یہ سلسلہ جو شروع ہوا ہے

کرپشن اور بدعنوانی اصل میں بدانتظامی یا بری حکمرانی کے نتیجے میں جنم لیتی ہے۔

muqtidakhan@hotmail.com

KARACHI:
بالآخر عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔ فیصلہ مجھ سمیت بہت سوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر توہین عدالت نہ ہو، تو عرض ہے کہ وہ معاملہ جس کا ذکر پورے فسانے میں نہ تھا، باعث تعزیر بنا۔ اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ اول، جن الزامات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا، ان میں اتنی جان نہیں تھی کہ سزا وار ٹھہرایا جاتا۔ اس لیے JIT کی رپورٹ کے اس حصے پر تکیہ کیا گیا، جو اصل موضوع سخن نہیں تھا۔ دوئم، شاید یہ طے کرلیا گیا تھا کہ بہرصورت میاں صاحب کو نااہل قرار دلوانا ہے، چاہے کسی بھی الزام کے تحت ایسا کیا جائے۔

اس کے علاوہ یہ توقع اور تاثر بھی غلط ہے کہ اس فیصلے کے بعد ملک سے کرپشن، بدعنوانیوں اور بدانتظامیوں کا یکسر خاتمہ ہوجائے گا۔ البتہ یہ امید کی جاسکتی ہے کہ احتساب کا جو عمل شروع ہوا ہے، وہ کسی طور ختم نہیں ہوگا۔ بلکہ اقتدار و اختیار کی غلام گردشوں میں موجود ہر اعلیٰ و ادنیٰ ذمے دار کو جوابدہی اور احتساب کے دائرے میں بلا تخصیص لایا جائے گا۔ اس کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے پروفیشنلز پر بھی اس کا اطلاق کیا جائے گا۔ کیونکہ جوابدہی کا عمل شریف خاندان کے احتساب کے بعد اگر روک دیا جاتا ہے، تو اس کے ملک کے سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ یہی کچھ معاملہ ہمارے یہاں عدالتی فیصلوں کا ہے۔ ہمارے یہاں بیشتر عدالتی فیصلے میرٹ پر یا عوامی مفاد میں نہیں آئے۔ عالمی سطح پر یہ تو تسلیم کیا جاتا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر عدالتی فیصلہ مفاد عامہ میں ہو، مگر اس کا میرٹ پر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ ایسی نہیں کہ اسے نظیر کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ بلکہ بیشتر سیاسی اور آئینی فیصلے مقتدر اشرافیہ کی خوشنودی کے لیے دیے گئے۔ جن کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے اور عدالتوں کا اپنا وقار مجروح ہوا۔ خدشہ یہی ہے کہ کہیں پاناما لیکس کا فیصلہ بھی انھی سابقہ فیصلوں کا تسلسل نہ بن جائے۔

اس سلسلے میں بعض غیر جانبدار تجزیہ نگاروں اور خود ہمارا بھی یہی موقف ہے کہ اگر پاناما لیکس کے حوالے سے نیا مقدمہ کھولنے اور اس کی سماعت میں طویل وقت صرف کرنے کے بجائے اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جاتا، تو نواز شریف سے جان چھڑانا آسان ہوتا۔ مگر اس مقدمہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس میں اسٹیبلشمنٹ کی بعض سابقہ اہم شخصیات بھی گرفت میں آتیں۔ جو ہمارے منصوبہ سازوں کو کسی بھی طور قبول نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقدمہ کے فیصلے کو داخل دفتر کرکے نیا مقدمہ چلانے کو ترجیح دی گئی۔ جس سے بعض حلقوں کے اس خیال کو تقویت ملی ہے کہ غالباً اس مقدمہ کا اصل محور و مقصود صرف شریف خاندان کو سیاسی میدان سے باہر کرنا ہے۔

کرپشن اور بدعنوانی اصل میں بدانتظامی یا بری حکمرانی کے نتیجے میں جنم لیتی ہے۔ اگر نظام حکمرانی میرٹ، شفافیت، جوابدہی اور احتساب کے واضح مکینزم کے ساتھ چلایا جائے، تو کرپشن اور بدعنوانیوں سمیت مختلف نوعیت کی انتظامی بے قاعدگیوں پر قابو پانا مشکل نہیں رہتا۔ لیکن جب عوام کے مفادات اور خواہشات کو نظر انداز کرتے ہوئے مخصوص ادارہ جاتی یا سیاسی مقاصد کو ترجیح دی جائے، تو نہ کبھی درست احتساب ہوتا ہے اور نہ ہی میرٹ پر فیصلے آتے ہیں۔

ہمارے یہاں روز اول سے ان آوازوں کو دبا نے کی کوشش کی گئی، جنھوں نے ملک کو صحیح سمت دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مشرقی پاکستان میں تو جمہوریت پسند سیاستدانوں کی ایک بڑی کہکشاں موجود تھی۔ جب کہ مغربی پاکستان میں بھی گو گنتی کے چند ہی سہی، باضمیر اور صاحب فہم وفراست سیاستدان موجود تھے، جو حکمرانوں کی غلط پالیسیوں پر کھل کر تنقید کیا کرتے تھے۔


