انصاف کا قتل اور قہر و جبر کی قضا
بس نفسا نفسی اور خودغرضی کا عالم ہے۔ دولت کی ہوس نے بصیرت اور بصارت پر غلاف چڑھادیا ہے۔
ملتان میں واقع راجا پور بستی میں ہونے والی بربریت کے حوالے سے جسٹس عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ پنچایتوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، بلاشبہ اس حقیقت سے ہر عام و خاص واقفیت رکھتا ہے لیکن افسوس حکومتی اداروں کی بے حسی اپنے عروج پر ہے، آئے دن اس قسم کے سنگین واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں، ایسی حکومتوں، پولیس اور عدالتوں کا کیا فائدہ؟ جو غریب کو تحفظ اور انصاف فراہم نہ کرسکیں۔
اور نہ ہی یہ ادارے ایسے قوانین اور اصول و ضوابط مرتب کرسکیں جس کی رو سے مجرموں کو قرارواقعی سزا دی جائے اور انھیں سرعام پھانسی پر لٹکا دیا جائے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ راجا پور بستی میں پنچایتیوں کے فیصلے نے پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھکادیا ہے، درندوں کو بھی مات کردیا، ان ظالموں کے حکم پر بے بس اور مجبور خاندان نے اپنی دو شادی شدہ بیٹیاں پیش کردیں تو ان شیطانوں نے اچھے مال کی فرمائش کردی، گویا مویشی منڈی سجی ہو، اس سانحے کے بعد کے مجرموں کی پکڑ دھکڑ ہوئی لیکن کوئی فائدہ نہیں، بہت جلدی رہا کردیے جائیں گے۔ چونکہ ان لوگوں کو پولیس کی مکمل طور پر حمایت حاصل ہوتی ہے اور حکومت بھی اپنے پیاروں کا پورا پورا ساتھ دیتی ہے۔
اسی لیے تاحال پنچایتیوں کے غیر مہذبانہ غیر انسانی فیصلے جاری ہیں، پولیس اور عدالت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف میری کتاب ''خاک میں صورتیں اور اردو شاعری میں تصور زن'' 2013 میں شایع ہوئی، میں نے انتساب جسٹس افتخار محمد چوہدری (ر) کے نام لکھا تھا کہ وہ پاکستان کی عورت کو انصاف فراہم کریں۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں، حالات جوں کے توں ہیں، مختاراں مائی کا کیس بین الاقوامی شہرت اختیار کرچکا ہے۔
وڈیروں، جاگیرداروں کی سفاکی اور پنچایت کے فیصلوں نے حوا کی بیٹی پر صبح و شام جبر و قہر کے تازیانے برسائے ہیں، پسند کی شادی جس کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی ہے اسے غیر اسلامی، غیر منطقی بنادیا ہے۔
پنچایت کے فیصلوں نے تہذیب، شرافت اور منصفی کو بٹا لگادیا ہے۔ انسانیت کے شفاف چہرے پر سیاہ داغ مل دیا ہے، ستم گروں نے اوصاف حمیدہ کا دامن سرے سے چھوڑ دیا ہے۔ شاید حکومت کا یہی خواب تھا، جب ہی پاکستان میں تعلیم پر قدغن لگادی، اسکولوں کو بند کرکے اصطبل بنادیا، تعلیم کا حصول ناممکن بنادیا گیا۔ اس لیے کہ سب ایک ہی حمام میں موجود ہیں۔ مل کر اور اپنے فائدے کے لیے انصاف کا قتل کرتے ہیں۔ ستم گری اور ظالمانہ رویے کو اپنانے میں یہ لوگ ایک دوسرے سے برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں حدیث پاکؐ ہے کہ جو نرمی سے محروم ہوا وہ سارے خیر سے محروم ہوا، لیکن خیر تو ان کے اپنے پاس ہے۔ اس لیے وہ کسی سے نہیں ڈرتے نہ عاقبت کا خوف اور نہ دنیا کی شرم۔لیکن وقت بہت بڑا منصف ہے جو اچھے اچھوں کو سبق سکھا دیتا ہے۔ اور بادشاہ سے فقیر بننے میں ذرہ برابر فرق باقی نہیں رہتا ہے۔ ماضی کے اوراق پلٹیں خود دیکھیں عیش و عشرت میں زندگی بسر کرنے والے بہادر شاہ ظفر اور دوسرے شہنشاہوں کا کیا حال ہوا۔
کس کسمپرسی میں بہادر شاہ ظفر نے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کی، حال ہی میں صدام حسین کی بے بسی اور ماضی میں شاہ ایران کے لیے زمین کا تنگ ہونا۔ عاقلوں کے لیے دانائی کے در وا کرتا ہے۔ لیکن بادشاہ وقت زمانہ حال کی ہی رنگینیوں میں گم ہوکر اپنی رعایا کے دکھ درد اور حقوق بھول جاتا ہے اس قسم کے واقعات دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب میں زیادہ رونما ہوتے ہیں جہاں عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے اور ہاریوں اور ان کے بچوں کو اپنی ملکیت تصور کیا جاتا ہے۔
حکومت بدلنے والی ہے، اب جو بھی اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو، وہ اپنے بھلے کے لیے وہ کام کرے جس کا درس انسانیت دیتی ہے۔ پاکستان کسی کی ذاتی جاگیر ہرگز نہیں ہے بلاتفریق، نسل و ذات لاکھوں مسلمانوں کے خون سے اس کی بنیاد تعمیر ہوئی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں، لیکن قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے کوے نہ کہ انڈے کھا رہے ہیں بلکہ اس قدر بااختیار ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے گھونسلوں سے نکالتے ہیں اور پیروں تلے مسل دیتے ہیں۔
زندگی کے ہر میدان میں خواہ وہ خواتین کے حقوق کی پامالی ہو یا معصوم بچوں کا اغوا اور جسمانی تشدد ہو، وڈیروں اور جاگیرداروں کی ستم گری ہو، یا چلچلاتی دھوپ کی طرح غربت کی چادر سروں پر تنی ہو۔ ان تمام معاملات کی صرف اور صرف حکومتیں ذمے دار ہوتی ہیں کہ وہ عوام کی خبر گیری سے بے خبر رہتی ہیں، اپنے بچوں کو مقتدر حضرات شہزادے، شہزادیوں کی طرح پالتے ہیں اور ان کے حقوق کی ادائیگی اور سامان تعیشات پہنچانے کے لیے عوام کے منہ سے نوالا چھین لیتے ہیں۔
بنیادی ضرورتوں سے محروم کردیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس گاؤں گوٹھ اور پسماندہ علاقوں میں دہشت گردی عروج پر ہے، ماں بیٹی اور بہن کو داؤ پر اس طرح لگایا جاتا ہے جیسے اللہ نے انھیں یہ حق ودیعت کیا ہے۔ اتنے بااختیار کہ مال و اسباب کے ساتھ انسانوں کی جانوں اور عفت کے بھی مالک بن بیٹھے ہیں اگر حکومت بالکل ایسا ہی سلوک ان کے ساتھ اسلامی تعلیمات کے مطابق کرے کہ ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور آنکھ کے بدلے آنکھ کو نکالنے کے احکامات جاری کردے اور تشدد پسندوں کو سزا کے عمل سے گزارے تو حالات بدل سکتے تھے، اور بدل سکتے ہیں لیکن وطن عزیز اور اس میں بسنے والوں کی محرومی اور غموں کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔
بس نفسا نفسی اور خودغرضی کا عالم ہے۔ دولت کی ہوس نے بصیرت اور بصارت پر غلاف چڑھادیا ہے۔ اسی لیے انھوں نے انسانوں میں تفریق پیدا کردی ہے کہ کسی کے جینے کے لیے تمام وسائل ہیں اور کسی کو سانس لینا بھی مشکل ہو۔ اہل اقتدار اور بااختیار لوگوں کو اس وقت سے ضرور ڈرنا چاہیے کہ ان کے گھر بھی ایسے ہی حالات پیدا ہوسکتے ہیں کانٹوں کو بونے والا گلاب کی کاشت کس طرح کرسکتا ہے؟
اور نہ ہی یہ ادارے ایسے قوانین اور اصول و ضوابط مرتب کرسکیں جس کی رو سے مجرموں کو قرارواقعی سزا دی جائے اور انھیں سرعام پھانسی پر لٹکا دیا جائے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ راجا پور بستی میں پنچایتیوں کے فیصلے نے پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھکادیا ہے، درندوں کو بھی مات کردیا، ان ظالموں کے حکم پر بے بس اور مجبور خاندان نے اپنی دو شادی شدہ بیٹیاں پیش کردیں تو ان شیطانوں نے اچھے مال کی فرمائش کردی، گویا مویشی منڈی سجی ہو، اس سانحے کے بعد کے مجرموں کی پکڑ دھکڑ ہوئی لیکن کوئی فائدہ نہیں، بہت جلدی رہا کردیے جائیں گے۔ چونکہ ان لوگوں کو پولیس کی مکمل طور پر حمایت حاصل ہوتی ہے اور حکومت بھی اپنے پیاروں کا پورا پورا ساتھ دیتی ہے۔
اسی لیے تاحال پنچایتیوں کے غیر مہذبانہ غیر انسانی فیصلے جاری ہیں، پولیس اور عدالت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف میری کتاب ''خاک میں صورتیں اور اردو شاعری میں تصور زن'' 2013 میں شایع ہوئی، میں نے انتساب جسٹس افتخار محمد چوہدری (ر) کے نام لکھا تھا کہ وہ پاکستان کی عورت کو انصاف فراہم کریں۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں، حالات جوں کے توں ہیں، مختاراں مائی کا کیس بین الاقوامی شہرت اختیار کرچکا ہے۔
وڈیروں، جاگیرداروں کی سفاکی اور پنچایت کے فیصلوں نے حوا کی بیٹی پر صبح و شام جبر و قہر کے تازیانے برسائے ہیں، پسند کی شادی جس کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی ہے اسے غیر اسلامی، غیر منطقی بنادیا ہے۔
پنچایت کے فیصلوں نے تہذیب، شرافت اور منصفی کو بٹا لگادیا ہے۔ انسانیت کے شفاف چہرے پر سیاہ داغ مل دیا ہے، ستم گروں نے اوصاف حمیدہ کا دامن سرے سے چھوڑ دیا ہے۔ شاید حکومت کا یہی خواب تھا، جب ہی پاکستان میں تعلیم پر قدغن لگادی، اسکولوں کو بند کرکے اصطبل بنادیا، تعلیم کا حصول ناممکن بنادیا گیا۔ اس لیے کہ سب ایک ہی حمام میں موجود ہیں۔ مل کر اور اپنے فائدے کے لیے انصاف کا قتل کرتے ہیں۔ ستم گری اور ظالمانہ رویے کو اپنانے میں یہ لوگ ایک دوسرے سے برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں حدیث پاکؐ ہے کہ جو نرمی سے محروم ہوا وہ سارے خیر سے محروم ہوا، لیکن خیر تو ان کے اپنے پاس ہے۔ اس لیے وہ کسی سے نہیں ڈرتے نہ عاقبت کا خوف اور نہ دنیا کی شرم۔لیکن وقت بہت بڑا منصف ہے جو اچھے اچھوں کو سبق سکھا دیتا ہے۔ اور بادشاہ سے فقیر بننے میں ذرہ برابر فرق باقی نہیں رہتا ہے۔ ماضی کے اوراق پلٹیں خود دیکھیں عیش و عشرت میں زندگی بسر کرنے والے بہادر شاہ ظفر اور دوسرے شہنشاہوں کا کیا حال ہوا۔
کس کسمپرسی میں بہادر شاہ ظفر نے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کی، حال ہی میں صدام حسین کی بے بسی اور ماضی میں شاہ ایران کے لیے زمین کا تنگ ہونا۔ عاقلوں کے لیے دانائی کے در وا کرتا ہے۔ لیکن بادشاہ وقت زمانہ حال کی ہی رنگینیوں میں گم ہوکر اپنی رعایا کے دکھ درد اور حقوق بھول جاتا ہے اس قسم کے واقعات دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب میں زیادہ رونما ہوتے ہیں جہاں عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے اور ہاریوں اور ان کے بچوں کو اپنی ملکیت تصور کیا جاتا ہے۔
حکومت بدلنے والی ہے، اب جو بھی اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو، وہ اپنے بھلے کے لیے وہ کام کرے جس کا درس انسانیت دیتی ہے۔ پاکستان کسی کی ذاتی جاگیر ہرگز نہیں ہے بلاتفریق، نسل و ذات لاکھوں مسلمانوں کے خون سے اس کی بنیاد تعمیر ہوئی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں، لیکن قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے کوے نہ کہ انڈے کھا رہے ہیں بلکہ اس قدر بااختیار ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے گھونسلوں سے نکالتے ہیں اور پیروں تلے مسل دیتے ہیں۔
زندگی کے ہر میدان میں خواہ وہ خواتین کے حقوق کی پامالی ہو یا معصوم بچوں کا اغوا اور جسمانی تشدد ہو، وڈیروں اور جاگیرداروں کی ستم گری ہو، یا چلچلاتی دھوپ کی طرح غربت کی چادر سروں پر تنی ہو۔ ان تمام معاملات کی صرف اور صرف حکومتیں ذمے دار ہوتی ہیں کہ وہ عوام کی خبر گیری سے بے خبر رہتی ہیں، اپنے بچوں کو مقتدر حضرات شہزادے، شہزادیوں کی طرح پالتے ہیں اور ان کے حقوق کی ادائیگی اور سامان تعیشات پہنچانے کے لیے عوام کے منہ سے نوالا چھین لیتے ہیں۔
بنیادی ضرورتوں سے محروم کردیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس گاؤں گوٹھ اور پسماندہ علاقوں میں دہشت گردی عروج پر ہے، ماں بیٹی اور بہن کو داؤ پر اس طرح لگایا جاتا ہے جیسے اللہ نے انھیں یہ حق ودیعت کیا ہے۔ اتنے بااختیار کہ مال و اسباب کے ساتھ انسانوں کی جانوں اور عفت کے بھی مالک بن بیٹھے ہیں اگر حکومت بالکل ایسا ہی سلوک ان کے ساتھ اسلامی تعلیمات کے مطابق کرے کہ ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور آنکھ کے بدلے آنکھ کو نکالنے کے احکامات جاری کردے اور تشدد پسندوں کو سزا کے عمل سے گزارے تو حالات بدل سکتے تھے، اور بدل سکتے ہیں لیکن وطن عزیز اور اس میں بسنے والوں کی محرومی اور غموں کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔
بس نفسا نفسی اور خودغرضی کا عالم ہے۔ دولت کی ہوس نے بصیرت اور بصارت پر غلاف چڑھادیا ہے۔ اسی لیے انھوں نے انسانوں میں تفریق پیدا کردی ہے کہ کسی کے جینے کے لیے تمام وسائل ہیں اور کسی کو سانس لینا بھی مشکل ہو۔ اہل اقتدار اور بااختیار لوگوں کو اس وقت سے ضرور ڈرنا چاہیے کہ ان کے گھر بھی ایسے ہی حالات پیدا ہوسکتے ہیں کانٹوں کو بونے والا گلاب کی کاشت کس طرح کرسکتا ہے؟