NO کو خیر باد کہہ دیجیے

ہم مستقل اپنا نقصان کرتے رہتے ہیں۔ جو باتیں ہمارے فائدے کی ہوتی ہیں، اُن سے دور بھاگتے رہتے ہیں۔

زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ہمیں اپنے ہاتھوں سے اپنی انا کے بُت توڑنا ہوں گے۔ فوٹو : فائل

LONDON:
سیانے کہہ گئے ہیں، کِسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے ہر ہر پہلو سے سو سو بار سوچنا چاہیے، مگر ایک بار کام شروع کرنے کے بعد اُسے پایۂ تکمیل تک پہنچائے بِنا نہیں رُکنا چاہیے۔ کِسی بھی مضمون کو شروع کرنے سے پہلے، میرے ساتھ بھی اسِی طرح کا مسئلہ رہتا ہے۔

نئے مضمون کا موضوع ڈھونڈنے کے لیے اِردگرد پھیلی کہانیوں اور کہانیوں کے بوجھ تلے دبے چہروں کی تلاش میں کافی وقت گزرتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی وقت میں کئی موضوع، کئی کہانیاں، کئی چہرے ذہن میں طلوع ہونے لگتے ہیں اور انتخاب مشکل ہوجاتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ سوچے سمجھے بِنا کِسی نئے خیال یا کِسی نئے قلم یا پیڈ کی لالچ نے لکھنا شروع کروادیا ہے، مگر تحریر ادھوری رہی اور خیال، قلم اور پیڈ اِدھر اُدھر ہوگیا۔ کئی مہینوں کئی سالوں بعد جب وہ تحریر دوبارہ نظر کے سامنے آتی ہے تو کہانی پُرانی ہوچکی ہوتی ہے۔

کِردار، چہروں کی بھیٹر میں گُم ہوچکے ہوتے ہیں۔ اُس وقت جِس جذبے، جِس خیال نے لِکھنے پر اُکسایا تھا، اُس کی حدّت ماند پڑچکی ہوتی ہے۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ ادھ لکھی تحریر میں کِس بات کا گوند لگا کر بات آگے بڑھائی جائے اور کہانی کو خوب صورت موڑ پر لایا جائے۔

پُرانے برتنوں پر قلعی کرکے ہم اُنہیں چمکا تو دیتے ہیں مگر نیا نہیں بنا سکتے۔ زندگی کے سفر میں جو لوگ ہمارے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں، اُن کی کہانیاں، اُن کی باتیں ہمارے ذہن میں تازہ ہوتی ہیں، مگر پانچ، دس، بیس سال پہلے جو ہمارے ساتھ شریک سفر تھے، اُن کے چہروں کے خدوخال بھی ہماری یادداشت سے محو ہوجاتے ہیں۔ ادھوری تحریریں بھی، گزرے دِنوں کے ہم سفروں کی طرح ہوتی ہیں۔ جھاڑجھنکاڑ کر اُن پر چڑھا گردوغبار اتارنا پڑتا ہے۔ پُرانے خیال، پُرانی نیّت، پُرانی کہانی میں نئے وقت اور نئے حالات کا ٹانکا لگانا پڑتا ہے اور تحریر کے سفر کو آگے بڑھانا پڑتا ہے۔

خوش قسمتی سے نہ اِنسان کبھی پُرانا ہوپاتا ہے اور نہ اُس کی کہانیاں۔ ہر دور کے انسان اور اُن کی کہانیاں، اگلے زمانے کے لوگوں کے کام ہی آتی ہیں۔ کِسی نہ کِسی صورت، کہیں نہ کہیں کام آجاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی شازیہ اور نازیہ کی بھی ہے۔ دو بہنیں جو چند سال پہلے تک، کئی سال تک شامل سفر تھیں۔ اور اب کئی سال سے عِلم نہیں کہ کہاں ہیں۔ کیسی ہیں۔ کیا کر رہی ہیں۔ اُن کی زندگی کی کہانی کِس منزل تک پہنچی۔ اتنے سالوں میں کیا موڑ آئے، کہ اب اُن سے کئی سال سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔

شازیہ کو موروثی ڈپریشن اور موڈ ڈس آرڈر کا مرض لاحق تھا۔ میرے پاس آنے سے پہلے وہ کئی سال تک کئی سائیکاٹرسٹس کے زیرِعلاج رہی تھی، مگر علامتوں سے مکمل چھٹکارا حاصل نہیں کرپائی تھی۔ پھر چھے سال تک دوائیاں چلتی رہیں اور اُس کی Ego میں سوراخ کرتے رہنے کی مہم بھی جاری رہی۔ نازیہ اُس سے 12 - 14 سال چھوٹی تھی اور سائیکالوجی میں ماسٹرز کر رہی تھی اُن دِنوں یونیورسٹی میں۔ چھے سال میں چار چھے دفع شازیہ کی دوائیاں کم بھی ہوئیں۔

دو چار دفع اُس نے خود سے دوا چھوڑ بھی دی۔ مگر ہر بار اُس کی انا کے غبارے میں ہوا بھرتی اور وہ پھر سے خوابوں کی دنیا میں چلی جاتی اور بیمار پڑجاتی۔ مسئلہ اگر موروثی ہو اور بیمار کی علامات لمبی مدّت سے موجود رہیں تو بیماری پل جاتی ہے اور اگر اِن دونوں کے ساتھ انا، ضِد اور خودسری بھی شخصیت کا حصّہ ہوں تو بیماری کِسی نہ کِسی شکل میں موجود رہتی ہے اور شکلیں بدل بدل کر تنگ کرتی رہتی ہے۔ شازیہ کے مسئلے میں بھی اِن سب عوامل کا ہاتھ تھا۔ ''مجھ سے نہیں ہوتا یہ سب۔'' ہر بات ہر مشورے ہر ہدایت کے جواب میں وہ یہ ہی کہتی۔ کتابیں پڑھنے کا شوق اُسے شروع سے تھا۔

میں بھی اُسے ایک کے بعد ایک کتاب پڑھنے کا مشورہ دیتا اور جب یہ کہتا کہ پڑھ کر آپ اُس کتاب کی سمری لکھیں گی اور اگلی بار ساتھ لائیں گی تو اُس کے چہرے پر ''نہیں'' کا نیون سائن جل جاتا۔ روزانہ واک کا کہتا تو No ہوجاتی۔ برتن دھونے، جھاڑو دینے کی بات کرتا تو کہتی ''لو! اتنا پڑھ لکھ کر بھی یہ کام کروں گی کیا اب۔'' تھک ہار کر جب جاب کا کہا جاتا کہ کم ازکم خود کو مصروف کرنے کے لیے کِسی اسکول میں ہی جاب کرلو، تو پھر ناگواری کے تاثر نمودار ہوجاتے، ''بچّے مجھ سے نہیں برداشت ہوتے۔'' غرض یہ کہ کِسی بھی مشورے پر اُس کا پہلا جواب عموماً ''میں نہیں کرسکتی''،''مجھ سے نہیں ہوسکتا''، ''مجھے نہیں پسند''، ''ناممکن ہے''،''سوال ہی نہیں پیدا ہوتا''، ''میرا مزاج ہی نہیں ہے''،''یہ بھی کوئی کرنے کا کام ہے'' یہ یا اِسی طرح کے جملوں پر مبنی ہوتا۔

اس کی والدہ بھی اُس کی سُستی، کاہلی اور کچھ نہ کرنے کی عادت سے عاجز تھیں۔ جب وہ ساتھ آتیں تو وہ بھی یہی سب بتاتیں کہ یہ گھر پر کچھ نہیں کرتی اور کسی کی نہ سُنتی ہے نہ مانتی ہے۔ اپنی مرضی ہوتی ہے تو دُھلے ہوئے برتن دوبارہ دھونے بیٹھ جاتی ہے اور مرضی نہیں ہوتی تو بستر ہی نہیں چھوڑتی۔ نازیہ چوںکہ نئی نئی سائیکولوجی پڑھ رہی تھی تو وہ بھی اکثر شریک گفتگو رہتی اور شازیہ بے چاری ہم تینوں کی باتوں کے بیچ میں گھر جاتی۔ پھر اُسے اپنے مزاج کے خلاف کئی باتوں پر ہاں بھی کرنا پڑتی۔ یہ اور بات ہے کہ گھر پر وہ کوشش کے باوجود اُن باتوں پوری طرح عمل نہیں کرپاتی۔


جو باتیں ہمارے مزاج، ہماری فطرت اور ہماری سوچ سے لگا نہیں کھاتیںMatch نہیں کرپاتیں، ہم بار بار کی کوششوں کے باوجود اُن باتوں پر زیادہ عرصے تک عمل نہیں کرپاتے، اور جلد ہی اُن سے بیزار ہو کر دوبارہ اپنے Comfort Zone میں چلے جاتے ہیں یا چلے جانا چاہتے ہیں۔ ہمارے مزاج اور ہماری شخصیت میں جتنی زیادہ انا اور ضِد ہوتی ہے اُتنا ہی زیادہ ہم کِسی کی کوئی بھی بات بہ آسانی ہضم نہیں کرسکتے۔ ہماری انا ہمیں اجازت نہیں دیتی کہ ہم اپنی بھلائی میں بھی دیے گئے مشوروں کو توجہ سے سُن سکیں، اُن پر غور کرسکیں اور اُن کے مطابق اپنی زندگی میں بہتر تبدیلیاں لاسکیں۔ ہماری انا ہمیں اپنے ماحول میں بند رہنے کا مشورہ دیتی ہے اور ہر وہ بات جِس سے انا کے خول پر ضرب پڑتی ہو، ہمیں ناگوار گزرتی ہے۔

ہم مستقل اپنا نقصان کرتے رہتے ہیں۔ جو باتیں ہمارے فائدے کی ہوتی ہیں، اُن سے دور بھاگتے رہتے ہیں۔ ہماری انا ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے اور اپنے مسائل سے باہر نکلنے کے راستے میں آڑے آتی رہتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو ہم سمجھتے اور سوچتے ہیں، بس وہی صحیح ہے اور اس میں کِسی قِسم کی گنجائش کی ضرورت نہیں۔ کچھ صحیح کرنے کی ضرورت نہیں۔ حتیّٰ کہ اگر ہم کِسی مسئلے کا شکار ہیں یا کِسی بیماری میں مبتلا ہیں تو اِس میں ہمارا اپنا قصور کیسے ہوسکتا ہے۔ قدرت، حالات، لوگ ذمّہ دار ہیں۔ یہ سوچ ہمیں ہماری انا دیتی ہے، مگر ہمیں اندازہ نہیں ہوتا۔

شازیہ کو بھی اندازہ نہیں تھا اور بار بار کی باتوں اور مشوروں کے باوجود اِس بات کا ادراک نہیں ہوپارہا تھا کہ گو اُس کی بیماری کی جڑیں اُس کے خاندان سے جُڑی ہیں، لیکن وہ خود اگر چاہے تو اِس بیماری کی زنجیریں توڑ کر مضبوط مطمئن زندگی گزارسکتی ہے۔ بچپن سے اُس کا مزاج شاہانہ تھا۔ ماں باپ کے آپس کے لڑائی جھگڑوں اور پھر دوریوں نے بھی اُس کی شخصیت میں ضِد پیدا کرڈالی تھی۔ خاندان میں ذہنی امراض کی ہسٹری بھی موجود تھی۔ عُمر بھی 35 سے اوپر ہورہی تھی اور سب سے بڑا ستم شازیہ کی انا کا خول تھا جو ٹوٹے نہیں ٹوٹ پارہا تھا۔ ان گنت لوگوں کی طرح وہ بھی لاشعوری طور پر یہ چاہ رہی تھی کہ اُس کی اُداسی اور موڈ کو صحیح کرنے والی دواؤں کے ساتھ ساتھ اُسے کوئی ایسی بھی دوا دے دی جائے کہ وہ ازخود آٹومیٹک گیئر میں آکر سارے کام کرنے لگے اور اُس کے ذہن سے ساری منفی سوچیں غائب ہوجائیں، لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔

ایسا ممکن نہیں ہے۔ ابھی تک میڈیکل سائنس ایسی کوئی دوا نہ دریافت کرپائی ہے نہ ایجاد کرپائی ہے جو ہماری انا کو کُھرچ کُھرچ کر ہمارے اندر سے باہر نکال دے اور ہماری ضِد اور منفی سوچ کو Mould اور Modify کردے۔ پانچ سال تک شازیہ، نازیہ اور کبھی اُن کے بھائی اور کبھی اُن کی والدہ سے ملاقاتیں جاری رہیں، مگر علامات پر کنٹرول کے علاوہ شازیہ کی زندگی میں کچھ اور خاص تبدیلی نہ آپائی۔ نہ اُس کا مزاج Mould ہوپایا نہ اُس کی عادتیں Modify ہوپائیں۔ پھر ان گنت لوگوں کی طرح اچانک شازیہ اسکرین سے غائب ہوگئی۔

ان گنت لوگ جب بالکل ٹھیک ہوجاتے ہیں اور اللہ کے فضل سے اُن کی بیماری کی علامات ختم ہوجاتی ہیں تو وہ اچانک کچھ بتائے بِنا غائب ہوجاتے ہیں اور کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو برسوں علاج کے بعد بھی مطمئن نہیں ہوپاتے۔ شوگر، بلڈپریشر اور کئی دیگر جسمانی بیماریوں کی طرح کئی ذہنی ونفسیاتی بیماریاں بھی ایسی ہوتی ہیں جو دونوں کے مستقل استعمال کی محتاج ہوتی ہیں۔

مجھے بھی یہی لگا کہ شازیہ پر بھی اللہ کا فضل ہوا ہے اور ہو صحت یاب ہوگئی ہے، تبھی اب نہیں آرہی۔ پھر آٹھ دس ماہ بعد اس کا فون آیا۔ ''میری فائل بند کریں۔ میں اب آپ کے پاس نہیں آؤں گی۔'' اُس وقت تک وہ میرے ذہن کے حاضر گوشوں سے نکل چکی تھی۔ میں آواز بھی نہیں پہچان پایا اور ہوں ہاں اچھا کہہ کر بات ختم کردی۔ سوچتا رہا کہ کِس کا فون ہوسکتا ہے۔ دو تین دِن بعد ٹھک کرکے شازیہ کا نام اور چہرہ ذہن میں آیا، مگر سچّی بات ہے کہ اُس کا جو فون نمبر میرے فون میں محفوظ تھا وہ اِدھر اُدھر ہوچکا تھا اور جِس اجنبی نمبر سے اُس نے کال کی تھی وہ تین دِنوں میں اور کئی نمبرز کے بیچ کہیں کھوگیا تھا۔

مزید سچّی بات یہ کہ میری انا نے بھی مجھے اجازت نہیں دی کہ اتنے سالوں کی دِل سے کی جانے والی محنت اور توجہ کے بعد بھی اگر کوئی فرد کوئی وجہ بتائے بغیر ایسے فرار ہوجائے تو اُس سے خود دوبارہ رابطہ کیا جائے۔ پھر مزید کئی ماہ بعد نازیہ کا فون آیا کا شازیہ کا علاج کِسی اور ڈاکٹر کے پاس چل رہا ہے اور یہ کہ وہی ڈپریشن ہے جو پہلے تھا۔

اِس بات کو بھی اب دو سال گزرچکے ہیں۔ نہیں پتا کہ اب شازیہ کی طبعیت کیسی ہے۔ لیکن امید اور دعا یہی ہے کہ بہتر ہو۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں محض امیدوں اور دعاؤں سے سارے کام نہیں ہوتے۔ گو ہمیں ہمیشہ خیر کا گمان رکھنا چاہیے، لیکن گھوڑے کی رسّی خود ہی باندھنی پڑتی ہے۔ جب تک ہم اپنی اپنی انا کی رسّی کو ڈھیل دیتے رہیں گے، بار بار اُلجھ کر گرتے رہیں گے۔ لوگوں سے، لوگوں کی باتوں سے، قدرت سے، حالات اور واقعات سے اُلجھتے رہیں گے۔ خود کو مظلوم ومعصوم قرار دے کر باقی سب کو موردِالزام ٹھہراتے رہیں گے، تو کبھی بھی اپنے مسئلوں، اپنی بیماریوں سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔

زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ہمیں اپنے ہاتھوں سے اپنی انا کے بُت توڑنا ہوں گے۔ اپنی ضِد اور اپنی منفی سوچ کو خیرباد کہنا ہوگا۔ بہ صورتِ دیگر ہم دس راستے بدل لیں، دوست احباب بدل لیں، دوائیاں اور ڈاکٹر بدل لیں، پیر فقیر استاد تعویز بدل لیں، گھر دفتر، جگہیں بدل لیں، لیکن جب تک ہم خود کو اندر سے بدلنے کا عزم نہیں پیدا کریں گے اور بیرونی چیزوں کو بدلنے کی بجائے خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے، خود پر محنت نہیں کریں گے، تو کِسی بھی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

بس یا یاد رہنا چاہیے کہ خود کو بدلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہم خود ہوتے ہیں۔ ہماری ضِد اور انا ہوتی ہے، جِس لمحے سے ہم اپنی ضِد اور انا کی قربانی دینا شروع کردیتے ہیں۔ اُس لمحے سے ہمارے اندر تبدیلی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ ہم ٹھیک ہونے لگتے ہیں۔ ہمارے مسئلے کم ہونے لگتے ہیں یا اُن کی شدّت میں کمی آجاتی ہے۔ اور ہمیں سکون ملنے لگتا ہے۔
Load Next Story