منیر حسین جسے ہم نے بھلادیا
میرا مشاہدہ ہے کہ ان کے دفتری ماحول نے کبھی بے لطفی اور ویرانیٔ دل کا منظر پیش نہیں کیا
منیر حسین یاد توبہت آئے مگر آنکھیں اشکبار ہیں کہ کرکٹ کی اردو کمنٹری کے اس بانی کو ہم نے کس بے رحمی کے ساتھ بھلا دیا، یوں لگتا ہے جیسے اس شخص نے کرکٹ کی کوئی خدمت نہیں کی ، کراچی کی کرکٹ نرسری کو پروان چڑھانے میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا، کے سی سی اے کی تنظیم اور ملک کے سپراسٹار کرکٹرز کو آگے لانے ، کرکٹ بورڈ کے پرخچے اڑانے میں ان کے جریدہ ''اخبار وطن'' کی کوئی کنٹری بیوشن نہیں تھی ۔
یاد فراموشی کے اس بے درد زمانے میں اس جونیئر صحافی کے لیے سانس لینا کس قدر دشوار ہوگا جس نے اس بے مثال شخص کے تصور سے رعنائی خیال کا ایک دلکش گلشن سجائے رکھا ہو ۔ منیر حسین میرے لیے ایک شجر سایہ دار تھے، ہم نوجوان اسپورٹس رپورٹرز ان کی رہنمائی ، شاگردی اور ادارے سے اس طرح فیضیاب ہوئے کہ اپنے ساتھ دو درجن ٹیلنٹڈ نوجوان کرکٹ رائٹرز کی ایک ایسی جواں سال کھیپ دیکھی جو آج ٹی وی چینلز، اردواور انگریزی اخبارات کے اسپورٹس پیج اور ایڈیشنز میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی ہے۔
منیر بھائی صرف اردو کرکٹ کے بانی اور معروف کمنٹیٹر ہی نہ تھے بلکہ ایک انسان دوست ناصح مشفق بھی تھے، ان کے عجز و انکسار اور ہمدردی کے ان گنت نظارے ان آنکھوں نے دیکھے، کتنی اہم شخصیات کو ان کے دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے اترتے دیکھا، ابھی ملک کے نامور فاسٹ بولر اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان عمران خان مل کر گئے تو تھوڑی دیر بعد اداکار ندیم تشریف لائے، کبھی ہدایتکاروں کی آمد رہی تو کبھی فلم ڈسٹری بیوٹرز اور نمائش کنندگان کی محفلیں سجیں، منیر حسین از اول تا آخر مجلسی آدمی تھے، دفتر کا ماحول کبھی خشک ، بیزاریت سے معمور نہیں رہا ، ایک چہل پہل رہتی ، وہ کراچی میں فلمی اشتہارات کی اولین پبلسٹی ایجنسی کے بھی مالک تھے اردو اور انگریزی کے دو بڑے اخباروں کے لیے فلمی اشتہارات تیار کرتے اور نقد پیمنٹ پر وہ چھاپے جاتے تھے۔
میرا مشاہدہ ہے کہ ان کے دفتری ماحول نے کبھی بے لطفی اور ویرانیٔ دل کا منظر پیش نہیں کیا، منیر بھائی کی خوش گپیوں سے پورا کمرہ زعفران زار بنتا تھا، کبھی اداکارہ شبنم، محمد علی ، اظہار قاضی اور طلعت حسین آرہے ہیں تو کبھی کے سی سی کے منتظمین کا جمگٹھا لگا ہوا ہے، عمران خان سے لے کرآصف اقبال، مشتاق محمد،انتخاب عالم، وسیم راجہ ، رمیز راجہ ، وسیم باری ، وسیم اکرم، عبدالقادر، اقبال قاسم ، جاوید میانداد ، سکندر بخت، مدثر نذر اور سیکڑوں نوجوان کرکٹرز منیر بھائی کی رہنمائی اور اخبار وطن کی محبت میں ان سے دفتر آکر ملتے، ان سے فلم ڈسٹری بیوٹرز کے گہرے مراسم تھے۔
نثار مراد اور جے سی آنند کے وہ بہت ہی اچھے دوستوں میں شمار ہوتے بلکہ جے سی آنند کے کئی ایسے واقعات منیر بھائی نے سنائے کہ جنہیں بار بار سن کر بھی مجھ سمیت سید محمد صوفی ،احسان قریشی، رشید شکور، ساجد علی ساجد ، عالیہ رشید ، مشتاق احمد اور سلیم خالق کبھی بور نہ ہوتے۔ انھوں نے اردو کمنٹری کو دنیا میں پھیلانے کے لیے قومی ٹیم کے ہمراہ لاتعداد دورے کیے، کیری پیکر کے زمانے میں ان کی دوستی کیری پیکر سیریز کے منتظم اعلیٰ لنٹن ٹیلر سے ہوگئی، وہ منیر بھائی کے حسن اخلاق سے بہت متاثر ہوئے، اسی طرح ہاکی ٹیم کے لاہور و دیگر شہروں کے اسٹارز جب بھی کراچی آتے ان کا آخری اسٹیشن منیرصاحب کا دفتر ہوا کرتا تھا۔
اصلاح الدین منیر بھائی کے عقیدت مند تھے، اختر رسول اور ان کے والد چوہدری غلام رسول منیر حسین کو'' اپنا پتر'' کہتے تھے، ایک بار ایسا ہوا کہ کہ ایک اخبار مالک کے صاحبزادہ کو ایچیسن کالج میں داخلہ سے چوہدری غلام رسول نے انکار کردیا تو منیر بھائی نے لاہور جاکر ان کو منالیا۔ جس دن کمنٹیٹر افتخار احمد، طارق راز، چشتی مجاہد، قمر احمد آف لندن اخبار وطن کے دفتر میں جمع ہوتے تو اس روز منیر بھائی میزبانی کے سارے ریکارڈ توڑ دیتے، ان کی دوست نوازی ان پر ہی ختم تھی ۔ وہ پی آر کے بادشاہ تھے، انھوں نے جنرل ضیا ء الحق کوبھی شیشے میں اتار لیا تھا۔ وہ اخبار وطن کے دلدادہ نکلے۔
جب شارجہ کے ریگستان کو عبدالرحمن بخاطر نے شارجہ کرکٹ کا گلستان بنا دیا اور جہاں میاں داد نے چھکا لگا کر شارجہ کرکٹ میلے کو عالمگیر شہرت دلائی تو بخاطر جب کراچی آتے تو آصف اقبال کے ہمراہ منیر صاحب سے ضرور ملتے،کبھی کدورت دل میں نہیں رکھی۔ ماہنامہ ''کرکٹر '' انگریزی زبان میں ریاض احمد منصوری کا مقبول جریدہ تھا اور اخبار وطن اس کے بعد نکلنے والا اردو رسالہ ۔ دونوں کے مزاج میں فرق تھا۔ منیر حسین اور منصوری میں love & Hate کا دلچسپ مقابلہ رہتا تھا،دونوں میں رسالے نکالنے کی مسابقت عروج پر تھی۔
منصوری نے معلوماتی اور خوبصورت کرکٹ اور فلمی رسالہ نکالا، ان کے کریڈٹ پر روزنامہ اور دیگر مطبوعات بھی ہیں، ٹی وی کی مایہ ناز رائٹر حسینہ معین ''فلم ٹائمز'' کی مدیرہ تھیں، مگر اپنے ماہنامہ ''فلم ایشیا'' میں منیر بھائی نے حسینہ معین کا مکمل انٹرویو شائع کیا اور وہ انٹرویو عالیہ رشید نے لیا، حسینہ معین کی فوٹو گرافر افضل حسین کے ذریعے ٹرانسپیرنسیز بنانے کے لیے عالیہ انہیں ساحل سمندر پر لے گئیں، جب انٹرویو چھپا تو حسینہ نے مجھے فون کرتے ہوئے کہا کہ'' اس لڑکی نے تو مجھے ماڈل گرل بنا کر چھوڑا۔''
ریاض منصوری خود بھی اس انٹرویو پر حیران ہوئے اور انھوں نے شکریہ کا فون بھی منیر حسین کو کیا۔ یہ اعتراف بھی منیر بھائی نے کئی بار کیا کہ وہ کرکٹ کا اچھا اور مقبول رسالہ نکالتے ضرور ہیں لیکن منصوری کے مقابلہ میں ، میں ایک اچھا منتظم نہیں ہوں ، ریاض منصوری مجھ سے بہتر منتظم ہیں۔ ''ویمنز اون''Womens Own ان کا انتہائی حسین جریدہ تھا جس کی ایڈیٹر ثمینہ جعفری تھیں جنھوں نے بعد میں ''گلیمر''Glamour جیسا لاجواب اور تحیر خیز رسالہ شائع کیا مگر اسے جاری نہ رکھ سکے۔
اقبال منیر اس کے روح رواں تھے۔منیر حسین یادوں کی انسائکلوپیڈیا تھے۔ ان کا احسان صرف یہ نہیں کہ انھوں نے عمر قریشی جیسے باکمال کمنٹیٹر کو یہ کہہ کر حیران کردیا تھا کہ وہ اردو میں کمنٹری کا ارادہ رکھتے ہیں ، عمر قریشی کی قیامت خیز انگریزی اور دریا کی سی روانی گفتار ، وہ بے اختیار ہنس دیے ، منیر بھائی کہنے لگے کہ استاد ، میں اس مشن پر قائم ہوں ایک دن میری آواز آپ ضرور سنیں گے، کیا عظیم اور وسیع الظرف لوگ تھے ،کہنے لگے منیر پھر سناؤ ، وہ ایل بی ڈبلیو ہوگئے، سلپ میں اس کا کیچ بڑا ڈیفیکلٹ تھا ، اس کو اردو میں کس طرح کہو گے، منیر بھائی کہنے لگے کہ میرے ترجمے اور کچھ دیر کی کمنٹری پر جو ریڈیو پاکستان والوں نے تجربہ کے طور پر سنائی سب رطب اللسان ہوگئے، ارے واہ کیا کہنے۔ منیر بھائی۔ یوں کرکٹ کی اردو کمنٹری منیر حسین کا ون مین مشن بنتی چلی گئی اور پھر برسوں ان کی دلفریب آواز اور منفرد انداز ادائیگی نے شائقین کرکٹ کے دل موہ لیے۔
حقیقت یہ ہے کہ منیر حسین کی شخصیت ہمہ جہتی تھی، وہ ایک بڑے اخبار کے برسوں فیچر رائٹر رہے، فٹبالر کی مدد کرنے میں سب سے آگے تھے، کپتان تراب علی کی دو بار مدد کی، بڑے اخبار کا ہفتہ وار اسپورٹس ایڈیشن ان کے مضمون اور فیچر کے بغیر کبھی چھپا ہی نہیں، مگر 29جولائی کو جب میں نے منیر حسین کے حوالے سے کوئی یادگاری خبر، ان کے بارے میں کوئی مضمون یا ان کی کوئی تصویر ڈھونڈنے کی کوشش کی تو مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا، مجھے صدمہ ہوا، یقین مانیں میں ان کے گھرانے ، خاص طور پر بھابھی صاحبہ، اختر منیر، ان کی صاحبزدایوں صبا اور ثمینہ کی نظروں میں گر گیا ہوں۔
جس شخص نے بے نام اور بے سمت کرکٹرز کو ہیرو بنایا،ان کے قد آدم پوسٹرز چھاپے،ان کو گھر گھر سیلیبریٹی بناکر داخل کروایا ، وہ منیر حسین پانی پر لکھا بنا دیے گئے۔ اس طرح تو کوئی کسی کو فراموش نہیں کرتا۔ اس نے ہماری ناز برداریاں کیں، ہمیں عزت دی، خود پیشہ ور صحافی نہیں تھے، مینیجنگ ایڈیٹر تھے مگر ہم نوواردان صحافت کو مفید مشورے دیے، ہماری تربیت کی۔ افسوس کبھی اس بات کی توقع نہ تھی کہ شہر قائد کے کرکٹ لوورز اتنے ستم گر ہوں گے کہ اپنے محسن کو دل سے بھلا دیں گے۔