بڑھتا تجارتی خسارہ انڈونیشیا کیساتھ پی ٹی اے کی منسوخی پر غور شروع

معاہدے سے قبل پاکستان کو انڈونیشی برآمدات84 کروڑ، معاہدے کے بعد4ارب ڈالر ہوگئیں

2015-16کے دوران پاکستان کو ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں 4ارب روپے کا خسارہ برداشت کرناپڑا، ذرائع۔ فوٹو : فائل

وفاقی وزارت تجارت نے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے پر قابو پانے کے لیے مختلف ملکوں کے ساتھ ترجیحی تجارت کے معاہدوں پر نظر ثانی شروع کردی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ وزارت تجارت نے انڈونیشیا کے ساتھ ترجیحی تجارت کا معاہدہ منسوخ کرنے پر غور شروع کردیا ہے جس کا حتمی فیصلہ نئی کابینہ کی تشکیل اور وزیر تجارت کے انتخاب کے بعد کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ پاکستان اور انڈونیشیا کے مابین ترجیحی تجارت کا معاہدہ فروری 2012میں طے پایا جس پر ستمبر 2013سے عمل درآمد شروع کیا گیا۔ معاہدے سے قبل پاک انڈونیشیا باہمی تجارت کا حجم 89کروڑ ڈالر تھا جس میں پاکستان کی انڈونیشیا کو ایکسپورٹ 4کروڑ 83لاکھ ڈالر جبکہ انڈونیشیا کی پاکستان کو ایکسپورٹ 84کروڑ 27لاکھ ڈالر تھا۔


اس طرح پاکستان کو انڈونیشیا کے ساتھ 80کروڑ ڈالر کا خسارہ تھا تاہم ترجیحی تجارت کے معاہدے کا تمام تر فائدہ انڈونیشیا کو پہنچا اور پاکستان نے ملائیشیا کے مقابلے میں ڈیوٹی کم ہونے کی وجہ سے خوردنی تیل کی درآمد انڈونیشیا سے شروع کردی جس کی وجہ سے انڈونیشیا کے ساتھ پاکستان کی درآمدات 2ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جس کے نتیجے میں انڈونیشیا کے ساتھ تجارتی خسارہ بھی ڈیڑھ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

خیال رہے کہ انڈونیشیا کے ساتھ ترجیحی تجارت کا معاہدہ پاکستان کے لیے ریونیو کے خسارے کا بھی ذریعہ بن رہا ہے۔ انڈونیشیا کی مصنوعات پر ڈیوٹی کی چھوٹ اور رعایت کی وجہ سے صرف مالی سال 2015-16کے دوران قومی خزانے کو ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں 4ارب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا جبکہ پاکستان نے ایران اور ماریشس کے ساتھ بھی ترجیحی تجارت کے معاہدے طے کیے ہیں جن سے پاکستان کی برآمدات بڑھنے کے بجائے درآمدات میں اضافہ ہورہا ہے۔

 
Load Next Story