پِھر انھوں نے یہ کیا
پانامالیکس کے بعد مختلف ممالک میں لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات
پاناما لیکس کے بعد دنیا بھر میں ہلچل مچ گئی، خاص طور ان ملکوں میں بدعنوانی اور دولت کی بیرون ملک منتقلی کے خلاف زبردست صدائے احتجاج بلند کی گئی جہاں کے حکم راں اور اہم شخصیات نے پاناما میں کمپنیاں قائم کی ہوئی تھیں۔ کئی ممالک نے اس ضمن میں خصوصی اقدامات کیے، جن کی تفصیل پیش ہے:
٭ڈنمارک اور جرمنی کا لیک ہونے والے ڈیٹا تک رسائی اور اسے برقی شکل میں محفوظ کرنے کے لیے لاکھوں یورو کی ادائیگی
جرمنی کے فیڈرل کرائم آفس نے پاناما پیپرز سے متعلق دستاویزات حاصل کرنے اور انہیں برقی شکل میں محفوظ کرنے کے لیے کروڑوں یوروز ادا کیے ہیں۔ فیڈرل کرائمز آفس (بی کے اے) کے اعلیٰ حکام کے مطابق لاکھوں دستاویزات پر مشتمل پاناما پیپرز کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہم ان دستاویزات کو الیکٹرانک شکل میں منتقل کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے دستاویزات کو حاصل کرنے کے لیے اب تک 50 لاکھ یوروز ادا کیے جاچکے ہیں۔ گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر معلومات کے حصول کے لیے اتنی بڑی رقم کی ادائیگی متنازعہ بن چکی ہے۔ تاہم جرمنی کے علاوہ جرمنی، فرانس ، ڈنمارک اور برطانیہ نے ان دستاویزات کو خریدنے کے لیے کثیر رقوم خرچ کی ہیں تا کہ ان میں موجود اداروں اور شخصیات سے ٹیکس وصولی کر کے لوٹی گئی دولت کو ملک میں واپس لایا جاسکے ۔
٭بھارت کا پاناماپیپرز پر کام کرنے والی مشترکہ ٹاسک فورس کا حصہ بننے کا اعلان
پاناما لیکس کے بعد آرگنائزیشن فار اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (اوسی ای ڈی) اور کونسل آف یورپ ملٹی لیٹیرل کنویشن اینڈ ٹیکس ٹریٹیز کی جانب سے ایک مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دی گی، جس کا مقصد پاناما پیپرز میں موجود ناموں کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانا تھا۔ اس مقصد کے لیے ٹاسک فورس میں شامل ممالک کے درمیان حساس معلومات کا تبادلہ کیا گیا۔ انڈیا نے گذشتہ ماہ چوتھی جوائنٹ انٹر نیشنل ٹاسک فورس (جے آئی ٹی ایس آئی سی) میں شمولیت اختیار کی۔
بھارت کی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'چوتھی مشترکہ بین الاقوامی ٹاسک فورس کے ساتھ اشتراک آف شور کمپینوں کی آڑ میں ٹیکس بچانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے اور انہیں ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کے لیے بہت کارگر ثابت ہوگا۔'' جوائنٹ انٹرنیشنل ٹاسک فورس میں شامل تیس ممالک لا فرم موسیک فونسیکا سے تعلق رکھنے والے ٹیکس دہندگان اور ان کے مڈل مین کے بارے میں معلومات اور تجزیات کا مستقل تبادلہ کر رہے ہیں۔ بیان کے مطابق گذشتہ چھے ماہ میں 32 ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلے کی 570 سے زائد درخواستیں کی جاچکی ہیں۔ بھارت خود بھی پاناما پیپر کیسز میں درکار معلومات کے لیے مختلف ممالک اور عدالتوں سے معلومات کے حصول کی درخواست کرچکا ہے۔
جے آئی ٹی ایس آئی سی کے رکن ممالک اس کثیر فریقی معاہدے کے تحت زیادہ تیزی اور موثر طریقے سے مزید لیک ہونے والے ڈیٹا کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ اعلامیے کے مطابق بھارت مشترکہ بین الاقوامی ٹاسک فورس کے اشتراک سے پاناما پیپرز سے ملنے والے نئے اعدادوشمار اور انٹیلی جنس پر اپنی تحقیقات جاری رکھے گی۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں ٹیکس وصولی کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جائے گی۔
٭پاناما لیکس میں شامل آئس لینڈ کے بڑے ناموں نے کئی ارب آئس لینڈک کرونا مرکزی بینک سے بیس فی صد رعایت پر خرید لیے
گذشتہ سال پاناما لیکس کے بعد سے آئس لینڈ میں کافی ہل چل پیدا ہوئی، کیوں کہ آئس لینڈ کے وزیراعظم Sigmundur Davíð Gunnlaugsson کا نام بھی ان دستاویزات میں آیا تھا۔ عوام کے پُرزور مطالبے پر وزیراعظم باؑعزت طریقے سے مستعفی ہوگئے، جب کہ مرکزی بینک نے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کی گئی رقوم کو واپس لانے کے لیے سرمایہ کاری کی ایک انوکھی اسکیم متعارف کروائی۔ اس اسکیم کے تحت مرکزی بینک نے پاناما پیپرز میں شامل آئس لینڈ کے بڑے سرمایہ کاروں کو بڑی تعداد میں آئس لینڈک کرونا (مقامی کرنسی) خریدنے پر بیس فی صد رعایت دینے کا اعلان کیا۔
سینٹرل بینک آف آئس لینڈ کے گورنر Már Guðmundssonکے مطابق اس اسکیم کو متعارف کرانے کا مقصد غیرملکی زرمبادلہ کو ملک میں لانا ہے، حکومت کی سرمایہ کاری کی اسکیم سے اب تک آئس لینڈ کے شہریوں کی جانب سے چلنے والی کمپنیوں نے بہت فائدہ اٹھا یا ہے اور اب تک 206ارب آئس لینڈ کرونا خریدے گئے ہیں۔ مقامی اخبار RÚV کے مطابق یہ اسکیم خصوصاً پاناما پیپرز میں شامل سرمایہ کاروں کے لیے متعارف کرائی گئی اور بیس فی صد رعایت پر کرنسی خریدنے والوں میں بڑی تعداد میں ایسے سرمایہ کار بھی ہیں جن کے نام پاناما پیپرز میں شامل تھے۔ ٹیکس حکام نے ایسیان سرمایہ کاروں سے ذرایع آمدنی کی تفتیش نہ کرتے ہوئے ان کی شناخت مخفی رکھی ہے۔
٭آئس لینڈ نے لوٹی گئی دولت کا نصف ارب وصول کرلیا
پاناما دستاویزات نے پاکستان سمیت دنیا کے بیش تر ممالک میں ہل چل پیدا کردی تھی، لیکن پاکستان کے برعکس دنیا کے بہت سے ممالک نے پاناما لیکس سے ملنے والے اعدادوشمار کو مثبت طریقے سے استعمال کیا۔ آئس لینڈ کے ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل ریونیو نے پاناما پیپرز سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر 16افراد سے نصف ارب آئس لینڈک کرونا ( 49لاکھ ڈالر) ٹیکس کی مد میں وصول کرلیے ہیں۔ مقامی اخبارRÚV کے مطابق ٹیکس حکام کو نہ صرف اس قابل ادائیگی ٹیکس بل کہ اس سے زیادہ رقم حاصل ہونے کی توقع بھی ہے۔
گزشتہ سال لا فرم موسیک فونیسکا سے افشا ہونے والی دستاویزات جنہیں پاناما پیپرز کا نام دیا گیا تھا، میں دنیا بھر میں آف شور اکاؤنٹس اور اثاثے رکھنے والی کمپنیوں اور شخصیات کے نام دیے گئے تھے۔ اخبار نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ حکومت نے ٹیکس نادہندگان کی معلومات حاصل کرنے کے لیے 37 ملین کرونا (ساڑھے تین لاکھ ڈالر) ادا کیے۔
ان دستاویزات کو ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ پاناما میں موسیک فونسیکا کے ہیڈکوارٹر سے لیک کی گئی ان دستاویزات کو بیچنے والے کی شناخت کبھی ظاہر نہیں ہوسکی۔ ان دستاویزات میں آئس لینڈ کے شناختی نمبر رکھنے والے 410 ٹیکس نادہندگان کے نام شامل ہیں، جن میں61آف شور کمپنیاں، 349 سیاست، فنون لطیفہ، کھیل، کاروبار اور دوسرے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے نام ہیں۔ یہ ڈیٹا ملنے کے بعد ڈائریکٹوریٹ آف ٹیکس نے اس ڈیٹا کی جزئیات تک کھنگالی، جس کے بعد اس میں سے 34ناموں پر قابل مواخذہ جرم سرزد کرنے کا شک ظاہر کرتے ہوئے عدالتوں میں بھیج دیا اور باقی 376 نام ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل ریونیو کو بھیج دیے گئے تھے۔
اخبار کے مطابق محکمۂ محصولات اب تک پانچ افراد سے 147ملین کرونا اور تین شخصیات سے 140ملین کرونا ٹیکس کی مد میں وصول کرچکا ہے، جب کہ آٹھ کیسز دو سو ملین کرونا وصول کرکے ختم کردیے گئے ہیں۔ ٹیکس حکام کے مطابق پاناما پیپرز میں شامل ناموں پر ابھی 487 ملین کرونا ( 47لاکھ ڈالر) کا ٹیکس واجب الادا ہے جو جلد ہی وصول کرلیا جائے گا۔
٭ڈنمارک اور جرمنی کا لیک ہونے والے ڈیٹا تک رسائی اور اسے برقی شکل میں محفوظ کرنے کے لیے لاکھوں یورو کی ادائیگی
جرمنی کے فیڈرل کرائم آفس نے پاناما پیپرز سے متعلق دستاویزات حاصل کرنے اور انہیں برقی شکل میں محفوظ کرنے کے لیے کروڑوں یوروز ادا کیے ہیں۔ فیڈرل کرائمز آفس (بی کے اے) کے اعلیٰ حکام کے مطابق لاکھوں دستاویزات پر مشتمل پاناما پیپرز کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہم ان دستاویزات کو الیکٹرانک شکل میں منتقل کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے دستاویزات کو حاصل کرنے کے لیے اب تک 50 لاکھ یوروز ادا کیے جاچکے ہیں۔ گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر معلومات کے حصول کے لیے اتنی بڑی رقم کی ادائیگی متنازعہ بن چکی ہے۔ تاہم جرمنی کے علاوہ جرمنی، فرانس ، ڈنمارک اور برطانیہ نے ان دستاویزات کو خریدنے کے لیے کثیر رقوم خرچ کی ہیں تا کہ ان میں موجود اداروں اور شخصیات سے ٹیکس وصولی کر کے لوٹی گئی دولت کو ملک میں واپس لایا جاسکے ۔
٭بھارت کا پاناماپیپرز پر کام کرنے والی مشترکہ ٹاسک فورس کا حصہ بننے کا اعلان
پاناما لیکس کے بعد آرگنائزیشن فار اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (اوسی ای ڈی) اور کونسل آف یورپ ملٹی لیٹیرل کنویشن اینڈ ٹیکس ٹریٹیز کی جانب سے ایک مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دی گی، جس کا مقصد پاناما پیپرز میں موجود ناموں کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانا تھا۔ اس مقصد کے لیے ٹاسک فورس میں شامل ممالک کے درمیان حساس معلومات کا تبادلہ کیا گیا۔ انڈیا نے گذشتہ ماہ چوتھی جوائنٹ انٹر نیشنل ٹاسک فورس (جے آئی ٹی ایس آئی سی) میں شمولیت اختیار کی۔
بھارت کی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'چوتھی مشترکہ بین الاقوامی ٹاسک فورس کے ساتھ اشتراک آف شور کمپینوں کی آڑ میں ٹیکس بچانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے اور انہیں ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کے لیے بہت کارگر ثابت ہوگا۔'' جوائنٹ انٹرنیشنل ٹاسک فورس میں شامل تیس ممالک لا فرم موسیک فونسیکا سے تعلق رکھنے والے ٹیکس دہندگان اور ان کے مڈل مین کے بارے میں معلومات اور تجزیات کا مستقل تبادلہ کر رہے ہیں۔ بیان کے مطابق گذشتہ چھے ماہ میں 32 ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلے کی 570 سے زائد درخواستیں کی جاچکی ہیں۔ بھارت خود بھی پاناما پیپر کیسز میں درکار معلومات کے لیے مختلف ممالک اور عدالتوں سے معلومات کے حصول کی درخواست کرچکا ہے۔
جے آئی ٹی ایس آئی سی کے رکن ممالک اس کثیر فریقی معاہدے کے تحت زیادہ تیزی اور موثر طریقے سے مزید لیک ہونے والے ڈیٹا کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ اعلامیے کے مطابق بھارت مشترکہ بین الاقوامی ٹاسک فورس کے اشتراک سے پاناما پیپرز سے ملنے والے نئے اعدادوشمار اور انٹیلی جنس پر اپنی تحقیقات جاری رکھے گی۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں ٹیکس وصولی کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی جائے گی۔
٭پاناما لیکس میں شامل آئس لینڈ کے بڑے ناموں نے کئی ارب آئس لینڈک کرونا مرکزی بینک سے بیس فی صد رعایت پر خرید لیے
گذشتہ سال پاناما لیکس کے بعد سے آئس لینڈ میں کافی ہل چل پیدا ہوئی، کیوں کہ آئس لینڈ کے وزیراعظم Sigmundur Davíð Gunnlaugsson کا نام بھی ان دستاویزات میں آیا تھا۔ عوام کے پُرزور مطالبے پر وزیراعظم باؑعزت طریقے سے مستعفی ہوگئے، جب کہ مرکزی بینک نے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کی گئی رقوم کو واپس لانے کے لیے سرمایہ کاری کی ایک انوکھی اسکیم متعارف کروائی۔ اس اسکیم کے تحت مرکزی بینک نے پاناما پیپرز میں شامل آئس لینڈ کے بڑے سرمایہ کاروں کو بڑی تعداد میں آئس لینڈک کرونا (مقامی کرنسی) خریدنے پر بیس فی صد رعایت دینے کا اعلان کیا۔
سینٹرل بینک آف آئس لینڈ کے گورنر Már Guðmundssonکے مطابق اس اسکیم کو متعارف کرانے کا مقصد غیرملکی زرمبادلہ کو ملک میں لانا ہے، حکومت کی سرمایہ کاری کی اسکیم سے اب تک آئس لینڈ کے شہریوں کی جانب سے چلنے والی کمپنیوں نے بہت فائدہ اٹھا یا ہے اور اب تک 206ارب آئس لینڈ کرونا خریدے گئے ہیں۔ مقامی اخبار RÚV کے مطابق یہ اسکیم خصوصاً پاناما پیپرز میں شامل سرمایہ کاروں کے لیے متعارف کرائی گئی اور بیس فی صد رعایت پر کرنسی خریدنے والوں میں بڑی تعداد میں ایسے سرمایہ کار بھی ہیں جن کے نام پاناما پیپرز میں شامل تھے۔ ٹیکس حکام نے ایسیان سرمایہ کاروں سے ذرایع آمدنی کی تفتیش نہ کرتے ہوئے ان کی شناخت مخفی رکھی ہے۔
٭آئس لینڈ نے لوٹی گئی دولت کا نصف ارب وصول کرلیا
پاناما دستاویزات نے پاکستان سمیت دنیا کے بیش تر ممالک میں ہل چل پیدا کردی تھی، لیکن پاکستان کے برعکس دنیا کے بہت سے ممالک نے پاناما لیکس سے ملنے والے اعدادوشمار کو مثبت طریقے سے استعمال کیا۔ آئس لینڈ کے ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل ریونیو نے پاناما پیپرز سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر 16افراد سے نصف ارب آئس لینڈک کرونا ( 49لاکھ ڈالر) ٹیکس کی مد میں وصول کرلیے ہیں۔ مقامی اخبارRÚV کے مطابق ٹیکس حکام کو نہ صرف اس قابل ادائیگی ٹیکس بل کہ اس سے زیادہ رقم حاصل ہونے کی توقع بھی ہے۔
گزشتہ سال لا فرم موسیک فونیسکا سے افشا ہونے والی دستاویزات جنہیں پاناما پیپرز کا نام دیا گیا تھا، میں دنیا بھر میں آف شور اکاؤنٹس اور اثاثے رکھنے والی کمپنیوں اور شخصیات کے نام دیے گئے تھے۔ اخبار نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ حکومت نے ٹیکس نادہندگان کی معلومات حاصل کرنے کے لیے 37 ملین کرونا (ساڑھے تین لاکھ ڈالر) ادا کیے۔
ان دستاویزات کو ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ پاناما میں موسیک فونسیکا کے ہیڈکوارٹر سے لیک کی گئی ان دستاویزات کو بیچنے والے کی شناخت کبھی ظاہر نہیں ہوسکی۔ ان دستاویزات میں آئس لینڈ کے شناختی نمبر رکھنے والے 410 ٹیکس نادہندگان کے نام شامل ہیں، جن میں61آف شور کمپنیاں، 349 سیاست، فنون لطیفہ، کھیل، کاروبار اور دوسرے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے نام ہیں۔ یہ ڈیٹا ملنے کے بعد ڈائریکٹوریٹ آف ٹیکس نے اس ڈیٹا کی جزئیات تک کھنگالی، جس کے بعد اس میں سے 34ناموں پر قابل مواخذہ جرم سرزد کرنے کا شک ظاہر کرتے ہوئے عدالتوں میں بھیج دیا اور باقی 376 نام ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل ریونیو کو بھیج دیے گئے تھے۔
اخبار کے مطابق محکمۂ محصولات اب تک پانچ افراد سے 147ملین کرونا اور تین شخصیات سے 140ملین کرونا ٹیکس کی مد میں وصول کرچکا ہے، جب کہ آٹھ کیسز دو سو ملین کرونا وصول کرکے ختم کردیے گئے ہیں۔ ٹیکس حکام کے مطابق پاناما پیپرز میں شامل ناموں پر ابھی 487 ملین کرونا ( 47لاکھ ڈالر) کا ٹیکس واجب الادا ہے جو جلد ہی وصول کرلیا جائے گا۔