باطل کو ملا ہے نہ ملے گا کبھی ساحل

ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے کیوں؟

شریف خاندان کے بارے میں پاناما کا مقدمہ سنا جاچکا۔ عدالت عظمیٰ کے منصفوں کے بینچ نے فیصلہ کرلیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا ہے۔ باہر آج بھی چیخ پکار مچی ہوئی ہے۔ سچ اور جھوٹ کا مقابلہ جاری ہے اور کہیں کہیں جھوٹ ہی جھوٹ ایک دوسرے کے مقابل ہے۔ عدالت عظمیٰ اپنا قیمتی وقت ضایع نہیں کر رہی، اسے ابھی بہت سے احباب کو نمٹانا ہے۔

ملک میں لوٹ مار بہت کی گئی ہے۔ اتنی لوٹ مار کہ مالی اور باورچی بھی نہ بچ سکے، یہ بھی کروڑوں کے مالک بنا دیے گئے۔ تحریک انصاف کے ایک صاحب کا اپنا ذاتی ہوائی جہاز ہے۔ اسلام آباد کے علاوہ بھی عالی شان رہائشی گھر ہیں، اور بھی امیر ترین لوگ ہیں جن کے شہر شہر اپنے گھر ہیں، اور جالب صرف خاموشی سے دیکھتا ہی نہیں رہا بلکہ وہ بولتا بھی رہا:

جو لوگ جھونپڑوں میں پڑے تھے، پڑے رہے

کچھ اور اہل زر نے بنا لیں عمارتیں

عدالت عظمیٰ مصروف ہے، وہ بڑی تیزی سے کام کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔ جے آئی ٹی کے چھ ممبران نے رات دن ایک کرکے ٹارگٹ کے مطابق 60 دن میں اپنا کام کرکے عدالت عظمیٰ میں تفتیشی ریکارڈ جمع کرادیا۔ جو سوچ سے بالا معاملات تھے وہ جے آئی ٹی کے چھ ارکان نے کرکے دکھا دیے۔

ملک کا اعلیٰ ترین سربراہ وزیر اعظم کو طلب کیا گیا اور وہ پیش ہوگیا، وزیراعلیٰ پنجاب کو طلب کیا گیا وہ بھی پیش ہوگیا، وزیر اعظم کے بچوں کو طلب کیا گیا، حسین نواز ، حسن نواز، مریم صفدر پیش ہوگئے۔ وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر کو طلب کیا گیا وہ بھی پیش ہوگیا۔ حکومت کے خاص وزیر اسحاق ڈار کو طلب کیا گیا وہ بھی پیش ہوگیا اور پیشیوں کا طویل سلسلہ جاری رہا اور مکمل ہوا۔ ایسا کام ہمارے ملک میں ہوجائے گا، جو وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا، وہ ہوگیا، بلکہ ہوچکا۔

خلیفہ عمرؓ کو عدالت نے طلب کیا تو وہ عدالت کے روبرو کٹہرے میں کھڑے ہوگئے، یہی حال ایک اور صاحب سیف و قلم خلیفہ علی کرم اللہ وجہ کے ساتھ ہوا۔ عدالت نے طلب کیا اور وہ پیش ہوئے۔ خلفائے راشدین میں یہ دو خلفا بڑے جاہ و جلال والے تھے۔ مگر ایک عام آدمی کی طرح منصف کے سامنے چلے آئے۔ یہ دونوں خلفا ملزم تھے، یہ دونوں قاضی کے سامنے پیش ہوئے اور فیصلہ لے کر عدالت سے رخصت ہوئے۔

خلفائے راشدین کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا۔ حضرت عمر کے کرتے پر اعتراض کیا گیا ، کہا گیا اے خلیفہ! مال غنیمت سے جو کپڑا آپ کو ملا تھا اس میں یہ کرتا نہیں بن سکتا'' خلیفہ عمر فاروقؓ نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا ''بیٹے نے اپنے حصے کا کپڑا مجھے دے دیا تھا، اسے ملا کر میں نے اپنا کرتا بنوایا ہے'' وہاں بیٹے نے تحفے میں کپڑا مفلس حکمران باپ کو دیا تھا۔

1970 میں حبیب جالب نے ایک نظم لکھی تھی۔ عنوان تھا ''خطرے میں اسلام نہیں'' اس نظم کے دو تین مصرعے ذہن میں گونج رہے ہیں اور میں لحن جالب سن رہا ہوں:

ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے کیوں؟

نام نبی کا لینے والے الفت سے بیگانے کیوں؟


خطرہ ہے زرداروں کو، رنگ برنگی کاروں کو

نوابوں غداروں کو، خطرے میں اسلام نہیں

تو جناب! اب جو لٹیرے احتساب کے کٹہرے میں ابھی نہیں آئے، وہ تیار رہیں، وہ بھی پکڑ میں آئیں گے۔ عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان ریٹائر ہوتے رہیں گے، مگر عدالت عظمیٰ ریٹائر نہیں ہوگی۔ احتساب اسی طرح جاری رہے گا۔ وہ جو یہ کہتے تھے ''میں عوام کا لوٹا ہوا پیسہ ''ان'' کے پیٹوں سے نکالوں گا''۔ اور اب وہ وقت آگیا ہے۔

غضب خدا کا! انسان دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں اور ڈاکو، چور، لٹیرے بیرون ملک جائیدادیں بنا رہے ہیں۔ آف شور کمپنیاں بنا رہے ہیں۔ ملک میں ہی کیا کم ان کی جائیدادیں ہیں؟ جو یہ بیرون ملک جا پہنچے۔ یہ لٹیرے ان کا پیٹ ہے کہ جھیل ہے، کنٹینر کے کنٹینر کھا گئے، سیلاب اور زلزلہ زدگان کا امدادی سامان کھا گئے، کچھ بھی نہیں چھوڑا، جو ملا ہڑپ کرگئے۔ نہ انھیں اللہ یاد ہے نہ رسول، نہ موت نہ قبر، یہ صرف اور صرف زر کے پجاری ہیں۔ دولت اور مکانات دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، ڈالر بچھا کر سوتے ہیں، ڈالر اڑا کر ہنستے ہیں۔

اور یہ قصیدہ گو! ان کے لیے کیا کہوں، یہ بہت ہی بڑا عذاب ہے۔ مختلف ٹی وی چینل، بے لاگ تبصرے نہیں کرتے، اخبارات پر مالکان کی پالیسی کا پہرہ ہے۔ صحافی بولتے ہیں، تو صاف نظر آتا ہے کہ ''لفافے'' بول رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اس روش کو بدلا جائے۔ اب احتساب کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے کہ بھوکے ننگے بے گھر لوگ محلوں، فارم ہاؤسز پر ٹوٹ پڑیں۔ ظالمو! سدھر جاؤ، اور عوام کا پیسہ واپس کردو۔ بھئی! میرے پاس تو لکھنے کو یہی ہے بقول ساحر ''میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا'' سڑکوں پر بھیک مانگنے والوں کو دیکھوں، پھول سے بچوں کو مزدوریاں کرتے دیکھوں، سرکاری اسپتالوں میں تعفن زدہ وارڈز میں غریبوں کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتا دیکھوں، ظالم دندناتے پھریں اور مظلوم چھپتے پھریں، میں یہ سب دیکھوں اور خاموش رہوں! آخر کیوں!

کیوں!

جالب کا ایک یقین کی دولت اور حوصلہ دیتا ہوا قطعہ

آئے سر عالم کئی غاصب کئی قاتل

ظلمت کہاں ٹھہری ہے اجالوں کے مقابل

حق ہی نے کیے پار امنڈتے ہوئے طوفاں

باطل کو ملا ہے نہ ملے گا کبھی ساحل
Load Next Story