم کرنے سے روک رہا ہے اور پاک افغان سرحد پر عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے افغان حکومت سے مکمل تعاون کر رہا ہے۔

دوسری جانب اسی بل میں بھارت سے دفاعی تعاون میں اضافے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ بل کے تحت امریکی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کو 6 ماہ کے اندر بھارت اور امریکا کے درمیان دفاعی تعاون میں اضافے کی حکمت عملی تشکیل دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ دفاعی پالیسی بل اب سینیٹ میں پیش کیا جائے گا جہاں سے منظوری کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حتمی منظوری دیں گے جس سے یہ بل قانون بن جائے گا۔ جن ارکان اسمبلی نے یہ ترامیم پیش کی ہیں انھوں نے متنازعہ شکیل آفریدی کو امریکا کا ہیرو قرار دیا ہے۔

امریکا کو ایک سپرپاورکا درجہ حاصل ہے اور ایک سپرپاورکی حیثیت سے امریکا کی یہ اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ دو متحارب ملکوں کے درمیان غیر جانبدارانہ پالیسی کو اپنائے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکا کی خارجہ پالیسی خصوصاً پاکستان اور بھارت کے حوالے سے انتہائی جانبدارانہ رویے پر منحصر ہے۔ دہشت گردوں کی لعنت صرف امریکا افغانستان پاکستان اور بھارت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور دہشت گردی کی روک تھام اور اس کے خلاف سخت سے سخت آپریشن ہر ملک کی ذمے داری ہے۔

حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے ہوسکتا ہے امریکا کے موقف میں کسی حد تک سچائی ہو لیکن پاکستان میں دہشت گردی اور سبوتاژکی کارروائیوں میں را کے ہاتھ سے بھی انکار ممکن نہیں اور المیہ یہ ہے کہ ان کارروائیوں کے لیے بھارت افغان حکومت کو استعمال کر رہا ہے۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے کیا امریکا کے اراکین اسمبلی کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ پاکستان پر اس قسم کی پابندیاں لگانے کے ساتھ ساتھ بھارت پر بھی یہ پابندی لگانے کی تجویز پیش کرتے کہ وہ پاکستان خصوصاً پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں روکنے کے لیے بھارت اور افغانستان پر بھی دباؤ ڈالتے۔

اس حوالے سے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں کی سرپرستی اور انھیں استعمال کرنے کا کام کس نے شروع کیا اور کیوں کیا؟ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ مذہبی انتہا پسندوں کی کاشت اور انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا نیک کام امریکی حکومت ہی نے کیا جس کا مقصد روس کو افغانستان سے نکالنا تھا اور یہ مقصد امریکا کے پالیسی ساز اداروں نے پاکستان میں طالبان کی کاشت کے لیے ضیا الحق کی مدد سے کیا۔ آج جو دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی ساری دنیا میں دیکھی جا رہی ہے اس کی بنیادی ذمے داری امریکا پر ہی عائد ہوتی ہے۔

یہی نہیں بلکہ امریکا کے سابق صدر جارج بش نے دہشت گردی کے خلاف اپنی نام نہاد مہم میں پاکستان کو بہ جبر شریک کیا اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو دھمکی دی گئی کہ اگر وہ اس نام نہاد مہم میں شامل نہ ہوئے تو انھیں پتھر کے دور میں پہنچا دیا جائے گا۔ اس مہم میں شامل ہونے اور فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گرد پاکستان کے دشمن ہوگئے اور اسی دشمنی کے نتیجے میں 60 ہزار بے گناہ پاکستانیوں کو دہشت گردوں نے انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

پاکستان اور بھارت دو متحارب ملک ہیں اور اس کی وجہ مسئلہ کشمیر ہے کیا امریکا کا موجودہ صدر ٹرمپ اس حقیقت سے واقف نہیں کہ کشمیر میں اب تک ایک لاکھ کے لگ بھگ بے گناہ کشمیریوں کو قتل کیا گیا اور یہ قتل بھارت کی وہ آٹھ لاکھ فوج نے کیا جسے بھارتی حکومت نے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو دبانے کے لیے کشمیر میں متعین کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی رائے شماری کے ذریعے حل ہونا چاہیے کیا جمہوریت کے چیمپئن بھارت اور امریکا کشمیریوں کے جمہوری حق سے ناواقف ہیں۔ ایسی پیچیدہ اور نازک صورتحال میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان پر سخت شرائط عائد کرنا اور بھارت سے دفاعی تعاون میں اضافہ کرنا قرین انصاف ہے کیا اس طرح دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں