62ء کی چنگاریاں پھر سلگنے لگیں چین اور بھارت پھر آمنے سامنے
چینی علاقے میں بھارتی فوج کی بے سوچی سمجھی جارحیت دیوہیکل پڑسیوں کے مابین وجہ تنازع بن گئی، حقیقی رپورٹ
یہ اوائل جون کی بات ہے، حکومت بھوٹان کو معلوم ہوا کہ چینی فوج کے انجینئر وادی چمبی میں واقع ڈوکلام سطح مرتفع پر ایک سڑک تعمیر کررہے ہیں۔ اس سڑک کا رخ علاقہ بھوٹان کی سمت تھا۔ بھوٹانی حکومت نے چینی فوجی انجینئروں کا کام روکنے کی خاطر اپنی فورس بھجوائی مگر انہوں نے کام جاری رکھا۔ اس پر بھوٹانی حکومت نے بھارت سے درخواست کی کہ وہ اپنے فوجی بھجوا کر چینی انجینئروں کو کام کرنے سے روک دے۔ 19 جون کو بھارتی فوج کا ایک دستہ ڈوکلام میں داخل ہوگیا۔ اس نے زبردستی چینی انجینئروں کو کام کرنے سے روک دیا۔
چین کی فوج اور حکومت، دونوں نے علاقے میں اپنے انجینئروں کی سرگرمی روک دی، تاہم کام میں دخل اندازی کرنے پر بھارت سے شدید احتجاج کیا۔وجہ یہ کہ چین علاقہ ڈوکلام کو اپنی مملکت کا حصّہ سمجھتا ہے۔لہذا اس نے بھارت کو جارح قرار دے دیا۔ جلد ہی دونوں ممالک کے مابین سڑک کی تعمیر کا بظاہر معمولی سا دکھائی دینے والا معاملہ اچھا خاصا تنازع بن گیا۔ بھارت اور چین کی حکومتیں ایک دوسرے پر زبانی کلامی حملے کرنے لگیں۔ ایک دن ایسا آیا کہ بھارتی وزرا کھلے عام چین کو اپنا دشمن قرار دینے لگے۔ گو اس معاملے پر دونوں ممالک کے مابین لڑائی خارج از امکان ہے مگر یہ معاملہ ان کے تعلقات کو اچھا خاصا کشیدہ ضرور کرگیا حتیٰ کہ چینی صدر نے وزیراعظم مودی سے ایک طے شدہ ملاقات منسوخ کر ڈالی۔
٭٭
وادی چمبی تبت میں دس ہزار فٹ پر واقع پہاڑی علاقہ ہے۔ اسی علاقے میں سکم(بھارت)، چین اور بھوٹان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ وادی میں چین اور بھارت کو ملانے والے دو درے واقع ہیں، یعنی درہ نتھولال اور درہ جیلپ لایا لیکن یادونگ وادی کا سب سے بڑا قصبہ ہے جہاں تک چینی فوجی انجینئر شاہراہ تعمیر کرچکے۔
بھوٹان اور چین کی سرحد 470 کلو میٹر طویل ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ 269 مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلی ڈوکلام سطح مرتفع چینی علاقہ ہے۔ مگر بھوٹان یہ دعویٰ تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ اس مسئلے پر طویل عرصے سے دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی چلی آرہی ہے۔
بھوٹان دشوار گزار پہاڑی راستوں کی وجہ سے تقریباً ناقابل رسائی رہا ہے۔ یہاں پہلے پہل علاقہ تبت سے آنے والے لوگ آباد ہوئے۔ یہی وجہ ہے، بھوٹان تبت سے قریبی تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی تعلقات رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ سترہویں صدی میں تبت کے ایک راہب، نگاوانگنم گیال نے بھوٹان میں پہلی متحدہ حکومت کی بنیاد رکھی۔ چونکہ نگاوانگنم تبت کے دلائی لاما کا دشمن تھا لہٰذا اس کے جانشینوں نے بھی رفتہ رفتہ تبتی حکمرانوں سے تعلقات توڑ لیے۔
انیسویں صدی میں بھوٹان ہندوستان میں برطانوی حکومت کی باج گزار مملکت بن گیا۔ یہی وجہ ہے، جب برطانوی برصغیر پاک و ہند سے رخصت ہوئے، تو بھارتی حکومت بھوٹان کے حکمرانوں کی سرپرست بن گئی۔ آج بھی بھوٹان اور چین کے مابین سفارتی تعلقات موجود نہیں۔ جب 1962ء میں چین بھارت جنگ ہوئی، تو بھارتی فوج بھوٹان کے علاقے میں آزادانہ گھومتی تھی۔
1959ء میں چین نے تبت کو اپنی مملکت میں شامل کرلیا۔ تبھی چین نے بھوٹان کو باور کرایا کہ علاقہ ڈوکلام تبت کا حصہ ہے۔ بھوٹانی حکومت نے یہ دعویٰ مسترد کردیا۔ لیکن تب سے چین میں شائع ہونے والے تمام نقشوں میں ڈوکلام کو چین کا حصہ دکھایا جاتا ہے۔
شروع میں بھوٹان نے سرحدی تنازع کا معاملہ بھارت کے سپرد کیے رکھا۔ 1984ء سے یہ معاملہ بھوٹانی حکومت نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا، تاہم وہ بھارت کے ساتھ صلاح مشورے کرتی رہی۔ 1988ء میں آخر طے پایا کہ چین اور بھوٹان مذاکرات کے ذریعے سرحدی تنازع حل کریں گے اور یہ کہ 'اسٹیٹس کو'' برقرار رکھا جائے۔ ان مذاکرات کی بنیاد پر 1998ء میں دونوں ملکوں کے مابین ایک باقاعدہ معاہدہ طے پاگیا۔ 1988ء سے لے کر اب تک سرحدی تنازع کے سلسلے میں بھارت اور چین کے درمیان پچیس مذاکراتی دور تکمیل پاچکے۔
بھارت کی تشویش کا راز
چین اور بھارت کے مابین بھی ایک گھمبیر سرحدی تنازع موجود ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ چین میں شامل علاقہ آکسائی چن ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے جبکہ چین کا کہنا ہے کہ بھارت نے زبردستی ریاست اروناچل پردیش پر قبضہ کررکھا ہے۔ یہ ریاست تہذیبی و ثقافتی لحاظ سے چین کا حصہ ہے۔ اس سرحدی تنازع پر دونوں ممالک کی 1962ء میں جنگ بھی ہوچکی۔
بھارت وادی چمبی میں چین کی فوج کی تعمیراتی و عسکری سرگرمیوں کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ کیوں کہ علاقہ بھارتی علاقے ''سیلگوری راہداری'' (Siliguri Corridor) کے بہت نزدیک واقع ہے جسے ''مرغی کی گردن'' (Chicken's Neck) بھی کہا جاتا ہے۔
سیلگوری راہداری انگریزوں کی تخلیق ہے۔ 1947ء میں برصغیر سے رخصت ہوتے انگریز آقاؤں نے یہ راہداری بنائی تاکہ بھارت کے مرکزی حصے کا شمال مشرقی آٹھ بھارتی ریاستوں (اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالایہ، میزورام، ناگالینڈ اور تری پورہ) سے جغرافیائی رابطہ بحال رہ سکے۔ اس علاقے میں گورکھا (نیپالی باشندے) عیسائی اور مسلمان آباد تھے۔ہندو اکثریت نہیں رکھتے تھے۔ مگر بھارتی ہندو حکومت سے قربت رکھنے والے بظاہر انصاف پسند انگریزوں نے ناانصافی کرتے ہوئے یہ علاقہ بھارت کے حوالے کردیا۔
1962ء میں جب چین اور بھارت کی جنگ ہوئی، تو بھارتی حکمرانوں کو احساس ہوا کہ چینی فوج سیلگوری راہداری پر قبضہ کرکے بھارت کو شمالی مشرقی بھارتی ریاستوں سے باآسانی کاٹ سکتی ہے۔ اس امر نے بھارتی حکمرانوں کو متوحش کردیا۔ چناں چہ وہ وادی چمبی میں ہر چینی سرگرمی کو تشویش کی نظروں سے دیکھنے لگے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ چین ڈوکلام سطح مرتفع اس لیے حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں عسکری تنصیبات قائم کرسکے۔ اس الزام میں کچھ حد تک حقیقت بھی ہے۔ دراصل وادی چمبی میں پہاڑوں کی اکثریت ہے۔لہٰذا وہاں قدرتی راہیں بہت کم ہے۔ پہاڑوں کی کثرت کے باعث انہیں توڑ توڑ کر سڑکیں بنانا بھی بڑا کٹھن مرحلہ ہے۔
وادی چمبی میں چین نے یادونگ تک جو شاہراہ تعمیر کی ہے، اس کے اردگرد کھلا علاقہ بہت محدود ہے۔ صرف ڈوکلام سطح مرتفع میں اچھا خاصا میدانی علاقہ وجود میں آتا ہے۔ اگر یہ علاقہ چین کو حاصل ہوجائے، تو چینی وہاں ہر قسم کی تعمیرات انجام دے سکتے ہیں۔ چونکہ یہ علاقہ تزویراتی لحاظ سے نہایت اہم ہے لہٰذا لازماً ان میں عسکری تعمیرات بھی شامل ہوگی۔
چین چونکہ علاقہ ڈوکلام کو اپنی مملکت کا حصہ سمجھتا ہے لہٰذا وہ یہ سطور قلم بند ہونے تک بھارت کو ''حملہ آور'' قرار دیتے ہوئے سخت احتجاج کررہا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اسے علاقے میں سڑکیں اور عمارتیں تعمیر کرنے کا حق حاصل ہے جبکہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ ڈوکلام مملکت بھوٹان میں شامل ہے۔ یہ تنازع برقرار رہا، تو علاقے میں بھارتی اور چینی فوج میں نفری بڑھ سکتی ہے۔ تاحال دونوں ممالک وادی چمبی میں مزید فوجی دستے بھجوا چکے ہیں۔ چین کی فوج نے تو تبت میں فوجی مشقیں بھی کی ہیں۔
عسکری طاقت کا موازانہ
بھارتی فوج چھ عسکری خطوں یا کمانڈز میں تقسیم ہے۔ مغربی بنگال مشرقی کمانڈ میں آتا ہے۔ یہ کمانڈ چار کور پر مشتمل ہے جو بارہ ڈویژن فوج رکھتی ہیں ۔ ان میں نو ڈویژن تو ماؤنٹین اور تین انفنٹری ہیں۔ بھارت نے حال ہی میں مشرقی کمانڈ میں تین ماؤنٹین ڈویژن کھڑے کیے ہیں تاکہ علاقے کا دفاع مضبوط بنایا جاسکے۔
چین کی فوج بھی پانچ تھیٹر کمانڈز میں منقسم ہے۔ مغربی بنگال کے بالمقابل اس کی مغربی یا ویسٹرن کمانڈ واقع ہے۔ یہ چینی فوج کی بہ لحاظ رقبہ سب سے بڑی کمانڈ ہے۔ یہ سات ریاستوں (یا صوبوں) کے دفاع پر مامور ہے۔
چینی فوج کی ویسٹرن کمانڈ ماؤنٹین انفنٹری، مکینائزڈ انفنٹری، موٹرائزڈ انفنٹری، آرٹلری، آرمی ایوی ایشن اور ایئر ڈیفنس کے ڈویژن اور بریگیڈ رکھتی ہے۔ بہ لحاظ نفری یہ چینی مغربی کمانڈ بھارت کی مشرقی کمانڈ سے زیادہ بڑی ہے۔
خاص بات یہ کہ اس علاقے میں چینی فضائیہ مدمقابل بھارتی فضائیہ سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ بھارتی فضائیہ بھی سات کمانڈز میں منقسم ہے۔ مشرقی بھارت کا دفاع کرنے کی ذمے داری ایسٹرن ایئر کمانڈ کے پاس ہے۔ مگر یہ کمانڈ صرف دو سکواڈرن رکھتی ہے جن کے پاس اڑانے کی خاطر فرسودہ مگ 27 موجود ہیں۔
چین کی فضائیہ بھی جغرافیائی طور پر چھ کمانڈز میں تقسیم ہے۔ تبت اور ملحقہ ریاستوں کے دفاع کی ذمے دار ویسٹرن تھیٹر کمانڈ ہے۔ یہ کمانڈ فائٹر طیاروں کے تین ڈویژن اور بمبار طیاروں کا ایک ڈویژن رکھتی ہے۔ ایک ڈویژن میں 70 سے 120 طیارے جبکہ ایک اسکواڈرن میں 12 سے 24 طیارے شامل ہوتے ہیں۔ چین کی ویسٹرن تھیٹر کمانڈ کے ڈویژن سخوئی ایس یو۔27، جے 7 اور جے 6 لڑاکا طیاروں پر مشتمل ہے۔
ویسٹرن تھیٹر کمانڈ میں فضائی برتری قائم رکھنا چین کی ضرورت ہے۔ وجہ یہ کہ جابجا پھیلے پہاڑی راستوں کی وجہ سے علاقے میں بری فوج کے نقل و حرکت بہت مسدود ہے جبکہ لڑاکا اور بمبار طیاروں کی مدد سے، دشمن پر کاری وار کیا جاسکتا ہے۔
بھارت نے اپنی ایسٹرن کمانڈ میں شامل بارہ ڈویژن فوج میں سے بیشتر سیلگوری راہداری کے آس پاس تعینات کررکھے ہیں۔ یہ عسکری حکمت عملی واضح کرتی ہے کہ بھارتی حکمرانوں کو شدید خطرہ ہے کہ مستقبل کی کسی بھی جنگ میں چینی فوج سب سے پہلے سیلگوری راہداری پر قبضہ کرنے کی سعی کرے گی۔ یوں وہ مشرقی بھارتی ریاستوں کو بقیہ بھارت سے کاٹ ڈالے گی۔تب مشرقی ریاستوں میں تعینات بڑی سے بڑی بھارتی فوج کو بھی شکست دینا آسان رہے گا۔ وجہ یہی کہ سپلائی لائنیں کٹنے سے وہ زیادہ دیر مقابلہ نہیں کرپائے گی۔
بھارتی جارحیت کے بعد چینی فوج نے بھی سرزمین بھارت میں داخل ہوکر بھارتی فوج کے دو واچ ٹاور تباہ کردیئے تھے لیکن یہ سطور قلمبند ہونے تک چینی حکومت بہت ضبط سے کام لے رہی ہے۔ وجہ یہ کہ چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی بن چکا۔ چین نے پچھلے تیس پینتیس برس کے دوران دنیا کے سبھی ممالک سے محاذ آرائی نہ کرتے ہوئے ہی زبردست معاشی ترقی کی ہے۔ چین اب بھی اسی پالیسی پر کاربند رہنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے سا تھ ساتھ وہ مسلسل ضدی اور مغرور بھارتی حکمران طبقے کو باور کرارہا ہے کہ وہ قومی خودمختاری پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرے گا۔
چین مستقبل میں یادونگ تک ریل پٹڑی بچھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ خطے کے قدرتی وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھایا جائے۔ اگر وادی چمبی اور ڈوکلام میں بھارت نے چینی ترقی کا راستہ زبردستی روکنے کی کوششیں کیں، تو دونوں طاقتور پڑوسی ایک دوسرے سے بھڑ سکتے ہیں۔ اس صورت میں بھارت ہی گھاٹے میں رہے گا کیونکہ وہ دائیں اور بائیں... مضبوط حریفوں کے درمیان پس کر رہ جائے گا۔ بھارتی حکمران طبقے نے ہوش مندی سے کام نہ لیا، تو وہ دنیا کی ابھرتی سپرپاور کو اپنے مدمقابل پائے گا۔ امریکا کے شاطر حکمران یہی تو چاہتے ہیں کہ چین اور بھارت محاذ آرائی میں الجھ جائیں۔ یوں دونوں ملکوں کو معاشی، سیاسی اور معاشرتی سطح پر نقصان اٹھانا پڑے گا اور وہ آپس میں لڑ بھڑ کر کمزور ہو جائیں گے۔
پاکستان کے حق میں بھارتی غلطی
وطن عزیز کے نقطہ نظر سے بھوٹانی حکومت کی درخواست پر بھارتی فوج نے چین اور بھوٹان کے مابین تنازع بنے علاقے میں داخل ہوکر بڑی فاش غلطی کی ہے۔ یوں اس نے خطے میں دراندازی کرنے کی ایسی مثال قائم کردی جس پر دوسرے بھی عمل کرسکتے ہیں۔مثال کے طور پر چینی ماہرین عسکریات نے چینی میڈیا میں مضامین لکھے اور بحث و مباحثہ کرتے ہوئے یہ نکتہ اٹھایا کہ اگر مستقبل میں بھارتی فوج نے پاکستان خصوصاً آزاد کشمیر میں حملہ کیا، تو پاکستانی حکومت کی درخواست پر چینی فوج بھارتی حملے کو روکنے کے لیے پاکستان میں داخل ہوسکتی ہے۔ویسے بھی سی پیک کی تکمیل کے بعد آزاد کشمیر ہی نہیں پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی چینی تعمیرات موجود ہوں گی۔ لہٰذا تب بھارت کا پاکستان پر حملہ چین پر حملے کے مترادف سمجھا جاسکتا ہے۔
چین کی فوج اور حکومت، دونوں نے علاقے میں اپنے انجینئروں کی سرگرمی روک دی، تاہم کام میں دخل اندازی کرنے پر بھارت سے شدید احتجاج کیا۔وجہ یہ کہ چین علاقہ ڈوکلام کو اپنی مملکت کا حصّہ سمجھتا ہے۔لہذا اس نے بھارت کو جارح قرار دے دیا۔ جلد ہی دونوں ممالک کے مابین سڑک کی تعمیر کا بظاہر معمولی سا دکھائی دینے والا معاملہ اچھا خاصا تنازع بن گیا۔ بھارت اور چین کی حکومتیں ایک دوسرے پر زبانی کلامی حملے کرنے لگیں۔ ایک دن ایسا آیا کہ بھارتی وزرا کھلے عام چین کو اپنا دشمن قرار دینے لگے۔ گو اس معاملے پر دونوں ممالک کے مابین لڑائی خارج از امکان ہے مگر یہ معاملہ ان کے تعلقات کو اچھا خاصا کشیدہ ضرور کرگیا حتیٰ کہ چینی صدر نے وزیراعظم مودی سے ایک طے شدہ ملاقات منسوخ کر ڈالی۔
٭٭
وادی چمبی تبت میں دس ہزار فٹ پر واقع پہاڑی علاقہ ہے۔ اسی علاقے میں سکم(بھارت)، چین اور بھوٹان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ وادی میں چین اور بھارت کو ملانے والے دو درے واقع ہیں، یعنی درہ نتھولال اور درہ جیلپ لایا لیکن یادونگ وادی کا سب سے بڑا قصبہ ہے جہاں تک چینی فوجی انجینئر شاہراہ تعمیر کرچکے۔
بھوٹان اور چین کی سرحد 470 کلو میٹر طویل ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ 269 مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلی ڈوکلام سطح مرتفع چینی علاقہ ہے۔ مگر بھوٹان یہ دعویٰ تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ اس مسئلے پر طویل عرصے سے دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی چلی آرہی ہے۔
بھوٹان دشوار گزار پہاڑی راستوں کی وجہ سے تقریباً ناقابل رسائی رہا ہے۔ یہاں پہلے پہل علاقہ تبت سے آنے والے لوگ آباد ہوئے۔ یہی وجہ ہے، بھوٹان تبت سے قریبی تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی تعلقات رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ سترہویں صدی میں تبت کے ایک راہب، نگاوانگنم گیال نے بھوٹان میں پہلی متحدہ حکومت کی بنیاد رکھی۔ چونکہ نگاوانگنم تبت کے دلائی لاما کا دشمن تھا لہٰذا اس کے جانشینوں نے بھی رفتہ رفتہ تبتی حکمرانوں سے تعلقات توڑ لیے۔
انیسویں صدی میں بھوٹان ہندوستان میں برطانوی حکومت کی باج گزار مملکت بن گیا۔ یہی وجہ ہے، جب برطانوی برصغیر پاک و ہند سے رخصت ہوئے، تو بھارتی حکومت بھوٹان کے حکمرانوں کی سرپرست بن گئی۔ آج بھی بھوٹان اور چین کے مابین سفارتی تعلقات موجود نہیں۔ جب 1962ء میں چین بھارت جنگ ہوئی، تو بھارتی فوج بھوٹان کے علاقے میں آزادانہ گھومتی تھی۔
1959ء میں چین نے تبت کو اپنی مملکت میں شامل کرلیا۔ تبھی چین نے بھوٹان کو باور کرایا کہ علاقہ ڈوکلام تبت کا حصہ ہے۔ بھوٹانی حکومت نے یہ دعویٰ مسترد کردیا۔ لیکن تب سے چین میں شائع ہونے والے تمام نقشوں میں ڈوکلام کو چین کا حصہ دکھایا جاتا ہے۔
شروع میں بھوٹان نے سرحدی تنازع کا معاملہ بھارت کے سپرد کیے رکھا۔ 1984ء سے یہ معاملہ بھوٹانی حکومت نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا، تاہم وہ بھارت کے ساتھ صلاح مشورے کرتی رہی۔ 1988ء میں آخر طے پایا کہ چین اور بھوٹان مذاکرات کے ذریعے سرحدی تنازع حل کریں گے اور یہ کہ 'اسٹیٹس کو'' برقرار رکھا جائے۔ ان مذاکرات کی بنیاد پر 1998ء میں دونوں ملکوں کے مابین ایک باقاعدہ معاہدہ طے پاگیا۔ 1988ء سے لے کر اب تک سرحدی تنازع کے سلسلے میں بھارت اور چین کے درمیان پچیس مذاکراتی دور تکمیل پاچکے۔
بھارت کی تشویش کا راز
چین اور بھارت کے مابین بھی ایک گھمبیر سرحدی تنازع موجود ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ چین میں شامل علاقہ آکسائی چن ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے جبکہ چین کا کہنا ہے کہ بھارت نے زبردستی ریاست اروناچل پردیش پر قبضہ کررکھا ہے۔ یہ ریاست تہذیبی و ثقافتی لحاظ سے چین کا حصہ ہے۔ اس سرحدی تنازع پر دونوں ممالک کی 1962ء میں جنگ بھی ہوچکی۔
بھارت وادی چمبی میں چین کی فوج کی تعمیراتی و عسکری سرگرمیوں کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ کیوں کہ علاقہ بھارتی علاقے ''سیلگوری راہداری'' (Siliguri Corridor) کے بہت نزدیک واقع ہے جسے ''مرغی کی گردن'' (Chicken's Neck) بھی کہا جاتا ہے۔
سیلگوری راہداری انگریزوں کی تخلیق ہے۔ 1947ء میں برصغیر سے رخصت ہوتے انگریز آقاؤں نے یہ راہداری بنائی تاکہ بھارت کے مرکزی حصے کا شمال مشرقی آٹھ بھارتی ریاستوں (اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالایہ، میزورام، ناگالینڈ اور تری پورہ) سے جغرافیائی رابطہ بحال رہ سکے۔ اس علاقے میں گورکھا (نیپالی باشندے) عیسائی اور مسلمان آباد تھے۔ہندو اکثریت نہیں رکھتے تھے۔ مگر بھارتی ہندو حکومت سے قربت رکھنے والے بظاہر انصاف پسند انگریزوں نے ناانصافی کرتے ہوئے یہ علاقہ بھارت کے حوالے کردیا۔
1962ء میں جب چین اور بھارت کی جنگ ہوئی، تو بھارتی حکمرانوں کو احساس ہوا کہ چینی فوج سیلگوری راہداری پر قبضہ کرکے بھارت کو شمالی مشرقی بھارتی ریاستوں سے باآسانی کاٹ سکتی ہے۔ اس امر نے بھارتی حکمرانوں کو متوحش کردیا۔ چناں چہ وہ وادی چمبی میں ہر چینی سرگرمی کو تشویش کی نظروں سے دیکھنے لگے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ چین ڈوکلام سطح مرتفع اس لیے حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں عسکری تنصیبات قائم کرسکے۔ اس الزام میں کچھ حد تک حقیقت بھی ہے۔ دراصل وادی چمبی میں پہاڑوں کی اکثریت ہے۔لہٰذا وہاں قدرتی راہیں بہت کم ہے۔ پہاڑوں کی کثرت کے باعث انہیں توڑ توڑ کر سڑکیں بنانا بھی بڑا کٹھن مرحلہ ہے۔
وادی چمبی میں چین نے یادونگ تک جو شاہراہ تعمیر کی ہے، اس کے اردگرد کھلا علاقہ بہت محدود ہے۔ صرف ڈوکلام سطح مرتفع میں اچھا خاصا میدانی علاقہ وجود میں آتا ہے۔ اگر یہ علاقہ چین کو حاصل ہوجائے، تو چینی وہاں ہر قسم کی تعمیرات انجام دے سکتے ہیں۔ چونکہ یہ علاقہ تزویراتی لحاظ سے نہایت اہم ہے لہٰذا لازماً ان میں عسکری تعمیرات بھی شامل ہوگی۔
چین چونکہ علاقہ ڈوکلام کو اپنی مملکت کا حصہ سمجھتا ہے لہٰذا وہ یہ سطور قلم بند ہونے تک بھارت کو ''حملہ آور'' قرار دیتے ہوئے سخت احتجاج کررہا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اسے علاقے میں سڑکیں اور عمارتیں تعمیر کرنے کا حق حاصل ہے جبکہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ ڈوکلام مملکت بھوٹان میں شامل ہے۔ یہ تنازع برقرار رہا، تو علاقے میں بھارتی اور چینی فوج میں نفری بڑھ سکتی ہے۔ تاحال دونوں ممالک وادی چمبی میں مزید فوجی دستے بھجوا چکے ہیں۔ چین کی فوج نے تو تبت میں فوجی مشقیں بھی کی ہیں۔
عسکری طاقت کا موازانہ
بھارتی فوج چھ عسکری خطوں یا کمانڈز میں تقسیم ہے۔ مغربی بنگال مشرقی کمانڈ میں آتا ہے۔ یہ کمانڈ چار کور پر مشتمل ہے جو بارہ ڈویژن فوج رکھتی ہیں ۔ ان میں نو ڈویژن تو ماؤنٹین اور تین انفنٹری ہیں۔ بھارت نے حال ہی میں مشرقی کمانڈ میں تین ماؤنٹین ڈویژن کھڑے کیے ہیں تاکہ علاقے کا دفاع مضبوط بنایا جاسکے۔
چین کی فوج بھی پانچ تھیٹر کمانڈز میں منقسم ہے۔ مغربی بنگال کے بالمقابل اس کی مغربی یا ویسٹرن کمانڈ واقع ہے۔ یہ چینی فوج کی بہ لحاظ رقبہ سب سے بڑی کمانڈ ہے۔ یہ سات ریاستوں (یا صوبوں) کے دفاع پر مامور ہے۔
چینی فوج کی ویسٹرن کمانڈ ماؤنٹین انفنٹری، مکینائزڈ انفنٹری، موٹرائزڈ انفنٹری، آرٹلری، آرمی ایوی ایشن اور ایئر ڈیفنس کے ڈویژن اور بریگیڈ رکھتی ہے۔ بہ لحاظ نفری یہ چینی مغربی کمانڈ بھارت کی مشرقی کمانڈ سے زیادہ بڑی ہے۔
خاص بات یہ کہ اس علاقے میں چینی فضائیہ مدمقابل بھارتی فضائیہ سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ بھارتی فضائیہ بھی سات کمانڈز میں منقسم ہے۔ مشرقی بھارت کا دفاع کرنے کی ذمے داری ایسٹرن ایئر کمانڈ کے پاس ہے۔ مگر یہ کمانڈ صرف دو سکواڈرن رکھتی ہے جن کے پاس اڑانے کی خاطر فرسودہ مگ 27 موجود ہیں۔
چین کی فضائیہ بھی جغرافیائی طور پر چھ کمانڈز میں تقسیم ہے۔ تبت اور ملحقہ ریاستوں کے دفاع کی ذمے دار ویسٹرن تھیٹر کمانڈ ہے۔ یہ کمانڈ فائٹر طیاروں کے تین ڈویژن اور بمبار طیاروں کا ایک ڈویژن رکھتی ہے۔ ایک ڈویژن میں 70 سے 120 طیارے جبکہ ایک اسکواڈرن میں 12 سے 24 طیارے شامل ہوتے ہیں۔ چین کی ویسٹرن تھیٹر کمانڈ کے ڈویژن سخوئی ایس یو۔27، جے 7 اور جے 6 لڑاکا طیاروں پر مشتمل ہے۔
ویسٹرن تھیٹر کمانڈ میں فضائی برتری قائم رکھنا چین کی ضرورت ہے۔ وجہ یہ کہ جابجا پھیلے پہاڑی راستوں کی وجہ سے علاقے میں بری فوج کے نقل و حرکت بہت مسدود ہے جبکہ لڑاکا اور بمبار طیاروں کی مدد سے، دشمن پر کاری وار کیا جاسکتا ہے۔
