اڑان کم ہو مگر سب کے لیے

اس کرۂ ارض میں روزانہ کھربوں ڈالر کا اسلحہ پیدا کیا جاتا ہے اور انھیں انسانوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے


Zuber Rehman July 31, 2017
[email protected]

دھن والے اپنی پرواز کو زیادہ سے زیادہ بلندیوں پر لے جاتے ہیں جب کہ بے کس، بے سہارا اور محنت کش عوام کوششوں کے باوجود ہر چھلانگ پر نیچے ہی آگرتے ہیں۔ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ چند دھن والے مریخ میں جانے کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں اور افلاس زدہ غریب لوگ زمین تلے دھنستے جارہے ہیں۔

کیا اس فاصلے میں کمی لائی جاسکتی ہے؟ یقیناً کمی لائی جاسکتی ہے، بلکہ اس فاصلے کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر تیس تیس منزلہ عمارتوں، کروڑوں کی بلٹ پروف گاڑیوں، ہزاروں گز پر مشتمل مکانوں، اربوں کے میزائل اور کھربوں کے جوہری ہتھیار، اربوں کے کاسمیٹک، ہزاروں کے جوتے، کروڑوں روپے کی قیمتی بسیں، ہزاروں روپے گز کے کپڑے، اربوں ڈالر کے زیورات اور اربوں ڈالر کے اخراجات کے ہوائی سفر وغیرہ، خوب استعمال ہوتے ہیں، لیکن کتنے لوگ انھیں استعمال کرپاتے ہیں؟ بمشکل ایک فیصد لوگ۔

ایک شخص تیس منزلہ عمارت کروڑوں روپے میں تعمیر کراتا ہے۔ یقیناً وہ اس پوری عمارت میں رہنے سے تو رہا، پھر انھیں کرایے پر دینا ہوتا ہے اور ان کرایوں کی رقوم جمع کرکے پھر ایک عمارت بنالیتا ہے۔ اس طرح سے ایک ہی شخص اربوں ڈالر کا مالک اور ہزاروں لوگ کرایہ دیتے دیتے اپنی ساری زندگی گزار دیتے ہیں۔ جس شخص نے کروڑوں روپے سے جو عمارت تعمیر کروائی ہے، وہ رقم کہاں سے آئی؟ وہ کہے گا کہ میں نے تجارت کی اور میرے والد کی جائیداد بھی تھی، اسے تجارت میں لگا کر منافع کمایا اور ان منافعوں سے مزید عمارت تعمیر کی۔

اس سے اگر کوئی سوال کرتا ہے کہ منافع کیا ہوتا ہے؟ تو وہ جواب دے گا کہ ہم نے دولت لگائی اور اسے حرکت میں لانے کی وجہ سے مزدوروں کو روزگار بھی ملے اور ہمیں منافع۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ منافع کمایا ہی نہیں بلکہ اس نے مزدوروں کو کم مزدوری دی، ورنہ زائد رقم ہاتھ نہیں آسکتی تھی، یا یوں کہہ لیں کہ اس کے باپ دادا جو دولت اور ملکیت چھوڑ کر گئے، وہ بھی ماضی کے مزدوروں اور کسانوں کو دیہاڑی کم دے کر پیسے بٹورے تھے۔

پھر نتیجہ یہ نکلا کہ اگر ملکیت کا تصور ختم کردیا جائے تو ہر کثیرالمنزلہ عمارتوں کے سیکڑوں فلیٹس میں ہزاروں لوگ رہائش پذیر ہوسکتے ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس گھر نہیں اور ان ہی کی محنت سے یہ عمارتیں تعمیر ہوئی ہیں۔ اسی طرح کروڑوں روپے کی بلٹ پروف گاڑیاں محدود لوگوں کے لیے بنائی جاتی ہیں، اس لیے کہ انھیں بچایا جاسکے، باقی لوگ بھلے مرتے رہیں۔

