احمدپور شرقیہ کا سانحہ کیوں پیش آیا
مذکورہ ٹینکر انٹرنیشنل سیفٹی اسٹینڈرڈ کے معیار پر پورا نہیں اترتا تھا اور نہ ہی اس میں اینٹی رول اوور سسٹم موجود تھا۔
عیدالفطر سے صرف ایک روز پہلے، 26 جون کی صبح احمد پور شرقیہ والوں پر قیامت کی صبح بن کر طلوع ہوئی۔
ساڑھے 6 بجے صبح 50 ہزار لٹر پیٹرول سے بھرا آئل ٹینکر کراچی سے وہاڑی جاتے ہوئے احمدپورشرقیہ سے 5 کلو میٹر دور قومی شاہراہ پر واقع اڈا پکی پل کے قریب سامنے سے آنے والی بس کے اچانک بریک لگانے پر موڑ کاٹتے ہوئے ٹائر پھٹ جانے کے باعث قریبی کھیت میں الٹ گیا اور اس میں موجود ہزاروں لٹر پیٹرول سڑک اور کھیت میں بہنے لگا۔ پیٹرول کھیتوں میں موجود گڑھوں میں جمع ہوا تو ارد گرد کے لوگوں کو چار پیسے کمانے کی سوجھی اور وہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے پر اتر آئے۔ لوگ اپنے گھروں سے گیلن، بالٹیاں، دیگچے اور پتیلے اٹھا لائے تاکہ پیٹرول بھر کر لے جاسکیں۔ یہ سیدھے سادہ دیہاتی لوگ سر پر منڈلاتی موت سے بے خبر تیل بھرنے میں مصروف تھے کہ اچانک آئل ٹینکر میں آگ بھڑک اٹھی اور وہ ایک دھماکے سے پھٹ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ کسی نے ہتھوڑی سے لیکیج کے سوراخ کو بڑا کرنے کی کوشش کی جس سے ہلکی سی چنگاری نکلی اور آنا فاناً آگ بھڑک اٹھی۔
پیٹرول کو اگر کھلا چھوڑا جائے تو وہ گیس یا بخارات میں تبدیل ہونے لگتا ہے۔ گرمی کا موسم تھا اور بخارات بننے کا عمل زیادہ تیزی سے ہورہا تھا۔ یہ بخارات جائے حادثہ کی فضا میں پھیل گئے، یوں وہ علاقہ ایک پیٹرول بم کی شکل اختیار کرگیا۔ ایک چھوٹی سی چنگاری سے وہ سارا علاقہ جل اٹھا ۔ آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ لوگوں کو بھاگنے کا موقع نہیں مل سکا اور قریب سے گزرتی گاڑیاں اور انسان بھی لپیٹ میں آگئے۔
مندرجہ بالا تمام تفصیل اخبارات میں شائع اور چینلز پر نشر ہوتی رہی ہے لیکن تمام رپورٹنگ کو سامنے رکھیں تو ابھی بھی کچھ ایسے سوالات باقی ہیں جن کا جواب بہت ضروری ہے۔
ہماری جن ماہرین سے بات ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ احمد پورشرقیہ میں الٹ کر پھٹنے والا آئل ٹینکر انٹرنیشنل سیفٹی اسٹینڈرڈ پر پورا نہیں اترتا تھا۔ وہ پرانا ٹینکر تھا جس میں اینٹی رول اوور سسٹم تک موجود نہیں تھا۔ آئل کمپنیوں کو کنٹریکٹ پر ٹینکر مہیا کرنے والی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنیاں پیسے بچانے کے لیے پرانے ٹینکر میں پیٹرولیم کی سپلائی کی اجازت حاصل کرلیتی ہیں۔ انٹر نیشنل آئل کمپنیاں اس ٹینکر کو اپنا برانڈ نام اور لوگو نہیں دیتیں جس کے سیفٹی میژرز سو فیصد پورے نہ ہوں۔ آپریشنل سیفٹی اسٹینڈرڈ پر کوئی بھی آئل کمپنی سمجھوتا نہیں کرتی۔ مذکورہ آئل ٹینکر کا رنگ سفید تھا اور اس پر کمپنی کا برانڈ نام اور لوگو نہیں تھا۔ پہلا سوال مذکورہ کمپنی سے یہی کرنا چاہیے کہ اس نے آئل ٹینکر کو اپنا نام اور لوگو کیوں نہیں دیا تھا؟
