چین بھارت جنگ کیا 2017 بھی

بھارت کے مؤقف سے نریندر مودی کی پالیسوں کا واضح اشارہ ملتا ہے۔

ایک ماہ سے زیادہ ہوتے ہیں،بھارتی فوج نے سطح مرتفع ڈانگ لینگ(بھارتی جسے ڈوکلام کہتے ہیں) میں چین، سکم(بھارت کا مقبوضہ علاقہ) اور بھوٹان کے سنگم پر چین کی جانب سڑک کی تعمیرروکنے کے لیے پیش قدمی کی۔ سورابھ گپتا کہتے ہیں '' یہ مکمل طور پر چین اور بھوٹان کا باہمی مسئلہ تھا۔ بھوٹان کے لیے لازم ہے کہ وہ ڈوکلام کے علاقے میں چین کے اس اختیار کو قبول کرے جب کہ بھارت کے پاس اس معاملے میں مداخلت کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔''

بھارت خوف زدہ ہے کہ اس سڑک کی تعمیر سے چین کو تزویراتی اعتبار سے انتہائی اہم 20 کلو میٹر طویل ''سلی گوری راہداری'' (جسے چکنز نیک کوریڈور بھی کہا جاتا ہے) تک رسائی مل جائے گی۔ یہ راہداری شمال مشرق میں آسام، میگھالیا، بوڈولینڈ، ناگالینڈ، تری پورا، منی پور اور میزورام کو بھارت سے جوڑتی ہے اور بھارت کے خدشات ہیں کہ چین اس رہداری پر کنٹرول حاصل کرکے کسی بھی وقت ان ریاستوں سے اس کا رابطہ کاٹ سکتا ہے۔

چائنا ویسٹ نارمل یونیورسٹی میں قائم سینٹر فار انڈین اسٹڈیز کے ڈائریکٹر لونگ ژنگچن نے اپنے ایک مضمون میں آیندہ صورت حال کا تناظر بیان کرتے ہوئے لکھا ''اگر بھوٹان نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھارت سے درخواست کی تھی تو اس صورت میں بھی بھارت صرف اس کی تسلیم شدہ حدود میں رہنے کا پابند ہے۔ مدد کا یہ دائرہ متنازعہ سرحدوں تک نہیں پھیلایا جاسکتا۔ بھارت کی اس منطق کے مطابق تو متنازعہ علاقے کشمیر میں داخلے کے لیے پاکستان کو بھی کسی تیسرے ملک سے مدد طلب کرنے کا پورا حق ملنا چاہیے۔''

چونکہ چینی حکومت کی رضامندی یا مشاورت کے بغیر ہی ''مکموہن لائن'' کھینچ دی گئی،چنانچہ یہ برطانوی نوآبادیاتی حکام اور تبتیوں کا یک طرفہ فیصلہ ہے اور اس کی حیثیت خیالی لکیر سے زیادہ کچھ نہیں۔نیوائل میکسویل نے "This is India's China War - Round Two"کے زیر عنوان لکھا''بجائے اس کے کہ بھارت لائن آف ایکچوئل کنٹرول(ایل اے سی) کو وقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہونے دیتا،اس نے متنازعہ سرحدی علاقے میں اروناچل پردیش ریاست پر اپنا جھوٹا دعویٰ تسلیم کرانے کے لیے دلائی لاما جیسی کٹھ پتلیوں اور دریدہ دہن امریکی سفارت کاروں کا سہارا لے کر چین کو انگیخت کیا۔

بھارت مکموہن لائن کو ایک متنازعہ معاہدے کے بجائے مستقل سرحد کے طور پر تسلیم کرانے کے لیے سر توڑ کوشش کرتا رہا۔ ''مکموہن لائن'' برطانوی سفارت کاروں کی جعل سازی ہے۔ بھارت کے مؤقف سے نریندر مودی کی پالیسوں کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ وہ طے کرچکے ہیں کہ چین کے ساتھ ہمسائیگی نبھانے کے بجائے امریکا کا جارح اتحادی بن کر ہی بھارت کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔''

چینی فوج نے 1962میں بھارت کو شکست دے کر مختصر اور تیز ترین فوجی مہم کی مدد سے نارتھ ایسٹ فرنٹیئر ایجنسی (نیفا) اور لداخ کا کنٹرول حاصل کیا۔ اگر وہ پیش قدمی کرتے تو کلکتہ تک ان کا راستہ صاف تھا۔ جنوب میں دریا برہماپتر کے کنارے تیز پور تک جانے کے بجائے چین نے ازخود اپنی فوج کو واپس بلوا لیا۔ سیکڑوں غیر مسلح بھارتی فوجیوں نے برہما پتر سے 350کلومیٹر جنوب میں سلہٹ مشرقی پاکستان میں پناہ لی۔ اس وقت میری عمر 16برس تھی اور میں مُراری چند کالج سلہٹ کا طالب علم تھا، بھارتی فوجیوں کے لیے ایسٹ پاکستان رائفلز کی جانب سے لگائے کیمپ اپنی آنکھوں سے دیکھے۔

دسمبر 1961میں پرتگالیوں سے گووا کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی کارروائی(آپریشن وجے) میں کامیابی کے بعد بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کو یہ زعم ہو چلا تھاکہ جارحانہ انداز میں آگے بڑھنے سے مزید کامیابیاں ملیں گی، لیکن ان کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔

میڈیا کی جانب سے برپا شور شرابے میں نہرو نے بھارتی فوج کو لداخ سے نیفا تک پیش قدمی کرکے چینی رسد روکنے کے احکامات جاری کیے۔ نامکمل تیاری، ناقص جنگی مہارت اور فوجی دستوں کی امداد کی منصوبہ بندی کیے بغیر ہی بھارتی فوج کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں لداخ اور نیفا کے متنازعہ علاقوں پر قابض ہونے کے لیے روانہ کی گئیں۔ ناقص انٹیلی جنس اور خام منصوبہ بندی کے ساتھ نہرو کی پیش قدمی کی پالیسی پر عمل درآمد تو شروع ہوگیا لیکن چین کی جانب سے منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہونے والا غیر معمولی ردّعمل بھارتی قیادت کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔


بھارت کو جو ہزیمت اٹھانا پڑی اس میں وزیر دفاع کرشنا مینن اور سیاسی بنیادوں پر چیف آف جنرل اسٹاف بنائے جانے والے انتہائی ناموزوں افسر لیفٹیننٹ جنرل بی ایم کول کا کردار اہم تھا۔ کول نے انفنٹری میں کمیشن حاصل کیا، جلد ہی ان کا تبادلہ آرمی سپلائی کور میں کردیا گیا۔ اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے انفنٹری ڈویژن کے سپاہیوں سے راج مستری کا کام لینا ان کی وجۂ شہرت تھی۔

آسٹریلوی مصنف نیوائل میکسویل نے اپنی کتاب "India's China War" میں تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح بھارت نے چین کو اس جنگ میں دھکیلا۔ میکسویل نے اس جنگ میں چین کی جانب سے پہل کے بھارتی دعوے کو بھی مسترد کیا ہے۔اس تصنیف کا بنیادی ماخذ ایک انتہائی خفیہ ''ہینڈریسن بروکس رپورٹ'' ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ہنڈریسن بروکس اور بریگیڈیئر پرمندر سنگھ بھگت نے 1963میں تحقیق کرکے یہ رپورٹ مرتب کی۔ اس رپورٹ میں ناکام انٹیلی جینس اور کانگریسی حکومت کے غلط سیاسی اندازوں کو بھارتی فوج کی شکست کا سبب قرار دیا گیا۔ بھارتی حکومت نے ''نیشنل سیکیورٹی'' کی بنیاد پر آج تک ہنڈریسن بروکس رپورٹ عام نہیں کی۔ میکسویل کی کتاب میں لکھا سچ اس قدر ناگوار گزرا کہ ''جمہوری'' بھارت میں اس پر پابندی عاید کردی گئی۔

کول کا خیال تھا کہ اس مہم میں کام یابی کے لیے زیادہ محنت درکار نہیں ہوگی اسی لیے دوران جنگ اس نے چار کورز کی کمانڈ حاصل کی۔ ہنڈریسن رپورٹ میں بی ایم کول پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ بطور چیف آف جنرل اسٹاف حکومت کو ان کمزوریوں اور نااہلیوں سے آگاہ کرنے میں ناکام رہا جن کی موجودگی میں پیش قدمی کے منصوبے (فارورڈ پالیسی) پر عمل ناممکن تھا۔

رپورٹ میں کول کی ناقص جنگی صلاحیتوں اور محاذ پر ناتجربے کاری کی نشان دہی کی گئی، اور یہ بھی کہا گیا کہ اپنی اصل ذمے داریوں کے بجائے ڈپٹی سی جی ایس (میجر جنرل جے ایس ڈھلوں) اور ڈی ایم او(بریگیڈیئر مونٹی پالٹ) کو ساتھ ملا کر افسران کے اندر گروہ بندی کرنے پر ان کی توجہ مرکوز رہی۔ ایسے ناتجربے کار افسران محض اپنی عظمت منوانے کے لیے جنگی جنون میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اپنے زیر کمان سپاہیوں کو اس آگ میں جھونکتے ہوئے ان کا ضمیر بھی ملامت نہیں کرتا۔ پاکستان میں مال سمیٹنے والے اکثر جنرل، جنھوں نے کبھی میدان جنگ کا منہ تک نہیں دیکھا،اکثر بلند و بانگ دعویکرتے دکھائی دیتے ہیں۔

بھارت نے خود کو ''مظلوم'' بنا کر پیش کیا۔ 55برس پہلے امریکی تاڑ گئے کہ ''غیر اتحادی'' سمجھے جانے والے بھارت کو سوویت کیمپ سے دور لے جانے کا یہی موقعہ ہے۔کلکتہ میں فضائی راستے سے جنگی رسد فراہم کرنے کے لیے بھارت میں امریکی سفیر جون کینیتھ گالبریتھ نے صدر جان کینیڈی کو قائل کیا۔ تاہم امریکا نے بھارت کی جانب سے مطالبات کی فہرست میں شامل تین آبدوزیں دینے کی خواہش سے پہلو تہی کی، جو چین سے مقابلے کے لیے (ہمالیہ میں لڑنے کے لیے؟) مانگی جارہی تھیں۔

بنگلادیشیوں کو ژنگچن کا مضمون توجہ سے پڑھنا چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں''اس دراندازی نے بھارت کے ان خدشات کو عیاں کردیا کہ چین فوجی قوت کی مدد سے شمال مشرقی بھارتی علاقوں کو بھارت سے الگ کرکے دو حصوں میں تقسیم کرسکتا ہے۔ شمال مشرقی بھارت کے علاقوں کے لیے یہ آزاد ریاست کے قیام کا موقع بھی ثابت ہوسکتا ہے۔''

ہمارے دوراندیش رہبرِ قوم قائد اعظم 1946میں خاموشی کے ساتھ مشرق میں بنگال، آسام(شمال مشرقی ہندوستان) اور کلکتہ پر مشتمل ایک آزاد مسلم اکثریتی ریاست کے امکانات دریافت کرچکے تھے۔ برطانوی راج نے یہ امکانات ختم کرنے کے لیے کس طرح کانگریس کی مدد کی، یہ الگ قصہ ہے۔ اب بھی ایسوسی ایشن آف دی ایسٹرن اسٹیٹس آف ساؤتھ ایسٹ ایشیا(AESSA)کا تصور حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ اس کی تفصییل کے لیے راقم کا 26مارچ1990کو "Bangladesh and Lebensraum - The AESSA Concept" کے عنوان سے شایع ہونے والا مضمون دیکھا جاسکتا ہے۔ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن روات کہتے ہیںکہ بھارت ''ڈھائی'' محاذوں پر بیک وقت جنگ لڑ اور جیت سکتا ہے۔ اس بیان سے ہنڈیرسن بروکس رپورٹ میں مینن اور کول کے بیان کردہ جارحانہ رویے کی یاد تازہ ہوتی ہے۔

چینی وزارت دفاع کے ترجمان وو ژیان کا بیان قابل غور ہے جس میں انھوں نے بھارت کو غیر مشروط طور پر پسپا ہونے کے لیے کہا۔ چین نے واضح کردیا کہ بھارت خواب و خیال میں نہ رہے،سرحدوں کی خلاف ورزی یا مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ کیا مودی اور ''ڈھائی محاذ'' والے جنرل روات اب بھی آمادہ جنگ رہیں گے یا توپیں خاموش ہوجائیں گی؟

(فاضل مصنف دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)
Load Next Story