اب اس گاڑی کو بنانے میں مزدوروں کو جو مزدوری دی جاتی ہے وہ پچاس فیصد ادا کی جاتی ہے اور باقی پچاس فیصد منافع کے نام پر سرمایہ دار ہڑپ کرجاتا ہے۔ اگر ان کروڑوں کی بلٹ پروف گاڑیوں کی جگہ ہزاروں بڑی بسیں بنائی جائیں تو دنیا سے ٹرانسپورٹ کے مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہوجائے تو بلٹ پروف گاڑیاں بنانے والے ارب پتی سے کھرب پتی کیسے بنیں گے اور انھیں سستے مزدور کہاں سے ملیں گے؟

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایک چھوٹے سے خاندان کو رہنے کے لیے سو گز کا مکان خاصا ہے، لیکن سرمایہ دار اپنی الگ بستیاں قائم کرتے ہیں اور وہ ہزاروں گز کے مکان میں رہائش اختیار کرتے ہیں، جب کہ ان بڑے مکانوں میں بیس عام خاندان رہ سکتے ہیں۔ اب وہ بڑے مکان والا کہے گا کہ یہ تو میں نے اپنی جیب سے پیسے لگائے، بڑی محنت سے کمایا اور یہ میری ملکیت ہے، میں کیوں اوروں کے حوالے کروں؟

یہی سرمایہ داری کا اصول ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ خواہ فٹ پاتھوں پر ہی کیوں نہ رات گزارتے ہوں، یہ دھن والے ہزاروں گز پر مشتمل مکان، جس میں درجن بھر ملازمین اور پانچ پانچ گاڑیاں صحن میں کھڑی ہوں اور خود کچھ نہ کرتے ہوں، یہ اپنا مقدر کہہ کر عیش میں لگے رہتے ہیں اور ان کے نوکر دس دس ہزار کی تنخواہوں پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ اور سرمایہ دار اس پر یہ احسان بھی جتاتا ہے کہ ہم کھانا بھی تو مفت کا کھلاتے ہیں۔

اس دنیا میں روزانہ درجنوں ہزار لوگ صرف بھوک سے مر رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب کھربوں ڈالر صرف زیورات اور کاسمیٹکس پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ ایک روٹی کی جانب جب ہاتھ بڑھتے ہیں تو اس کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے ہیں (پاکستان میں ملازمین کا ہاتھ کاٹنے کے حالیہ کئی واقعات ہوچکے ہیں) تو دوسری جانب کھربوں ڈالر کے زیورات ہاتھوں میں تھمادیے جاتے ہیں۔

ایک جانب مزدور کے ہاتھ میں دس روپے نہیں ہیں کہ وہ روٹی خرید سکے تو دوسری طرٖف ایک ہاتھ میں ڈھائی کروڑ روپے کی گھڑی بندھی ہوئی ہوتی ہے۔ دنیا میں ایسے جوتے بنانے والی کمپنیاں ہیں جو ہر سال صرف تین چار سو جوڑے جوتے بناتی ہیں اور وہ لاکھوں ڈالر کے ہوتے ہیں، دوسری جانب دنیا میں کروڑوں لوگ ننگے پاؤں پھرنے پر مجبور ہیں۔

آج بھی اسی دنیا میں ساڑھے چار کروڑ لوگ جنگلوں میں ننگ دھڑنگ رہنے پر مجبور ہیں، مچھروں کی بہتات ہونے کی وجہ سے وہ کپڑوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو دوسری جانب ہر موسم میں نئے ڈیزائن اور قیمتی ملبوسات کی نمائش ہوتی ہے۔ ایک جانب ہوائی سفر پر روزانہ کھربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں تو دوسری جانب تھر، چولستان، بلوچستان اور صحرائے اعظم کے ریگستانوں میں میلوں سفر کرکے لوگ پینے کا پانی لاتے ہیں۔

اس کرۂ ارض میں روزانہ کھربوں ڈالر کا اسلحہ پیدا کیا جاتا ہے اور انھیں انسانوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ان اسلحوں کی پیداوار بند کردی جائے تو دنیا سے بھوک، افلاس، بے گھری، ناخواندگی، گداگری اور عصمت فروشی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن جلد آنے والا ہے جب ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ اسی کو کہتے ہیں کمیونسٹ سماج یا امداد باہمی کا آزاد معاشرہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں