نسخہ کیمیا
صرف قوم ہی نہیں، ایک فرد بھی کسی ایسی ننگ و بھوک کا شکار نہ ہو جو علم بغاوت لے کر کھڑا ہوسکے
SRINAGAR:
انسانی زندگی میں جو کچھ رونما ہوتا ہے وہ اچھا ہو یا برا، دونوں صورتوں میں ماحول میں تبدیلیاں ناگزیر ہوجاتی ہیں، جیسا کہ تازہ ترین سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے، جو ایک فرد اور خاندان کے خلاف نہیں، بلکہ اس طبقے کے خلاف ہے جس کی عاقبت نااندیشیوں سے متوسط طبقہ پسماندگی کی طرف اور پسماندگی میں زندگی گزارنے والے جھٹ پٹے سے بالکل ہی بھوک و افلاس کے اندھیرے میں دھکیلے جاتے رہے ہیں، اور یہ فیصلہ ایسے ہی مراعات یافتہ طبقے کے لیے نوشتہ دیوار بھی ہے۔
فیصلہ اگر فرد اور خاندان تک ہی محدود رہا تو ایسے اور بہت سے موجود ہیں۔ اس تاریخی فیصلے کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ایسی قانون سازی بھی ازحد ضروری ہے جو مراعات گھسیٹنے والوں کے ہاتھ باندھ سکے۔ ماضی میں جو ادارے اس کے تدارک کے لیے بنائے گئے، ان میں بھی مراعات یافتہ طبقے کے حمایت یافتہ ہونے کے سبب انصاف نہ ہوسکا۔ سوچنا، محسوس کرنا اور اس پر ردعمل دینا یا اظہار کرنا ایک زندہ فکر کی فطری علامت ہے۔
میرا گزشتہ کالم اختیاری ہجرت کے حوالے سے تھا اور اس میں جو نکات پیش کیے گئے تھے، اسی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے چند غور طلب پہلوؤں کی نشاندہی کرنا چاہتی ہوں، جو پاکستان کو مستحکم رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہیں، اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ عوام کے ساتھ منصفانہ طریقہ کار اختیار کیا جائے، چاہے وہ کسی بھی قومیت، مذہب، فرقے اور صوبے سے تعلق رکھتے ہوں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ بنیادی طور پر پاکستان کے حدود اربع میں بسنے والا ہر فرد پاکستانی ہے، لیکن اس کی اپنے وطن کے اندر ایک ثانوی پہچان بھی بنی ہوئی ہے، جیسے پنجاب کا رہنے والا پنجابی، خیبرپختونخوا میں رہنے والا پختون یا پٹھان، بلوچستان میں رہنے والا بلوچ اور سندھ کا باشندہ سندھی کہلاتا ہے، لیکن تقسیم برصغیر کے بعد ہجرت کرکے آنے والوں کی ایک بہت بڑی آبادی جو بیشتر سندھ میں آکر آباد ہوئی، اس نے اپنی شناخت، کیونکہ وہ یہاں پیدا نہیں ہوئے تھے تو بانی پاکستان کے کہے ہوئے وہ تاریخی الفاظ جو انھوں نے پاکستان بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ادا کیے تھے کہ ''آپ پاکستانی ہیں'' ان کے یہ الفاظ ہجرت کرکے آنے والوں کے لیے ایک نعمت عظیم تھے۔
سو انھوں نے قائد کے دیے ہوئے نام کو ہی اپنے لیے فوقیت دی اور خود کو صرف پاکستانی کہلوانے لگے۔ لیکن شومیٔ تقدیر، مہاجروں کے ساتھ تسلسل سے کچھ حالات ایسے رونما ہوتے چلے گئے کہ جس نے پہلے بحیثیت فرد ان کے ذہن میں اور پھر اجتماعی طور پر اپنے وجود کو قائم رکھنے کے تصور کے لیے اپنی پہچان کی ضرورت کو محسوس کیا، جو اپنی ملازمتوں اور آنے والی نسلوں کی تعلیم سے متعلق تھی اور جب بتدریج معاملات مزید بگڑتے نظر آنے لگے، یہاں تک کہ بات زندگی کی بقا تک جا پہنچی کہ ایک سوچ میں کون ہوں؟ پہلے فرد میں، پھر فرد سے خاندان اور پھر خاندانوں کو مجتمع کرکے اپنی پہچان کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے۔
1964میں ایک معرکۃ الآرا الیکشن جس میں ایک آمر کو فتح حاصل ہوئی اور مدمقابل مادر ملت کو شکست۔ اس جیت کی خوشی کو منانے کے لیے ایسے علاقوں کا انتخاب کیا گیا، جہاں مہاجروں کی بستیاں آباد تھیں، خاص طور پر لیاقت آباد اور ناظم آباد کی کشادہ شاہراہوں پر، جہاں دونوں جانب گنجان آبادیاں ہیں۔
ان جشن منانے والوں نے خوشی میں ہوائی فائرنگ کے نام پر بندوقوں کے دہانے ایسے کھولے کہ سڑک کے اطراف کھڑے متعدد افراد کی جانیں تلف ہوئیں اور پھر ان آگ اگلتی بندوقوں کے رخ بستیوں کی جانب کردیے۔ اس کے بعد خوف کی ایک ایسی لہر دوڑ گئی جس میں مقامی آبادیوں کے لوگ حفظ ماتقدم کی خاطر اور اپنی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے رات رات بھر جاگ کر ایک دوسرے کو چوکنا بھی رکھ رہے تھے، ایسے میں ذہن میں کلبلاتی ہوئی فکر خود ان سے سوال کررہی تھی کہ اگر ہم محب وطن پاکستانی ہیں تو کس جرم کی سزا میں ہم پر گولیاں برسائی جارہی ہیں؟ اور ہمارے گھروں کو کیوں نذرآتش کیا جارہا ہے؟ پھر انھی نہتے لوگوں کو جو سوال کر رہے تھے اس کے جواب میں ان معصوم لوگوں کو ہی دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ لیاقت آباد، ناظم آباد آکر جشن منانے والے حملہ آوروں نے گھن گرج کے ساتھ اپنی راہ لی، لیکن اس کے نتیجے میں ان دو قومیتوں کے درمیان نفرتوں کے بیج بو دیے گئے۔
اس شہر کی آبادی تاجروں، سرمایہ کاروں، صنعت کاروں اور ملازمت پیشہ متوسط طبقے کے لوگوں پر محیط تھی، ان میں پختونخوا سے روزگار کی تلاش میں آنے والے، جن کی زمین معدنیات سے مالامال ہونے کے باوجود آج بھی محض پتھریلا راستہ ہی رہی، وہ روزگار کی تلاش میں کراچی آکر آباد ہوتے رہے تھے، ان کو بھی اس فساد کی آگ کا ایندھن بنادیا گیا۔ دیگر چھوٹے صوبوں کو بھی غیرمنصفانہ رویوں سے شکایت رہی اور وہ آج بھی شاکی ہیں، لیکن ایسے کئی واقعات کے باوجود 65 کی جنگ نے سارے عوام کو پھر ایک ڈور میں پرو دیا تھا اور یہی بات عوام کی پاکستان سے محبت کی مظہر ہے۔
سقوط ڈھاکا کی تقسیم بھی ایک منفرد المیہ لیے نظر آتی ہے کہ بنگالی کی پہچان بھوک بنادی گئی تھی ''بھوکا بنگالی'' استعارہ بنادیا گیا تھا۔ ناانصافی کے باعث جب وہاں کے لوگوں کی بھوک بھڑکی تو وہ آگ بن کر آدھے ملک کو جھلسا گئی اور وہ اپنا حق مانگتے مانگتے بغاوت کر بیٹھے، جب کہ ان کے درمیان جنھوں نے بغاوت نہ کی اور وفا پر قائم رہے، جو آج بھی حقیقی پاکستانی ہیں، وہ کیسے اس بات کو تسلیم کرلیں کہ وطن سے وفا ایک ''سنگین جرم'' ہے؟ وہ معصوم بلوچ، وہ محنت کش پختون، جو اینٹیں اور پتھر ڈھو ڈھو کر فلک بوس عمارتیں تو بناتے رہے لیکن ان کے سر پر صرف آسمان اور نیچے زمین جہاں وہ دری بچھا کر سوجاتے ہیں، سندھ کا وہ غریب ہاری، جو سال بھر کھیتی باڑی کرکے خود اناج کی چند بوریوں پر اپنے خاندان کو پالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
یہ سارا غیر متوازن اور غیرمنصفانہ رویہ ملک کو ماضی میں دولخت کرچکا ہے۔ مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے گزرے ہوئے تلخ وقت پر نظر ڈالنا یقیناً زخم کریدنے کے مترادف ہوتا ہے، لیکن مزید ٹوٹ پھوٹ اور تکلیفوں سے بچنے کے لیے سبق لینا بھی ضروری ہے تاکہ سمجھا جاسکے کہ Have اور Have Not کی بینیاد پر تقسیم زہر قاتل ہے۔ Have Not کا حساب تو جس تیزی سے ہوتا ہے اگر Have کے لیے احتسابی عمل تسلسل سے جاری رہے، جس کی ہلکی سی امید حالیہ عظیم فیصلے کی صورت میں نظر آرہی ہے تو شاید ایک متوازن معاشرہ تشکیل ہوسکے۔
ہمارا ماضی ہمیں بڑا واضح سبق دیتا ہے کہ اب اس موجودہ پاکستان کو مستحکم کرنے اور اس کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے منصفانہ رویوں کو اپنا شعار بنانا لازمی ہے۔ غداری کے الزامات بغاوتوں کو جنم دیتے ہیں اور دشمن گھات لگائے ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتا ہے، ان سے بچنے کے لیے ایک نسخہ کیمیا بس یہی ہے کہ زمین سے نکلنے والی اس دولت پر پہلا حق اس پر بسنے والے کو ہی ملنا چاہیے اور اس پر پیدا ہونے والے ہر بچے کو فرزند زمین تسلیم کرلینا چاہیے۔
صرف قوم ہی نہیں، ایک فرد بھی کسی ایسی ننگ و بھوک کا شکار نہ ہو جو علم بغاوت لے کر کھڑا ہوسکے، لہٰذا اب ایک دوسرے کی قبولیت تسلیم و رضا کا یہی راستہ مضبوط پاکستان کی طرف لے جاسکتا ہے اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے آنے والے حالیہ تاریخی اور پہلے سے کیے گئے فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق مکمل عملدرآمد ہونا چاہیے، جو اس ڈگمگاتی عمارت کے لیے ستون بن سکتے ہیں۔ چاہے وہ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کا متروکہ جائیداد سے متعلق دیا گیا متفقہ فیصلہ ہو، جس میں ہندوستان سے آنے والوں کے حق میں بات کی گئی تھی یا پاناما پر قانون و انصاف کے تقاضوں کو پورا کروانے کے لیے یا سندھ میں لوکل باڈیز کی بحالی کے لیے ہو، لہٰذا خاص طور سے موجودہ تناظر میں ان کا نفاذ اس بے چین ماحول کی کیمسٹری بدل دے گا، جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
انسانی زندگی میں جو کچھ رونما ہوتا ہے وہ اچھا ہو یا برا، دونوں صورتوں میں ماحول میں تبدیلیاں ناگزیر ہوجاتی ہیں، جیسا کہ تازہ ترین سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے، جو ایک فرد اور خاندان کے خلاف نہیں، بلکہ اس طبقے کے خلاف ہے جس کی عاقبت نااندیشیوں سے متوسط طبقہ پسماندگی کی طرف اور پسماندگی میں زندگی گزارنے والے جھٹ پٹے سے بالکل ہی بھوک و افلاس کے اندھیرے میں دھکیلے جاتے رہے ہیں، اور یہ فیصلہ ایسے ہی مراعات یافتہ طبقے کے لیے نوشتہ دیوار بھی ہے۔
فیصلہ اگر فرد اور خاندان تک ہی محدود رہا تو ایسے اور بہت سے موجود ہیں۔ اس تاریخی فیصلے کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ایسی قانون سازی بھی ازحد ضروری ہے جو مراعات گھسیٹنے والوں کے ہاتھ باندھ سکے۔ ماضی میں جو ادارے اس کے تدارک کے لیے بنائے گئے، ان میں بھی مراعات یافتہ طبقے کے حمایت یافتہ ہونے کے سبب انصاف نہ ہوسکا۔ سوچنا، محسوس کرنا اور اس پر ردعمل دینا یا اظہار کرنا ایک زندہ فکر کی فطری علامت ہے۔
میرا گزشتہ کالم اختیاری ہجرت کے حوالے سے تھا اور اس میں جو نکات پیش کیے گئے تھے، اسی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے چند غور طلب پہلوؤں کی نشاندہی کرنا چاہتی ہوں، جو پاکستان کو مستحکم رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہیں، اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ عوام کے ساتھ منصفانہ طریقہ کار اختیار کیا جائے، چاہے وہ کسی بھی قومیت، مذہب، فرقے اور صوبے سے تعلق رکھتے ہوں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ بنیادی طور پر پاکستان کے حدود اربع میں بسنے والا ہر فرد پاکستانی ہے، لیکن اس کی اپنے وطن کے اندر ایک ثانوی پہچان بھی بنی ہوئی ہے، جیسے پنجاب کا رہنے والا پنجابی، خیبرپختونخوا میں رہنے والا پختون یا پٹھان، بلوچستان میں رہنے والا بلوچ اور سندھ کا باشندہ سندھی کہلاتا ہے، لیکن تقسیم برصغیر کے بعد ہجرت کرکے آنے والوں کی ایک بہت بڑی آبادی جو بیشتر سندھ میں آکر آباد ہوئی، اس نے اپنی شناخت، کیونکہ وہ یہاں پیدا نہیں ہوئے تھے تو بانی پاکستان کے کہے ہوئے وہ تاریخی الفاظ جو انھوں نے پاکستان بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ادا کیے تھے کہ ''آپ پاکستانی ہیں'' ان کے یہ الفاظ ہجرت کرکے آنے والوں کے لیے ایک نعمت عظیم تھے۔
سو انھوں نے قائد کے دیے ہوئے نام کو ہی اپنے لیے فوقیت دی اور خود کو صرف پاکستانی کہلوانے لگے۔ لیکن شومیٔ تقدیر، مہاجروں کے ساتھ تسلسل سے کچھ حالات ایسے رونما ہوتے چلے گئے کہ جس نے پہلے بحیثیت فرد ان کے ذہن میں اور پھر اجتماعی طور پر اپنے وجود کو قائم رکھنے کے تصور کے لیے اپنی پہچان کی ضرورت کو محسوس کیا، جو اپنی ملازمتوں اور آنے والی نسلوں کی تعلیم سے متعلق تھی اور جب بتدریج معاملات مزید بگڑتے نظر آنے لگے، یہاں تک کہ بات زندگی کی بقا تک جا پہنچی کہ ایک سوچ میں کون ہوں؟ پہلے فرد میں، پھر فرد سے خاندان اور پھر خاندانوں کو مجتمع کرکے اپنی پہچان کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے۔
1964میں ایک معرکۃ الآرا الیکشن جس میں ایک آمر کو فتح حاصل ہوئی اور مدمقابل مادر ملت کو شکست۔ اس جیت کی خوشی کو منانے کے لیے ایسے علاقوں کا انتخاب کیا گیا، جہاں مہاجروں کی بستیاں آباد تھیں، خاص طور پر لیاقت آباد اور ناظم آباد کی کشادہ شاہراہوں پر، جہاں دونوں جانب گنجان آبادیاں ہیں۔
ان جشن منانے والوں نے خوشی میں ہوائی فائرنگ کے نام پر بندوقوں کے دہانے ایسے کھولے کہ سڑک کے اطراف کھڑے متعدد افراد کی جانیں تلف ہوئیں اور پھر ان آگ اگلتی بندوقوں کے رخ بستیوں کی جانب کردیے۔ اس کے بعد خوف کی ایک ایسی لہر دوڑ گئی جس میں مقامی آبادیوں کے لوگ حفظ ماتقدم کی خاطر اور اپنی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے رات رات بھر جاگ کر ایک دوسرے کو چوکنا بھی رکھ رہے تھے، ایسے میں ذہن میں کلبلاتی ہوئی فکر خود ان سے سوال کررہی تھی کہ اگر ہم محب وطن پاکستانی ہیں تو کس جرم کی سزا میں ہم پر گولیاں برسائی جارہی ہیں؟ اور ہمارے گھروں کو کیوں نذرآتش کیا جارہا ہے؟ پھر انھی نہتے لوگوں کو جو سوال کر رہے تھے اس کے جواب میں ان معصوم لوگوں کو ہی دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ لیاقت آباد، ناظم آباد آکر جشن منانے والے حملہ آوروں نے گھن گرج کے ساتھ اپنی راہ لی، لیکن اس کے نتیجے میں ان دو قومیتوں کے درمیان نفرتوں کے بیج بو دیے گئے۔
اس شہر کی آبادی تاجروں، سرمایہ کاروں، صنعت کاروں اور ملازمت پیشہ متوسط طبقے کے لوگوں پر محیط تھی، ان میں پختونخوا سے روزگار کی تلاش میں آنے والے، جن کی زمین معدنیات سے مالامال ہونے کے باوجود آج بھی محض پتھریلا راستہ ہی رہی، وہ روزگار کی تلاش میں کراچی آکر آباد ہوتے رہے تھے، ان کو بھی اس فساد کی آگ کا ایندھن بنادیا گیا۔ دیگر چھوٹے صوبوں کو بھی غیرمنصفانہ رویوں سے شکایت رہی اور وہ آج بھی شاکی ہیں، لیکن ایسے کئی واقعات کے باوجود 65 کی جنگ نے سارے عوام کو پھر ایک ڈور میں پرو دیا تھا اور یہی بات عوام کی پاکستان سے محبت کی مظہر ہے۔
سقوط ڈھاکا کی تقسیم بھی ایک منفرد المیہ لیے نظر آتی ہے کہ بنگالی کی پہچان بھوک بنادی گئی تھی ''بھوکا بنگالی'' استعارہ بنادیا گیا تھا۔ ناانصافی کے باعث جب وہاں کے لوگوں کی بھوک بھڑکی تو وہ آگ بن کر آدھے ملک کو جھلسا گئی اور وہ اپنا حق مانگتے مانگتے بغاوت کر بیٹھے، جب کہ ان کے درمیان جنھوں نے بغاوت نہ کی اور وفا پر قائم رہے، جو آج بھی حقیقی پاکستانی ہیں، وہ کیسے اس بات کو تسلیم کرلیں کہ وطن سے وفا ایک ''سنگین جرم'' ہے؟ وہ معصوم بلوچ، وہ محنت کش پختون، جو اینٹیں اور پتھر ڈھو ڈھو کر فلک بوس عمارتیں تو بناتے رہے لیکن ان کے سر پر صرف آسمان اور نیچے زمین جہاں وہ دری بچھا کر سوجاتے ہیں، سندھ کا وہ غریب ہاری، جو سال بھر کھیتی باڑی کرکے خود اناج کی چند بوریوں پر اپنے خاندان کو پالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
یہ سارا غیر متوازن اور غیرمنصفانہ رویہ ملک کو ماضی میں دولخت کرچکا ہے۔ مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے گزرے ہوئے تلخ وقت پر نظر ڈالنا یقیناً زخم کریدنے کے مترادف ہوتا ہے، لیکن مزید ٹوٹ پھوٹ اور تکلیفوں سے بچنے کے لیے سبق لینا بھی ضروری ہے تاکہ سمجھا جاسکے کہ Have اور Have Not کی بینیاد پر تقسیم زہر قاتل ہے۔ Have Not کا حساب تو جس تیزی سے ہوتا ہے اگر Have کے لیے احتسابی عمل تسلسل سے جاری رہے، جس کی ہلکی سی امید حالیہ عظیم فیصلے کی صورت میں نظر آرہی ہے تو شاید ایک متوازن معاشرہ تشکیل ہوسکے۔
ہمارا ماضی ہمیں بڑا واضح سبق دیتا ہے کہ اب اس موجودہ پاکستان کو مستحکم کرنے اور اس کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے منصفانہ رویوں کو اپنا شعار بنانا لازمی ہے۔ غداری کے الزامات بغاوتوں کو جنم دیتے ہیں اور دشمن گھات لگائے ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتا ہے، ان سے بچنے کے لیے ایک نسخہ کیمیا بس یہی ہے کہ زمین سے نکلنے والی اس دولت پر پہلا حق اس پر بسنے والے کو ہی ملنا چاہیے اور اس پر پیدا ہونے والے ہر بچے کو فرزند زمین تسلیم کرلینا چاہیے۔
صرف قوم ہی نہیں، ایک فرد بھی کسی ایسی ننگ و بھوک کا شکار نہ ہو جو علم بغاوت لے کر کھڑا ہوسکے، لہٰذا اب ایک دوسرے کی قبولیت تسلیم و رضا کا یہی راستہ مضبوط پاکستان کی طرف لے جاسکتا ہے اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے آنے والے حالیہ تاریخی اور پہلے سے کیے گئے فیصلوں پر ان کی روح کے مطابق مکمل عملدرآمد ہونا چاہیے، جو اس ڈگمگاتی عمارت کے لیے ستون بن سکتے ہیں۔ چاہے وہ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کا متروکہ جائیداد سے متعلق دیا گیا متفقہ فیصلہ ہو، جس میں ہندوستان سے آنے والوں کے حق میں بات کی گئی تھی یا پاناما پر قانون و انصاف کے تقاضوں کو پورا کروانے کے لیے یا سندھ میں لوکل باڈیز کی بحالی کے لیے ہو، لہٰذا خاص طور سے موجودہ تناظر میں ان کا نفاذ اس بے چین ماحول کی کیمسٹری بدل دے گا، جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