ماہرین کے مطابق تمام آئل کمپنیاں پٹرولیم کی ترسیل کے لیے انٹرنیشنل سیفٹی قوانین کو اپناتی ہیں جنہیں ARD Standard کہا جاتا ہے۔ اس اسٹینڈرڈ کے مطابق پیٹرول لے کر جانے والے ٹینکر کا ایک مخصوص ڈیزائن ہوتا ہے۔ اس کے طے شدہ سیفٹی میژرز ہوتے ہیں۔ اس میں توازن کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے تاکہ دوران سفر ڈرائیور کو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اس میں اینٹی رول اوور سسٹم لازمی طور پر موجود ہوتا ہے۔ جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دوران سفر کسی حادثے کے نتیجے میں ٹینکر الٹنے نہ پائے۔
کہا جاتا ہے کہ کچھ عرصے سے تمام قابل ذکر آئل کمپنیاں ان انٹرنیشنل سیفٹی قوانین کے مطابق اپنے ٹینکرز کو معیاری بنانے کی کوشش کررہی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان آئل کمپنیوں کے ٹینکرز سارے ان کے اپنے نہیں ہوتے۔ یہ کنٹریکٹ پر بھی گاڑیاں حاصل کرتی ہیں۔ اگرچہ کمپنیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی مطلوبہ معیار سے کم تر ٹینکر حاصل نہ کیا جائے۔
پرائیویٹ کنٹریکٹرز ان کمپنیوں سے مہلت مانگتے ہیں کہ ان کے ٹینکرز فی الحال وہ استعمال کرلیں، وہ بہت جلد انہیں مطلوبہ معیار پر لے آئیں گے، لیکن درحقیقت ایسا کچھ ہوتا نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک نئے ٹینکر کی تیاری میں میں کم از کم ایک کروڑ کی لاگت آتی ہے۔ ذرائع کے مطابق احمد پور شرقیہ کے قریب پھٹنے والا ٹینکر بھی کمپنی کا اپنا برانڈڈ نہیں تھا، بل کہ ایک پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنی کا پرانا ٹینکر تھا جسے آئل کمپنی نے کام کی اجازت دے رکھی تھی۔
مذکورہ ٹینکر انٹرنیشنل سیفٹی اسٹینڈرڈ کے معیار پر پورا نہیں اترتا تھا اور نہ ہی اس میں اینٹی رول اوور سسٹم موجود تھا۔ دراصل ہر آئل کمپنی کے پاس دو کیٹیگری کے ٹینکر ہوتے ہیں، جن میں ایک برانڈڈ ٹینکر ہوتا ہے جب کہ دوسرے کو اصطلاحاً گرے وہیکل کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ٹینکر کے سیفٹی میژرز نامکمل ہیں۔ کوئی بھی کمپنی ایسے ٹینکر کو اپنا نام اور لوگو نہیں دیتی جس کے سیفٹی میژرز مکمل نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ پھٹنے والا ٹینکر سفید رنگ کا تھا اور متعلقہ آئل کمپنی کا نام اور لوگو اس پر موجود نہیں تھا۔
پاکستان میں پیٹرول کی سپلائی بذریعہ سڑک اور ڈیزل اور کیروسین آئل کی سپلائی بذریعہ پائپ لائن ہوتی ہے۔ اس بدقسمت ٹینکر نے بھی کیماڑی کراچی سے پیٹرول بھرا تھا اور اس کی منزل لاہور سے تھوڑی دور واقع ضلع شیخوپورہ میں فاروق آباد کے قریب ماچھیکے کا مقام تھا، جہاں تمام آئل کمپنیوں کے ٹرمینل بنے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایسے لونگ روٹ کے لیے ایک ٹینکر میں دو ڈرائیورز کا ہونا ضروری ہے، لیکن اس بدقسمت ٹینکر کا ابھی تک ایک ہی ڈرائیور سامنے آیا ہے جو خود بھی جھلس کر جاں بحق ہوچکا ہے۔ مذکورہ آئل کمپنی کو اس کی بھی وضاحت کرنا چاہیے کہ دوسرا ڈرائیور کیوں نہیں تھا؟
آئل کمپنی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ عید کے سبب آئل کی ڈیمانڈ بڑھی ہوئی تھی، لہٰذا آٓئل کمپنی نے کنٹریکٹ پر اس ٹینکر کو حاصل کیا تھا۔ حادثے کا شکار ہونے والا ٹینکر ان ایس او پیز پر بھی پورا نہیں اترتا تھا جو مذکورہ آئل کمپنی نے خود بنائے ہیں۔ ان ایس او پیز کے مطابق ڈرائیورز کے لیے لازمی ہے کہ وہ لازمی ڈیفینسو کورس (ڈی ڈی سی) پاس کرچکا ہو، لیکن حادثے کا شکار ہونے والے ڈرائیور نے یہ کورس نہیں کیا تھا۔
اس طرح ان ایس او پیز کے مطابق ایک شہر سے دوسرے شہر آئل لے جانے والے ٹینکرز کو پوری طرح سربمہر رکھا جانا ضروری ہوتا ہے تاکہ اگر ٹینکر الٹ بھی جائے تو اس سے آئل لیکیج نہ ہو، جب کہ حادثے کا شکار ٹینکر فوری طور پر رسنا شروع ہوگیا تھا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ آئل لے جانے والے ٹینکر ز میں آگ بجھانے والے چار سے چھے سلنڈر ہوتے ہیں جب کہ اس ٹینکر میں صرف ایک سلینڈر لگا ہوا تھا۔ اسی طرح ہر آئل ٹینکر کی سیفٹی کٹ ہوتی ہے جس کے تحت ٹینکر کا ڈرائیور اور کلینر حادثے کی صورت میں مقامی انتظامیہ سے فوری رابطہ کر کہ لوگوں کو ٹینکر سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حادثے میں یہ کٹ بھی استعمال نہیں ہوئی یا پھر یہ کٹ موجود نہیں تھی۔ اس کی وضاحت بھی نہیں آئی۔
مختلف شہروں کو روانہ ہونے آئل ٹینکرز کے سفر کے حوالے سے جرنی مینیجمنٹ پلان بھی بنایا جاتا ہے، جس کے تحت ڈرائیور دوران سفر مانیٹرنگ میں رہتا ہے۔ جو کمپنیاں کنٹریکٹ پر ٹینکرز لیتی ہیں ان کے مالکان بھی ایس او پیز پر عمل درآمد کے پابند ہوتے ہیں۔ کراچی سے ملک کے دوسرے شہروں کو پیٹرول لے جانے والے ٹینکرز پر لگے ٹریکر کے ذریعے لوکیشن اور اسپیڈ مانیٹر کی جاتی ہے۔
پیٹرولیم سے متعلق کمپنیوں کے لیے لازم ہے کہ ایسی گاڑیاں استعمال نہ کی جائیں جن کی طے شدہ مدت میں کیلی بریشن نہ کی گئی ہو اور جن گاڑیوں کے حوالے سے ہیلتھ اینڈ سیفٹی انوائرنمنٹ کے ضوابط کا خیال نہ رکھا جاتا ہو۔ لازم ہے یہ گاڑیاں چیک لسٹ کے معیار پر پورا اترتی ہوں۔ ان چیک لسٹ کا اطمینان گاڑی میں پیٹرول بھرنے سے پہلے کیا جاتا ہے۔ اسے متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں رکھا جاتا ہے۔
حادثے کا شکار آئل ٹینکر صبح سویرے احمد پور شرقیہ پہنچا تھا، جس کا مطلب ہے کہ اس نے رات بھر سفر کیا تھا۔ یاد رہے کہ مذکورہ آئل کمپنی کے اپنے ضابطۂ اخلاق کے مطابق پیٹرول کو لانے لے جانے والی گاڑیوں کو رات کے وقت سڑک پر چلنے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ لازم ہے کہ یہ دن کے وقت چلیں تاکہ ڈرائیورز کسی تھکن یا نیند کے اثر میں نہ ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ان گاڑیوں میں ڈرائیور کے ساتھ ایک متبادل ڈرائیور اور ایک کلینر ضرور ہو۔
ملک بھر میں ہر ماہ تقریباً 14000آئل ٹینکرز ایک جگہ سے دوسری جگہ پیٹرول منتقل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان میں سے دس ہزار آئل ٹینکرز صرف کراچی سے ملک کے دوسرے حصوں کو جاتے ہیں، لیکن حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حادثے کا شکار ٹینکر جس آئل کمپنی کا پیٹرول لے جارہا تھا اس کمپنی کے حوالے سے تاثر ہے کہ وہ تمام قواعدوضوابط کا خیال رکھتی ہے لیکن نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اس حادثے کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ آئل کمپنی نے انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ تو کجا اپنے بنائے ہوئے ایس او پیز کو ہی بالائے طاق رکھ دیا ہے۔
اس سانحے کی تحقیقات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حادثہ موٹر وے پولیس کی نااہلی کی وجہ سے پیش آیا۔ حادثہ شفٹ تبدیلی کے وقت پیش آیا۔ پہلی شفٹ جاچکی تھی جب کہ دوسری شفٹ وقت پر نہ پہنچی اگر پولیس جائے حادثہ کے مقام کو سیل کردیتی تو لوگ دور رہتے اور یہ بدترین سانحہ رونما نہیں ہوتا۔ مقامی ایس ایچ او اور کمشنر صاحب بھی جائے حادثہ پر ایک گھنٹے تاخیر کے بعد پہنچے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے اس حادثے پر ایک چار رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
کمیٹی کو حادثے کی وجوہات کے تعین کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کمیٹی آئل ٹینکر کی مکینیکل حالت اور ڈرائیور کی اہلیت کا بھی تعین کرے گی۔ یہ کمیٹی مقامی انتظامیہ، مقامی پولیس اور موٹروے پولیس کے کردار سمیت ایسے خطرناک سامان کی منتقلی کے لیے موجود مروجہ قواعدوضوابط کا بھی جائزہ لے گی۔ کمیٹی سانحے کے بعد محکمۂ صحت سمیت مختلف اداروں کی کارکردگی سمیت ہنگامی حالات میں سول اور فوجی انتظامیہ میں رابطے کے نظام کا جائزہ لے گی۔ شہبازشریف نے 70 سالہ کرپشن کو احمد پور شرقیہ کا ذمے دار قرار دیا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پورے ملک میں ٹرانسپورٹ کا نظام انشورڈ ہونا چاہیے اور کسی بھی گاڑی کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے گاڑی کا مکمل چیک اپ ہو۔ یورپ میں جن کمپنیوں کی گاڑیوں کے سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں، ان کی انشورنس زیادہ رقم پر کی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں ٹرانسپورٹ یا تو سیاست دانوں کے کنٹرول میں ہے یا سرکاری افسران اور بااثر افراد کی ملکیت میں ہے۔ اسی لیے حکومت کسی بھی حادثے کے بعد متاثرین کے لیے معاوضے کا اعلان کردیتی ہے اور جن لوگوں کو اصل میں ہرجانہ ادا کرنا چاہیے ان کی جان چھوٹ جاتی ہے۔
اس بدترین حادثے کے بعد یہی وہ وقت ہے کہ ہم اس حوالے سے تمام اقدامات کا جائزہ لیں اور آئندہ کے لیے صورت حال بہتر ہوسکے۔
ساڑھے 6 بجے صبح 50 ہزار لٹر پیٹرول سے بھرا آئل ٹینکر کراچی سے وہاڑی جاتے ہوئے احمدپورشرقیہ سے 5 کلو میٹر دور قومی شاہراہ پر واقع اڈا پکی پل کے قریب سامنے سے آنے والی بس کے اچانک بریک لگانے پر موڑ کاٹتے ہوئے ٹائر پھٹ جانے کے باعث قریبی کھیت میں الٹ گیا اور اس میں موجود ہزاروں لٹر پیٹرول سڑک اور کھیت میں بہنے لگا۔ پیٹرول کھیتوں میں موجود گڑھوں میں جمع ہوا تو ارد گرد کے لوگوں کو چار پیسے کمانے کی سوجھی اور وہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے پر اتر آئے۔ لوگ اپنے گھروں سے گیلن، بالٹیاں، دیگچے اور پتیلے اٹھا لائے تاکہ پیٹرول بھر کر لے جاسکیں۔ یہ سیدھے سادہ دیہاتی لوگ سر پر منڈلاتی موت سے بے خبر تیل بھرنے میں مصروف تھے کہ اچانک آئل ٹینکر میں آگ بھڑک اٹھی اور وہ ایک دھماکے سے پھٹ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ کسی نے ہتھوڑی سے لیکیج کے سوراخ کو بڑا کرنے کی کوشش کی جس سے ہلکی سی چنگاری نکلی اور آنا فاناً آگ بھڑک اٹھی۔
پیٹرول کو اگر کھلا چھوڑا جائے تو وہ گیس یا بخارات میں تبدیل ہونے لگتا ہے۔ گرمی کا موسم تھا اور بخارات بننے کا عمل زیادہ تیزی سے ہورہا تھا۔ یہ بخارات جائے حادثہ کی فضا میں پھیل گئے، یوں وہ علاقہ ایک پیٹرول بم کی شکل اختیار کرگیا۔ ایک چھوٹی سی چنگاری سے وہ سارا علاقہ جل اٹھا ۔ آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ لوگوں کو بھاگنے کا موقع نہیں مل سکا اور قریب سے گزرتی گاڑیاں اور انسان بھی لپیٹ میں آگئے۔
مندرجہ بالا تمام تفصیل اخبارات میں شائع اور چینلز پر نشر ہوتی رہی ہے لیکن تمام رپورٹنگ کو سامنے رکھیں تو ابھی بھی کچھ ایسے سوالات باقی ہیں جن کا جواب بہت ضروری ہے۔
ہماری جن ماہرین سے بات ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ احمد پورشرقیہ میں الٹ کر پھٹنے والا آئل ٹینکر انٹرنیشنل سیفٹی اسٹینڈرڈ پر پورا نہیں اترتا تھا۔ وہ پرانا ٹینکر تھا جس میں اینٹی رول اوور سسٹم تک موجود نہیں تھا۔ آئل کمپنیوں کو کنٹریکٹ پر ٹینکر مہیا کرنے والی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنیاں پیسے بچانے کے لیے پرانے ٹینکر میں پیٹرولیم کی سپلائی کی اجازت حاصل کرلیتی ہیں۔ انٹر نیشنل آئل کمپنیاں اس ٹینکر کو اپنا برانڈ نام اور لوگو نہیں دیتیں جس کے سیفٹی میژرز سو فیصد پورے نہ ہوں۔ آپریشنل سیفٹی اسٹینڈرڈ پر کوئی بھی آئل کمپنی سمجھوتا نہیں کرتی۔ مذکورہ آئل ٹینکر کا رنگ سفید تھا اور اس پر کمپنی کا برانڈ نام اور لوگو نہیں تھا۔ پہلا سوال مذکورہ کمپنی سے یہی کرنا چاہیے کہ اس نے آئل ٹینکر کو اپنا نام اور لوگو کیوں نہیں دیا تھا؟
ماہرین کے مطابق تمام آئل کمپنیاں پٹرولیم کی ترسیل کے لیے انٹرنیشنل سیفٹی قوانین کو اپناتی ہیں جنہیں ARD Standard کہا جاتا ہے۔ اس اسٹینڈرڈ کے مطابق پیٹرول لے کر جانے والے ٹینکر کا ایک مخصوص ڈیزائن ہوتا ہے۔ اس کے طے شدہ سیفٹی میژرز ہوتے ہیں۔ اس میں توازن کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے تاکہ دوران سفر ڈرائیور کو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اس میں اینٹی رول اوور سسٹم لازمی طور پر موجود ہوتا ہے۔ جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دوران سفر کسی حادثے کے نتیجے میں ٹینکر الٹنے نہ پائے۔
کہا جاتا ہے کہ کچھ عرصے سے تمام قابل ذکر آئل کمپنیاں ان انٹرنیشنل سیفٹی قوانین کے مطابق اپنے ٹینکرز کو معیاری بنانے کی کوشش کررہی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان آئل کمپنیوں کے ٹینکرز سارے ان کے اپنے نہیں ہوتے۔ یہ کنٹریکٹ پر بھی گاڑیاں حاصل کرتی ہیں۔ اگرچہ کمپنیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی مطلوبہ معیار سے کم تر ٹینکر حاصل نہ کیا جائے۔
پرائیویٹ کنٹریکٹرز ان کمپنیوں سے مہلت مانگتے ہیں کہ ان کے ٹینکرز فی الحال وہ استعمال کرلیں، وہ بہت جلد انہیں مطلوبہ معیار پر لے آئیں گے، لیکن درحقیقت ایسا کچھ ہوتا نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک نئے ٹینکر کی تیاری میں میں کم از کم ایک کروڑ کی لاگت آتی ہے۔ ذرائع کے مطابق احمد پور شرقیہ کے قریب پھٹنے والا ٹینکر بھی کمپنی کا اپنا برانڈڈ نہیں تھا، بل کہ ایک پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنی کا پرانا ٹینکر تھا جسے آئل کمپنی نے کام کی اجازت دے رکھی تھی۔
مذکورہ ٹینکر انٹرنیشنل سیفٹی اسٹینڈرڈ کے معیار پر پورا نہیں اترتا تھا اور نہ ہی اس میں اینٹی رول اوور سسٹم موجود تھا۔ دراصل ہر آئل کمپنی کے پاس دو کیٹیگری کے ٹینکر ہوتے ہیں، جن میں ایک برانڈڈ ٹینکر ہوتا ہے جب کہ دوسرے کو اصطلاحاً گرے وہیکل کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ٹینکر کے سیفٹی میژرز نامکمل ہیں۔ کوئی بھی کمپنی ایسے ٹینکر کو اپنا نام اور لوگو نہیں دیتی جس کے سیفٹی میژرز مکمل نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ پھٹنے والا ٹینکر سفید رنگ کا تھا اور متعلقہ آئل کمپنی کا نام اور لوگو اس پر موجود نہیں تھا۔
پاکستان میں پیٹرول کی سپلائی بذریعہ سڑک اور ڈیزل اور کیروسین آئل کی سپلائی بذریعہ پائپ لائن ہوتی ہے۔ اس بدقسمت ٹینکر نے بھی کیماڑی کراچی سے پیٹرول بھرا تھا اور اس کی منزل لاہور سے تھوڑی دور واقع ضلع شیخوپورہ میں فاروق آباد کے قریب ماچھیکے کا مقام تھا، جہاں تمام آئل کمپنیوں کے ٹرمینل بنے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایسے لونگ روٹ کے لیے ایک ٹینکر میں دو ڈرائیورز کا ہونا ضروری ہے، لیکن اس بدقسمت ٹینکر کا ابھی تک ایک ہی ڈرائیور سامنے آیا ہے جو خود بھی جھلس کر جاں بحق ہوچکا ہے۔ مذکورہ آئل کمپنی کو اس کی بھی وضاحت کرنا چاہیے کہ دوسرا ڈرائیور کیوں نہیں تھا؟
آئل کمپنی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ عید کے سبب آئل کی ڈیمانڈ بڑھی ہوئی تھی، لہٰذا آٓئل کمپنی نے کنٹریکٹ پر اس ٹینکر کو حاصل کیا تھا۔ حادثے کا شکار ہونے والا ٹینکر ان ایس او پیز پر بھی پورا نہیں اترتا تھا جو مذکورہ آئل کمپنی نے خود بنائے ہیں۔ ان ایس او پیز کے مطابق ڈرائیورز کے لیے لازمی ہے کہ وہ لازمی ڈیفینسو کورس (ڈی ڈی سی) پاس کرچکا ہو، لیکن حادثے کا شکار ہونے والے ڈرائیور نے یہ کورس نہیں کیا تھا۔
اس طرح ان ایس او پیز کے مطابق ایک شہر سے دوسرے شہر آئل لے جانے والے ٹینکرز کو پوری طرح سربمہر رکھا جانا ضروری ہوتا ہے تاکہ اگر ٹینکر الٹ بھی جائے تو اس سے آئل لیکیج نہ ہو، جب کہ حادثے کا شکار ٹینکر فوری طور پر رسنا شروع ہوگیا تھا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ آئل لے جانے والے ٹینکر ز میں آگ بجھانے والے چار سے چھے سلنڈر ہوتے ہیں جب کہ اس ٹینکر میں صرف ایک سلینڈر لگا ہوا تھا۔ اسی طرح ہر آئل ٹینکر کی سیفٹی کٹ ہوتی ہے جس کے تحت ٹینکر کا ڈرائیور اور کلینر حادثے کی صورت میں مقامی انتظامیہ سے فوری رابطہ کر کہ لوگوں کو ٹینکر سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حادثے میں یہ کٹ بھی استعمال نہیں ہوئی یا پھر یہ کٹ موجود نہیں تھی۔ اس کی وضاحت بھی نہیں آئی۔
مختلف شہروں کو روانہ ہونے آئل ٹینکرز کے سفر کے حوالے سے جرنی مینیجمنٹ پلان بھی بنایا جاتا ہے، جس کے تحت ڈرائیور دوران سفر مانیٹرنگ میں رہتا ہے۔ جو کمپنیاں کنٹریکٹ پر ٹینکرز لیتی ہیں ان کے مالکان بھی ایس او پیز پر عمل درآمد کے پابند ہوتے ہیں۔ کراچی سے ملک کے دوسرے شہروں کو پیٹرول لے جانے والے ٹینکرز پر لگے ٹریکر کے ذریعے لوکیشن اور اسپیڈ مانیٹر کی جاتی ہے۔
پیٹرولیم سے متعلق کمپنیوں کے لیے لازم ہے کہ ایسی گاڑیاں استعمال نہ کی جائیں جن کی طے شدہ مدت میں کیلی بریشن نہ کی گئی ہو اور جن گاڑیوں کے حوالے سے ہیلتھ اینڈ سیفٹی انوائرنمنٹ کے ضوابط کا خیال نہ رکھا جاتا ہو۔ لازم ہے یہ گاڑیاں چیک لسٹ کے معیار پر پورا اترتی ہوں۔ ان چیک لسٹ کا اطمینان گاڑی میں پیٹرول بھرنے سے پہلے کیا جاتا ہے۔ اسے متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں رکھا جاتا ہے۔
حادثے کا شکار آئل ٹینکر صبح سویرے احمد پور شرقیہ پہنچا تھا، جس کا مطلب ہے کہ اس نے رات بھر سفر کیا تھا۔ یاد رہے کہ مذکورہ آئل کمپنی کے اپنے ضابطۂ اخلاق کے مطابق پیٹرول کو لانے لے جانے والی گاڑیوں کو رات کے وقت سڑک پر چلنے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ لازم ہے کہ یہ دن کے وقت چلیں تاکہ ڈرائیورز کسی تھکن یا نیند کے اثر میں نہ ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ان گاڑیوں میں ڈرائیور کے ساتھ ایک متبادل ڈرائیور اور ایک کلینر ضرور ہو۔
ملک بھر میں ہر ماہ تقریباً 14000آئل ٹینکرز ایک جگہ سے دوسری جگہ پیٹرول منتقل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان میں سے دس ہزار آئل ٹینکرز صرف کراچی سے ملک کے دوسرے حصوں کو جاتے ہیں، لیکن حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حادثے کا شکار ٹینکر جس آئل کمپنی کا پیٹرول لے جارہا تھا اس کمپنی کے حوالے سے تاثر ہے کہ وہ تمام قواعدوضوابط کا خیال رکھتی ہے لیکن نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اس حادثے کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ آئل کمپنی نے انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ تو کجا اپنے بنائے ہوئے ایس او پیز کو ہی بالائے طاق رکھ دیا ہے۔
اس سانحے کی تحقیقات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حادثہ موٹر وے پولیس کی نااہلی کی وجہ سے پیش آیا۔ حادثہ شفٹ تبدیلی کے وقت پیش آیا۔ پہلی شفٹ جاچکی تھی جب کہ دوسری شفٹ وقت پر نہ پہنچی اگر پولیس جائے حادثہ کے مقام کو سیل کردیتی تو لوگ دور رہتے اور یہ بدترین سانحہ رونما نہیں ہوتا۔ مقامی ایس ایچ او اور کمشنر صاحب بھی جائے حادثہ پر ایک گھنٹے تاخیر کے بعد پہنچے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے اس حادثے پر ایک چار رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
کمیٹی کو حادثے کی وجوہات کے تعین کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کمیٹی آئل ٹینکر کی مکینیکل حالت اور ڈرائیور کی اہلیت کا بھی تعین کرے گی۔ یہ کمیٹی مقامی انتظامیہ، مقامی پولیس اور موٹروے پولیس کے کردار سمیت ایسے خطرناک سامان کی منتقلی کے لیے موجود مروجہ قواعدوضوابط کا بھی جائزہ لے گی۔ کمیٹی سانحے کے بعد محکمۂ صحت سمیت مختلف اداروں کی کارکردگی سمیت ہنگامی حالات میں سول اور فوجی انتظامیہ میں رابطے کے نظام کا جائزہ لے گی۔ شہبازشریف نے 70 سالہ کرپشن کو احمد پور شرقیہ کا ذمے دار قرار دیا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پورے ملک میں ٹرانسپورٹ کا نظام انشورڈ ہونا چاہیے اور کسی بھی گاڑی کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے گاڑی کا مکمل چیک اپ ہو۔ یورپ میں جن کمپنیوں کی گاڑیوں کے سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں، ان کی انشورنس زیادہ رقم پر کی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں ٹرانسپورٹ یا تو سیاست دانوں کے کنٹرول میں ہے یا سرکاری افسران اور بااثر افراد کی ملکیت میں ہے۔ اسی لیے حکومت کسی بھی حادثے کے بعد متاثرین کے لیے معاوضے کا اعلان کردیتی ہے اور جن لوگوں کو اصل میں ہرجانہ ادا کرنا چاہیے ان کی جان چھوٹ جاتی ہے۔
اس بدترین حادثے کے بعد یہی وہ وقت ہے کہ ہم اس حوالے سے تمام اقدامات کا جائزہ لیں اور آئندہ کے لیے صورت حال بہتر ہوسکے۔