دستور ساز اسمبلی میں میاں افتخار الدین ایک ایسی ہی بے باک آواز تھے۔ مگر صرف ریاستی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ ہی ان کی مخالف نہیں تھی، بلکہ مغربی پاکستان کے کوتاہ بین سیاستدان بھی ان کے خلاف صف آرا تھے۔ چنانچہ ان تمام سیاستدانوں کو، جنھوں نے دوراندیشی، اخلاص اور عوام دوستی کا مظاہرہ کیا، صلے میں غداری کے تمغے ہی ملے۔

1954ء میں سابقہ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ (United Front) کامیاب ہوا۔ جو جمہوریت کے استحکام کے لیے وفاقیت پر عملدرآمد اور زرعی اصلاحات کو ضروری سمجھتا تھا۔ اس کی حکومت کو قیام سے قبل ہی جس طرح روکا گیا، وہ ہماری سیاسی تاریخ کے چہرے پر لگے چند بدنما داغوں میں سے ایک ہے۔ پھر بنگالیوں کی عددی اکثریت کو ختم کرنے کی خاطر parity کا سفاکانہ نظام مروج کیا گیا۔ جس کو جواز فراہم کرنے کی خاطر مغربی حصے کے وفاقی یونٹوں کو جبراً ضم کرکے ون یونٹ قائم کردیا گیا۔ جس نے صرف بنگالی عوام ہی نہیں بلکہ مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کے عوام کے جمہوری حقوق کی گردن پر کند چھری چلادی۔ جس کا منطقی انجام مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شکل میں ظاہر ہوا۔

اب دوسری طرف آئیے۔ متذکرہ بالا واقعات سے قبل 1953ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے بنا کسی ٹھوس منطقی جواز کے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ اسپیکر مولوی تمیز الدین خان کی پٹیشن پر سندھ چیف کورٹ نے اسمبلی بحال کردی۔ مگر جب مقدمہ سپریم کورٹ میں گیا تو جسٹس منیر مرحوم نے نظریہ ضرورت کو بنیاد بناکر اسمبلی کی تحلیل کو جائز قرار دے دیا۔ پاکستان کی سیاسی، انتظامی اور عدالتی تاریخ میں یہ وہ موڑ تھا، جس نے اس ملک میں شفاف حکمرانی کے راستے مسدود کردیے۔

دراصل 1954ء میں دو واقعات رونما ہوئے، جنھوں نے گورنر جنرل کو دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کرنے پر مجبور کیا۔ اول، دستور ساز اسمبلی میں بعض اراکین کی جانب سے امریکا کے ساتھ غیر ذمے دارانہ انداز میں بڑھتے ہوئے تعلقات پر احتجاج شروع ہوگیا تھا، جو امریکا نواز گورنر جنرل اور بیوروکریسی کے لیے ناقابل قبول تھا۔ اسی دوران کچھ اراکین کی طرف سے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی قرارداد جمع کرائی گئی۔ دوئم، دستورکے ابتدائی مسودے میں (پارلیمانی ہونے کی وجہ سے) صدر کے محدود اختیارات تھے۔

گورنر جنرل ملک غلام محمد کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ نئے آئین کے تحت ضروری نہیں کہ انھیں ملک کا صدر منتخب کرلیا جائے۔ اگر منتخب کر بھی لیا جاتا ہے، تو اختیار محدود ہونے کی وجہ سے وہ فیصلہ سازی میں دخیل نہیں ہوسکیں گے۔ لہٰذا انھوں نے دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کر کے آمرانہ طرز عمل کی بنیاد رکھی۔ جب کہ عدلیہ نے نظریہ ضرورت کے ذریعے اس تصور کو آئینی تحفظ فراہم کردیا۔

اگر دنیا کے مختلف ممالک کے سیاسی اور انتظامی ڈھانچوں کا مطالعہ کرتے ہیں، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے یہاں بہتری کے لیے عزم و بصیرت کا فقدان ہے۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، جب بڑے زور و شور سے سیاسی قیادتوں کو عدالت کے کٹہرے میں لایا گیا، انھیں سزائیں بھی دلوائی گئیں۔ لیکن ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی ریاستی اداروں اور بیوروکریسی کو کبھی احتساب کے دائرے میں لانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرپشن، بدعنوانیوں اور بدانتظامیوں میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہوا۔ جب کہ عوام کا نظام عدل اور احتساب پر سے اعتماد اٹھتا چلا گیا۔ آج ملک میں جو بے یقینی کی کیفیت جاری ہے اور معاشرہ دو انتہاؤں میں منقسم ہوا ہے، اس کے پس پشت بھی غلط فیصلوں کا بڑا دخل ہے۔

پھر عرض ہے کہ احتساب ضرور ہو، مگر بلاتخصیص سب کا۔ لیکن اس سے پہلے نظام حکمرانی اور نظام عدل میں تطہیر اور تنظیم نو کی بھی ضرورت ہے۔ اب یہ سلسلہ شروع کردیا گیا ہے، تو پھر اسے رکنا نہیں چاہیے۔ بلکہ ہر اس شہری کا احتساب ہونا چاہیے جو اقتدار و اختیار کی کسی نچلی ترین سطح پر ہی کیوں نہ ہو۔ یہ کام اسی وقت پائیدار اور دیرپا ہوگا، جب عوام کی منتخب کردہ پارلیمان ریاستی امور کے بارے میں خود کو assert کرتے ہوئے فیصلے کرے۔
Load Next Story