بھارت نے اپنی ایسٹرن کمانڈ میں شامل بارہ ڈویژن فوج میں سے بیشتر سیلگوری راہداری کے آس پاس تعینات کررکھے ہیں۔ یہ عسکری حکمت عملی واضح کرتی ہے کہ بھارتی حکمرانوں کو شدید خطرہ ہے کہ مستقبل کی کسی بھی جنگ میں چینی فوج سب سے پہلے سیلگوری راہداری پر قبضہ کرنے کی سعی کرے گی۔ یوں وہ مشرقی بھارتی ریاستوں کو بقیہ بھارت سے کاٹ ڈالے گی۔تب مشرقی ریاستوں میں تعینات بڑی سے بڑی بھارتی فوج کو بھی شکست دینا آسان رہے گا۔ وجہ یہی کہ سپلائی لائنیں کٹنے سے وہ زیادہ دیر مقابلہ نہیں کرپائے گی۔
بھارتی جارحیت کے بعد چینی فوج نے بھی سرزمین بھارت میں داخل ہوکر بھارتی فوج کے دو واچ ٹاور تباہ کردیئے تھے لیکن یہ سطور قلمبند ہونے تک چینی حکومت بہت ضبط سے کام لے رہی ہے۔ وجہ یہ کہ چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی بن چکا۔ چین نے پچھلے تیس پینتیس برس کے دوران دنیا کے سبھی ممالک سے محاذ آرائی نہ کرتے ہوئے ہی زبردست معاشی ترقی کی ہے۔ چین اب بھی اسی پالیسی پر کاربند رہنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے سا تھ ساتھ وہ مسلسل ضدی اور مغرور بھارتی حکمران طبقے کو باور کرارہا ہے کہ وہ قومی خودمختاری پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرے گا۔
چین مستقبل میں یادونگ تک ریل پٹڑی بچھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ خطے کے قدرتی وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھایا جائے۔ اگر وادی چمبی اور ڈوکلام میں بھارت نے چینی ترقی کا راستہ زبردستی روکنے کی کوششیں کیں، تو دونوں طاقتور پڑوسی ایک دوسرے سے بھڑ سکتے ہیں۔ اس صورت میں بھارت ہی گھاٹے میں رہے گا کیونکہ وہ دائیں اور بائیں... مضبوط حریفوں کے درمیان پس کر رہ جائے گا۔ بھارتی حکمران طبقے نے ہوش مندی سے کام نہ لیا، تو وہ دنیا کی ابھرتی سپرپاور کو اپنے مدمقابل پائے گا۔ امریکا کے شاطر حکمران یہی تو چاہتے ہیں کہ چین اور بھارت محاذ آرائی میں الجھ جائیں۔ یوں دونوں ملکوں کو معاشی، سیاسی اور معاشرتی سطح پر نقصان اٹھانا پڑے گا اور وہ آپس میں لڑ بھڑ کر کمزور ہو جائیں گے۔
پاکستان کے حق میں بھارتی غلطی
وطن عزیز کے نقطہ نظر سے بھوٹانی حکومت کی درخواست پر بھارتی فوج نے چین اور بھوٹان کے مابین تنازع بنے علاقے میں داخل ہوکر بڑی فاش غلطی کی ہے۔ یوں اس نے خطے میں دراندازی کرنے کی ایسی مثال قائم کردی جس پر دوسرے بھی عمل کرسکتے ہیں۔مثال کے طور پر چینی ماہرین عسکریات نے چینی میڈیا میں مضامین لکھے اور بحث و مباحثہ کرتے ہوئے یہ نکتہ اٹھایا کہ اگر مستقبل میں بھارتی فوج نے پاکستان خصوصاً آزاد کشمیر میں حملہ کیا، تو پاکستانی حکومت کی درخواست پر چینی فوج بھارتی حملے کو روکنے کے لیے پاکستان میں داخل ہوسکتی ہے۔ویسے بھی سی پیک کی تکمیل کے بعد آزاد کشمیر ہی نہیں پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی چینی تعمیرات موجود ہوں گی۔ لہٰذا تب بھارت کا پاکستان پر حملہ چین پر حملے کے مترادف سمجھا جاسکتا ہے۔