دہشت گردی کا پس منظر
دہشت گرد اپنی کارروائیوں کے حوالے سے پوری معلومات رکھتے ہیں اور ایک ویل پلان کے تحت دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں
دہشت گردی کی شدت میں بلاشبہ کمی ہوئی ہے، خاص طور پر دہشت گردی کی وہ بڑی بڑی وارداتیں جن میں بھاری جانی نقصان ہوتا تھا اب بڑی حد تک کم ہو گئی ہیں، اس حوالے سے فوجی قیادت کا یہ دعویٰ کہ دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا ہے غلط نہیں ہے، لیکن دہشت گردی کی چھوٹی چھوٹی وارداتوں کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے، تقریباً ہر روز ہی اس قسم کی وارداتیں ہو رہی ہیں، دہشت گرد اس حوالے سے اب آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں، خاص طور پر دور دراز علاقوں کی فوجی چوکیوں اور گشت پر مامور فوجی اہلکاروں پر خودکش حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
خبر کے مطابق پشاور میں ایف سی کے قافلے پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں ایک میجر شہید اور 10 اہلکار زخمی ہو گئے یہ قافلہ گزشتہ پیر کی صبح ایف سی کیمپ حیات آباد سے ایف سی ہیڈ کوارٹر قلعہ بالا حصار کی جانب جا رہا تھا کہ باغ ناران کے قریب جہاز چوک پر گاڑیوں کی رفتار کم ہوئی تو اس دوران خودکش حملہ کر دیا گیا۔
دہشت گرد اپنی کارروائیوں کے حوالے سے پوری معلومات رکھتے ہیں اور ایک ویل پلان کے تحت دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا ان کے خصوصی اہداف میں شامل ہیں۔ دور دراز قائم فوجی چوکیوں پر اور فوجی قافلوں پر حملے کرنا نسبتاً آسان ہدف ہوتا ہے اور دہشت گرد ان اہداف پر آسانی سے کارروائیاں کرتے ہیں، اس حوالے سے خودکش حملے ایک ایسی تکنیک ہیں کہ ان پر قابو پانا آسان نہیں اور اسی تکنیک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
فوج کی احتیاطی تدابیر اور لگاتار آپریشنز کی وجہ اب شہری علاقے تو بڑی حد تک ان کی کارروائیوں سے محفوظ ہو گئے ہیں لیکن دور دراز کے علاقوں میں قائم فوجی چوکیاں اور فوجی قافلے ابھی تک غیر محفوظ ہیں کیونکہ چھپ کر اور اچانک حملوں کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔
امریکا کے نئے صدر ٹرمپ اس حوالے سے بہت فعال نظر آتے ہیں لیکن ایک تو خودکش حملوں کا دفاع ٹرمپ کی پالیسیوں سے بھی ممکن نہیں دوسرے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ٹرمپ حکومت جو پالیسیاں وضع کر رہی ہے، اس میں امتیازات کے پہلو کی وجہ سے یہ پالیسیاں موثر ثابت نہیں ہو سکتیں، مثلاً افغانستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں امریکی زعما فوری پاکستان کو ملوث کر دیتے ہیں اور اس حوالے سے سخت موقف بھی اختیار کرتے ہیں لیکن پاکستان میں آئے دن ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں پر وہ چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں، اس قسم کے امتیازات کا نتیجہ دہشت گردی سے متاثر ملکوں کے درمیان اختلافات اور عدم اعتماد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے جس سے دہشت گرد فائدہ اٹھاتے ہیں۔
امریکی وزیر دفاع جان میکین نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی کے علاقائی تناظر میں پاکستان کے حوالے سے حکمت عملی بھی شامل ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک نیوز بریفنگ میں امریکی وزیر دفاع نے عندیہ دیا کہ نئی حکمت عملی افغانستان میں امریکی فوج کے کام کی نوعیت کو تبدیل کر سکتی ہے۔
امریکی ذرایع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ جس حکمت عملی پر کام کر رہی ہے اس سے امریکا کے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ نئے طریقے سے تعلقات استوار ہوں گے نئی حکمت عملی کے حوالے سے ایک سوال پر امریکی وزیر دفاع کا کہتا تھا کہ علاقائی تناظر میں آنے والے ملک اس حکمت عملی میں شامل ہوں گے۔ رواں ماہ کے آغاز میں سینیٹر میک کین نے اپنے دورہ پاکستان اور ہندوستان کے دوران اسلام آباد پر زور دیا تھا کہ وہ افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرے یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائے۔ افغانستان کے حوالے سے نئی پالیسی کی تشکیل میں جان میکین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
افغانستان میں پاکستان اور ہندوستان کے مفادات متضاد ہیں پاکستان افغانستان کے پڑوسی کی حیثیت سے افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ چاہتا ہے۔ افغانستان کی پوری تاریخ پاکستان دشمنی بھارت دوستی پر استوار ہے۔ اس تناظر میں بھارت کی کوشش ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرے۔
اس حوالے سے بھارت افغانستان کے کئی ترقیاتی منصوبوں میں افغانستان کی مالی مدد کر رہا ہے اور موجودہ افغان حکومت کا جھکاؤ بھی بھارت کی طرف واضح ہے، اس حوالے سے سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ان ملکوں کی قیادت کا فکری کینوس بڑا ریجڈ ہے، جہاں تنگ نظری ہو گی وہاں مسائل سلجھنے کے بجائے الجھتے چلے جائیں گے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ پاکستان افغانستان اور بھارت کا حکمران طبقہ اس خطے کے عوام کی بدترین غربت کے تناظر میں اپنی پالیسیاں اس طرح ترتیب دے کہ یہ ملک امن اور خوشحالی کی راہ پر پیش رفت کر سکیں؟
ماضی میں بھارت غیر جانبدار ملکوں کی قیادت کرتا رہا ہے جس کی وجہ دنیا میں اس کا احترام کیا جاتا تھا اور بدقسمتی سے پاکستان ہمیشہ امریکا کا تابعدار ملک بنا رہا جس کی وجہ دنیا میں اس کی کوئی شنوائی نہ تھی اب صورتحال بالکل تبدیل ہو گئی ہے اب بھارت نے امریکا کی ہمنوائی کے حوالے سے پاکستان کی جگہ لے لی ہے اور بھارت کے اس یو ٹرن کا امریکا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ جب تک پاکستان بھارت اور افغانستان ''قومی مفادات'' کے بھنور سے باہر نہیں ملیں گے یہ خطہ دہشت گردی کی لپیٹ میں رہے گا، عوام کا جانی نقصان ہوتا رہے گا، مغرب کی اسلحے کی صنعت ترقی کرتی رہے گی، پاکستان ہندوستان کے دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
خبر کے مطابق پشاور میں ایف سی کے قافلے پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں ایک میجر شہید اور 10 اہلکار زخمی ہو گئے یہ قافلہ گزشتہ پیر کی صبح ایف سی کیمپ حیات آباد سے ایف سی ہیڈ کوارٹر قلعہ بالا حصار کی جانب جا رہا تھا کہ باغ ناران کے قریب جہاز چوک پر گاڑیوں کی رفتار کم ہوئی تو اس دوران خودکش حملہ کر دیا گیا۔
دہشت گرد اپنی کارروائیوں کے حوالے سے پوری معلومات رکھتے ہیں اور ایک ویل پلان کے تحت دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا ان کے خصوصی اہداف میں شامل ہیں۔ دور دراز قائم فوجی چوکیوں پر اور فوجی قافلوں پر حملے کرنا نسبتاً آسان ہدف ہوتا ہے اور دہشت گرد ان اہداف پر آسانی سے کارروائیاں کرتے ہیں، اس حوالے سے خودکش حملے ایک ایسی تکنیک ہیں کہ ان پر قابو پانا آسان نہیں اور اسی تکنیک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
فوج کی احتیاطی تدابیر اور لگاتار آپریشنز کی وجہ اب شہری علاقے تو بڑی حد تک ان کی کارروائیوں سے محفوظ ہو گئے ہیں لیکن دور دراز کے علاقوں میں قائم فوجی چوکیاں اور فوجی قافلے ابھی تک غیر محفوظ ہیں کیونکہ چھپ کر اور اچانک حملوں کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔
امریکا کے نئے صدر ٹرمپ اس حوالے سے بہت فعال نظر آتے ہیں لیکن ایک تو خودکش حملوں کا دفاع ٹرمپ کی پالیسیوں سے بھی ممکن نہیں دوسرے دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ٹرمپ حکومت جو پالیسیاں وضع کر رہی ہے، اس میں امتیازات کے پہلو کی وجہ سے یہ پالیسیاں موثر ثابت نہیں ہو سکتیں، مثلاً افغانستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں امریکی زعما فوری پاکستان کو ملوث کر دیتے ہیں اور اس حوالے سے سخت موقف بھی اختیار کرتے ہیں لیکن پاکستان میں آئے دن ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں پر وہ چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں، اس قسم کے امتیازات کا نتیجہ دہشت گردی سے متاثر ملکوں کے درمیان اختلافات اور عدم اعتماد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے جس سے دہشت گرد فائدہ اٹھاتے ہیں۔
امریکی وزیر دفاع جان میکین نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی کے علاقائی تناظر میں پاکستان کے حوالے سے حکمت عملی بھی شامل ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک نیوز بریفنگ میں امریکی وزیر دفاع نے عندیہ دیا کہ نئی حکمت عملی افغانستان میں امریکی فوج کے کام کی نوعیت کو تبدیل کر سکتی ہے۔
امریکی ذرایع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ جس حکمت عملی پر کام کر رہی ہے اس سے امریکا کے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ نئے طریقے سے تعلقات استوار ہوں گے نئی حکمت عملی کے حوالے سے ایک سوال پر امریکی وزیر دفاع کا کہتا تھا کہ علاقائی تناظر میں آنے والے ملک اس حکمت عملی میں شامل ہوں گے۔ رواں ماہ کے آغاز میں سینیٹر میک کین نے اپنے دورہ پاکستان اور ہندوستان کے دوران اسلام آباد پر زور دیا تھا کہ وہ افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرے یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائے۔ افغانستان کے حوالے سے نئی پالیسی کی تشکیل میں جان میکین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
افغانستان میں پاکستان اور ہندوستان کے مفادات متضاد ہیں پاکستان افغانستان کے پڑوسی کی حیثیت سے افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ چاہتا ہے۔ افغانستان کی پوری تاریخ پاکستان دشمنی بھارت دوستی پر استوار ہے۔ اس تناظر میں بھارت کی کوشش ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرے۔
اس حوالے سے بھارت افغانستان کے کئی ترقیاتی منصوبوں میں افغانستان کی مالی مدد کر رہا ہے اور موجودہ افغان حکومت کا جھکاؤ بھی بھارت کی طرف واضح ہے، اس حوالے سے سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ان ملکوں کی قیادت کا فکری کینوس بڑا ریجڈ ہے، جہاں تنگ نظری ہو گی وہاں مسائل سلجھنے کے بجائے الجھتے چلے جائیں گے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ پاکستان افغانستان اور بھارت کا حکمران طبقہ اس خطے کے عوام کی بدترین غربت کے تناظر میں اپنی پالیسیاں اس طرح ترتیب دے کہ یہ ملک امن اور خوشحالی کی راہ پر پیش رفت کر سکیں؟
ماضی میں بھارت غیر جانبدار ملکوں کی قیادت کرتا رہا ہے جس کی وجہ دنیا میں اس کا احترام کیا جاتا تھا اور بدقسمتی سے پاکستان ہمیشہ امریکا کا تابعدار ملک بنا رہا جس کی وجہ دنیا میں اس کی کوئی شنوائی نہ تھی اب صورتحال بالکل تبدیل ہو گئی ہے اب بھارت نے امریکا کی ہمنوائی کے حوالے سے پاکستان کی جگہ لے لی ہے اور بھارت کے اس یو ٹرن کا امریکا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ جب تک پاکستان بھارت اور افغانستان ''قومی مفادات'' کے بھنور سے باہر نہیں ملیں گے یہ خطہ دہشت گردی کی لپیٹ میں رہے گا، عوام کا جانی نقصان ہوتا رہے گا، مغرب کی اسلحے کی صنعت ترقی کرتی رہے گی، پاکستان ہندوستان کے دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