نقصان میں نفع اور تکلیف میں راحت
آوٹ سائیڈر یا شاملات سمجھ لیجیے، کہ جس کا جو جی چاہیے اس میں لا کر پھینک سکتا ہے۔
کافی پرانی، تقریباً ستر کی دہائی میں، ایک پاکستانی فلم چلی تھی، معلوم نہیں اردو کی تھی کیونکہ ہم نے فلم نہیں بلکہ اس کے اشتہار دیکھے تھے نام تھا۔
''اف اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے''
یا د اس لیے آ رہی ہے کہ آج کل ہماری حالت کچھ ایسی ہی ہے ایک نہایت ہی نازک غلط مقام پر ہمیں خارش کا عارضہ لاحق ہے۔ غلط مقام سے کچھ ایسا ویسا غلط سلط سوچنے کی غلطی مت کیجیے ہمارا اشارہ کانوں کی طرف ہے ''غلط مقام'' یوں کہ یہ ہے ہمارے نام لیکن استعمال اس کا دوسرے کرتے ہیں بلکہ دوسروں کے استعمال ہی کے لیے ہمیں چپکائے گئے۔ وہ کس بزرگ دانا دانشور نے کہا ہے ''نام'' ایک ایسی چیز ہے جو ہوتی تو ہماری ہے لیکن استعمال دوسرے کرتے ہیں۔ وہ بزرگ شاید بھول گئے تھے کہ نام کے علاوہ کچھ اور بھی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ہماری ہوتے ہوئے دوسروں کے استعمال میں رہتی ہیں۔ ان ہی چیزوں میں کم بخت کان بھی شامل ہیں۔ جو ویسے بھی جسم کے حدود اربعہ سے ''باہر'' واقع ہوتے ہیں۔
آوٹ سائیڈر یا شاملات سمجھ لیجیے، کہ جس کا جو جی چاہیے اس میں لا کر پھینک سکتا ہے۔ ایک طرح شہر کا کوڑادان بھی سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا بھر کی الم غلم او فضول چیزیں اس میں پھینکی جا سکتی ہیں۔ حتیٰ کہ کتوں، بلیوں، مرغیوں اور گدھوں گھوڑوں کی لاشیں بھی ڈال دی جاتی ہیں۔ زندہ گدھے بھی اس کے اوپر جی بھر کر ''لوٹ'' سکتے ہیں، اور کتے بلیاں چوہے وغیرہ بھی یہاں رزق حلال یا مردار تلاش کرتے ہیں۔
اپنی کانفرنس اور سیمینار منعقد کر سکتے ہیں یا جلسے اور مشاعرے برپا کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اس کا کوئی ایسا دروازہ بھی نہیں جو بند کیا جا سکے اور نہ ہی اس کے ارد گرد کوئی چار دیواری یا خاردار تار لگائی جا سکتی ہے۔ اور یہی بات اسے شاملات دیہہ ثابت کرتی ہے کہ کوئی کتنا بھی جتن کرے اپنے کان بند نہیں کر سکتا ہے۔ اپنی باقی کی ملکیتی چیزیں جیسے آنکھیں، منہ، ناک کچھ بھی بند کر سکتا ہے لیکن کان؟ کوئی ہزار کوشش بھی کیوں نہ کریں بند نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی اس کے گیٹ پر سیکیورٹی گارڈ وغیرہ تعینات کر سکتا ہے کہ ان کا کوئی دروازہ ہی نہیں ہوتا ہے
ہر کہ خواہد گوبیا و ہرکہ خواہد گو بہ گو
کسیر و ناز وحاحب و در بہ درین درگاہ نیست
ذرا سوچیے کہ اگر ایسے مقام پر خارش کا عارضہ لاحق ہو جائے توکیا حالت ہو سکتی ہے۔ حتیٰ سٹرک پر مرمت کا کام بہتے ہوئے دریا پر بند باندھنے کا کام اور اوپن ہارٹ سرجری کا کام سمجھ لیجیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آخر کار کانوں کو انفکشن کا مرض لاحق ہوگیا، علاج کے معاملے میں بھی وہی دشورایاں آئیں کہ دوائیں تو میسر تھیں لیکن پرہیز کیسے کریں؟ جب کہ علاج سے ''پرہیز'' کو بہتر مانا گیا ہے۔ خارش کو مٹانے کے ہم تیلیاں وغیرہ استعمال کرنے پر مجبور تھے۔ چنانچہ وہی ہوگیا جو ہونا تھا۔ کانوں میں زخم اور پھر سوجن ہوگئی، جو بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ کان اپنے کام یعنی سماعت سے جاتے رہے۔
اصل میں بُرا ہو ہماری شکی شکی طبیعت کا کہ جب ڈاکٹروں اور دوسرے تمام ناصحوں نے ہمیں کانوں میں کچھ ڈالنے سے منع کیا تو ہمیں ایسے لگا جیسے یہ لوگ ہمیں ''لیڈر'' بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔ کیونکہ لیڈری کی اولین اور سب سے زیادہ بڑی صنعت یہی تو ہوتی ہے کہ کچھ بھی نہ سنا جائے اور صرف بولا جائے۔ یعنی کانوں میں کچھ بھی نہ ڈالنا حتیٰ کہ آس پاس کسی جو کو بھی رینگنے نہ دیا جائے۔ بلکہ آہستہ آہستہ ایک ''خان'' کی طرح اس مقام پر پہنچایا جائے جہاں آدمی خود کی بھی سننا بند کر دیتا ہے۔
معاف کیجیے خان صاحب سے ہمارا مطلب عمران خان سے نہیں بلکہ مسلمان خان سے ہے جو ایک بار فیصلہ کرنے کے بعد خود بھی نہیں سنتا تھا۔ عمران خان تو فی الحال اس مرحلے میں ہیں کہ سب کی سنتا ہے سوائے اپنے کے۔ خاص طور پر جب کوئی ان کی وزارت عظمیٰ پر کچھ کہے اور یہ شک ہمارا بالکل غلط نکلا ان کا ارادہ ہمیں لیڈر بنانے کا بالکل بھی نہ تھا وہ بچارے تو پہلے ہی لیڈروں کی کثرت کا شکار تھے یعنی
تابِ نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جو حیران ہوں گے
حیران کے لفظ کو خاص توجہ سے دیکھیے۔ یہ واقعی ''حیران'' ہے عمران یا سلمان نہیں ہے، اور اب ہم اس بد پرہیزی کی یہ سزا بھگت رہے ہیں۔ جس بات سے ہم ڈر رہے تھے وہی ہو گیا ہے کہ کان مکمل طور پر لیڈرانہ ہو گئے ہیں اور ہمیں کچھ بھی سنائی نہیں دیتا۔ لیکن رجائیت، خوش فہمی اور امید پرستی کا تقاضا ہے کہ انسان بری سے بری حالت میں بھی کوئی نہ کوئی امید کی کرن ڈھونڈ لیتا ہے، جیسا کہ پاکستان کے سارے لوگ صرف امید کے سہارے جی رہے ہیں ورنہ بظاہر تو جینے کی کوئی بھی وجہ اور پھر اس حالت میں دکھائی نہیں دیتی۔ ہم نے بھی اپنے کانوں کے اس حشر نشر میں اپنے لیے جینے کا یہ سہارا ڈھونڈ لیا ہے کہ چلو یہ فائدہ تو ہوا کہ اب ہم لیڈروں، اینکروں، ریڈیو جوکروں وغیرہ کے ''اتیاچار'' سے تو محفوظ اور مامون ہو گئے۔
بڑے آرام سے ٹی وی دیکھتے ہیں تو یہ فرض کر لیتے ہیں کہ یہ لوگ ''چیونگم'' چبا رہے ہیں۔ اس دن تو ہم نے رب العزت کے کروڑوں شکر ادا کیے جب ایک شاعر ہمیں پکڑ کر ایک ہوٹل لے گئے اور خوب مرغن سی چائے پلا کر یہ سمجھے کہ ہم نے اس کی غزلیں اور نظمیں سن لی ہیں حالانکہ ڈیڑھ گھنٹے تک ہم اسے صرف چیونگم چباتے دیکھتے رہے۔ اسے کہتے ہیں زحمت میں راحت۔ ارادہ ہے وہ تمام شاعر اور مقالہ نگار جو ہم سے ناراض ہو چکے ہیں ان سب کو سننے کی لالچ دے کر منا لیں۔
''اف اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے''
یا د اس لیے آ رہی ہے کہ آج کل ہماری حالت کچھ ایسی ہی ہے ایک نہایت ہی نازک غلط مقام پر ہمیں خارش کا عارضہ لاحق ہے۔ غلط مقام سے کچھ ایسا ویسا غلط سلط سوچنے کی غلطی مت کیجیے ہمارا اشارہ کانوں کی طرف ہے ''غلط مقام'' یوں کہ یہ ہے ہمارے نام لیکن استعمال اس کا دوسرے کرتے ہیں بلکہ دوسروں کے استعمال ہی کے لیے ہمیں چپکائے گئے۔ وہ کس بزرگ دانا دانشور نے کہا ہے ''نام'' ایک ایسی چیز ہے جو ہوتی تو ہماری ہے لیکن استعمال دوسرے کرتے ہیں۔ وہ بزرگ شاید بھول گئے تھے کہ نام کے علاوہ کچھ اور بھی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ہماری ہوتے ہوئے دوسروں کے استعمال میں رہتی ہیں۔ ان ہی چیزوں میں کم بخت کان بھی شامل ہیں۔ جو ویسے بھی جسم کے حدود اربعہ سے ''باہر'' واقع ہوتے ہیں۔
آوٹ سائیڈر یا شاملات سمجھ لیجیے، کہ جس کا جو جی چاہیے اس میں لا کر پھینک سکتا ہے۔ ایک طرح شہر کا کوڑادان بھی سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا بھر کی الم غلم او فضول چیزیں اس میں پھینکی جا سکتی ہیں۔ حتیٰ کہ کتوں، بلیوں، مرغیوں اور گدھوں گھوڑوں کی لاشیں بھی ڈال دی جاتی ہیں۔ زندہ گدھے بھی اس کے اوپر جی بھر کر ''لوٹ'' سکتے ہیں، اور کتے بلیاں چوہے وغیرہ بھی یہاں رزق حلال یا مردار تلاش کرتے ہیں۔
اپنی کانفرنس اور سیمینار منعقد کر سکتے ہیں یا جلسے اور مشاعرے برپا کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اس کا کوئی ایسا دروازہ بھی نہیں جو بند کیا جا سکے اور نہ ہی اس کے ارد گرد کوئی چار دیواری یا خاردار تار لگائی جا سکتی ہے۔ اور یہی بات اسے شاملات دیہہ ثابت کرتی ہے کہ کوئی کتنا بھی جتن کرے اپنے کان بند نہیں کر سکتا ہے۔ اپنی باقی کی ملکیتی چیزیں جیسے آنکھیں، منہ، ناک کچھ بھی بند کر سکتا ہے لیکن کان؟ کوئی ہزار کوشش بھی کیوں نہ کریں بند نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی اس کے گیٹ پر سیکیورٹی گارڈ وغیرہ تعینات کر سکتا ہے کہ ان کا کوئی دروازہ ہی نہیں ہوتا ہے
ہر کہ خواہد گوبیا و ہرکہ خواہد گو بہ گو
کسیر و ناز وحاحب و در بہ درین درگاہ نیست
ذرا سوچیے کہ اگر ایسے مقام پر خارش کا عارضہ لاحق ہو جائے توکیا حالت ہو سکتی ہے۔ حتیٰ سٹرک پر مرمت کا کام بہتے ہوئے دریا پر بند باندھنے کا کام اور اوپن ہارٹ سرجری کا کام سمجھ لیجیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آخر کار کانوں کو انفکشن کا مرض لاحق ہوگیا، علاج کے معاملے میں بھی وہی دشورایاں آئیں کہ دوائیں تو میسر تھیں لیکن پرہیز کیسے کریں؟ جب کہ علاج سے ''پرہیز'' کو بہتر مانا گیا ہے۔ خارش کو مٹانے کے ہم تیلیاں وغیرہ استعمال کرنے پر مجبور تھے۔ چنانچہ وہی ہوگیا جو ہونا تھا۔ کانوں میں زخم اور پھر سوجن ہوگئی، جو بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ کان اپنے کام یعنی سماعت سے جاتے رہے۔
اصل میں بُرا ہو ہماری شکی شکی طبیعت کا کہ جب ڈاکٹروں اور دوسرے تمام ناصحوں نے ہمیں کانوں میں کچھ ڈالنے سے منع کیا تو ہمیں ایسے لگا جیسے یہ لوگ ہمیں ''لیڈر'' بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔ کیونکہ لیڈری کی اولین اور سب سے زیادہ بڑی صنعت یہی تو ہوتی ہے کہ کچھ بھی نہ سنا جائے اور صرف بولا جائے۔ یعنی کانوں میں کچھ بھی نہ ڈالنا حتیٰ کہ آس پاس کسی جو کو بھی رینگنے نہ دیا جائے۔ بلکہ آہستہ آہستہ ایک ''خان'' کی طرح اس مقام پر پہنچایا جائے جہاں آدمی خود کی بھی سننا بند کر دیتا ہے۔
معاف کیجیے خان صاحب سے ہمارا مطلب عمران خان سے نہیں بلکہ مسلمان خان سے ہے جو ایک بار فیصلہ کرنے کے بعد خود بھی نہیں سنتا تھا۔ عمران خان تو فی الحال اس مرحلے میں ہیں کہ سب کی سنتا ہے سوائے اپنے کے۔ خاص طور پر جب کوئی ان کی وزارت عظمیٰ پر کچھ کہے اور یہ شک ہمارا بالکل غلط نکلا ان کا ارادہ ہمیں لیڈر بنانے کا بالکل بھی نہ تھا وہ بچارے تو پہلے ہی لیڈروں کی کثرت کا شکار تھے یعنی
تابِ نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر جو حیران ہوں گے
حیران کے لفظ کو خاص توجہ سے دیکھیے۔ یہ واقعی ''حیران'' ہے عمران یا سلمان نہیں ہے، اور اب ہم اس بد پرہیزی کی یہ سزا بھگت رہے ہیں۔ جس بات سے ہم ڈر رہے تھے وہی ہو گیا ہے کہ کان مکمل طور پر لیڈرانہ ہو گئے ہیں اور ہمیں کچھ بھی سنائی نہیں دیتا۔ لیکن رجائیت، خوش فہمی اور امید پرستی کا تقاضا ہے کہ انسان بری سے بری حالت میں بھی کوئی نہ کوئی امید کی کرن ڈھونڈ لیتا ہے، جیسا کہ پاکستان کے سارے لوگ صرف امید کے سہارے جی رہے ہیں ورنہ بظاہر تو جینے کی کوئی بھی وجہ اور پھر اس حالت میں دکھائی نہیں دیتی۔ ہم نے بھی اپنے کانوں کے اس حشر نشر میں اپنے لیے جینے کا یہ سہارا ڈھونڈ لیا ہے کہ چلو یہ فائدہ تو ہوا کہ اب ہم لیڈروں، اینکروں، ریڈیو جوکروں وغیرہ کے ''اتیاچار'' سے تو محفوظ اور مامون ہو گئے۔
بڑے آرام سے ٹی وی دیکھتے ہیں تو یہ فرض کر لیتے ہیں کہ یہ لوگ ''چیونگم'' چبا رہے ہیں۔ اس دن تو ہم نے رب العزت کے کروڑوں شکر ادا کیے جب ایک شاعر ہمیں پکڑ کر ایک ہوٹل لے گئے اور خوب مرغن سی چائے پلا کر یہ سمجھے کہ ہم نے اس کی غزلیں اور نظمیں سن لی ہیں حالانکہ ڈیڑھ گھنٹے تک ہم اسے صرف چیونگم چباتے دیکھتے رہے۔ اسے کہتے ہیں زحمت میں راحت۔ ارادہ ہے وہ تمام شاعر اور مقالہ نگار جو ہم سے ناراض ہو چکے ہیں ان سب کو سننے کی لالچ دے کر منا لیں۔