شہر کے کئی پیڈسٹرین برج ٹوٹ پھوٹ کا شکار

بالائی گزر گاہوں کی مرمت کے لیے فنڈز مختص نہ کیے جانے کے باعث کئی شاہراہوں پر پلوں کی مرمت نہ ہوسکی


Syed Ashraf Ali July 31, 2017
پلوں پرنشئی افراد ،خوانچہ فروشوں اور بے گھر افراد نے قبضہ کرلیا، راہ گیر خواتین اور طالبات کو پریشانی۔ فوٹو: ایکسپریس

ادارہ ترقیات کراچی کی غفلت سے شہر کی کئی بالائی گزر گاہیں (پیڈسٹرین برج) تباہ حالی اور ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں، پیدل چلنے والوں کے لیے تعمیر کیے گئے پلوں پر نشئی افراد ،خوانچہ فروشوں اور بے گھر افراد نے قبضہ کرلیا ہے۔

شہر میں پیدل چلنے والوں کی سہولت کے لیے 120 بالائی گزرگاہیں (پیڈسٹرین برج) تعمیر کیے گئے ہیں جن میں 100پلوں کی دیکھ بھال اور نگرانی ادارہ ترقیات کراچی کررہا ہے 20پلوں کی نگرانی مختلف کنٹونمنٹ بورڈز کررہے ہیں پل شہر کی مصروف شاہراہوں پر نصب ہیں ان پلوں کی تعمیر کا مقصد مصروف شاہراہوں کو عبور کرنے والے شہریوں کی حفاظت تھا تاہم پیڈسٹرین برجز کی ٹوٹ پھوٹ سے راہ گیر پریشان ہیں، رات کے وقت میں نشئی افراد اور بے گھر پیڈسٹرین پلوں پر قبضہ کرکے سوجاتے ہیں نشئی افراد پلوںپر بیٹھ کر نشہ کرتے ہیں۔

ادارہ ترقیات کراچی کی بحالی کو ایک سال گزرچکا ہے تاہم پیڈسٹرین برجز کی مرمت کے لیے فنڈز مختص نہ کیے جانے کے باعث لیاقت آباد سپرمارکیٹ، ایف ٹی سی بلڈنگ ، نیو پریڈی اسٹریٹ ، یونیورستی اور شہر کی مصروف شاہراہوں پر نصب پلوں کی مرمت التواکی شکار ہے۔

ماضی میں سابقہ شہری حکومت نے نجی کمپنی کے اشتراک سے 20پیڈسٹرین برج بلڈ آپریٹ ٹرانسفر(بی او ٹی) بنیاد پر تعمیر کیے، نجی کمپنیوں نے پیڈسٹرین برجز شہر کی مختلف شاہراہوں پر تعمیر کیے اور معاہدے کے تحت اشتہاری بل بورڈز آویزاں کرکے آمدنی حاصل کررہے تھے۔ گزشتہ سال سپریم کورٹ کی ہدایت پر شہر کے تمام اشتہاری بل بورڈز ہٹادیے گئے جس کے بعد پیڈسٹرین برجز سے بھی اشتہاری بل بورڈز اتار دیے گئے۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ برجز بھی ادارہ ترقیات کراچی کی نگرانی میں دیے جاچکے ہیں تاہم ان کی دیکھ بھال اور مرمت نجی کمپینوں کی ذمے داری ہے اشتہاری بل بورڈز پر پابندی عائد ہونے کی وجہ سے نجی کمپینوں کی آمدنی بند ہوگئی ہے اس لیے انھوں نے اپنے برجز کی دیکھ بھال چھوڑدی تاہم اس وقت سب سے زیادہ مخدوش صورتحال بی او ٹی پر تعمیر ہونے والے اردو سائئس یونیورسٹی گلشن اقبال کیمپس کے سامنے نصب بالائی گزرگاہ کی ہے چند دن قبل ایک ڈمپر کی ٹکر سے اس بالائی گزرگاہ کے چار سلیب ٹوٹ گئے تھے۔

واضح رہے کہ 3 سال قبل بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ انسداد تجاوزات نے ایک بلڈر کی خواہش پر عدالت کے حکم امتناع کے باوجود اسی پیڈسٹرین برج سے منسلک پیدل چلنے والوں کے لیے تعمیر کردہ ریمپ کو توڑ دیا تھا، یہ بالائی گزرگاہ اب پیدل چلنے والوں کے لیے ناقابل استعمال ہوچکی ہے، اردو یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات اور شہریوں کو سڑک عبور کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

سندھ حکومت کی زیر نگرانی یونیورسٹی روڈ حسن اسکوائر تا نیپا چورنگی کی تعمیر کے دوران متعلقہ ٹھیکیدار نے سڑک کی درمیانی فٹ پاتھ کا جنگلہ توڑ دیا تھا اور اسکریب نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا، اصولی طور پر یونیورسٹی روڈ کی درمیانی فٹ پاتھ پر جنگلہ نصب کرنا چاہیے تھا تاہم سندھ حکومت کی غفلت کے باعث یہاں جنگلہ نصب نہیں کیا گیا جس کے باعث شہری بالائی گزرگاہ کو استعمال کرنے کے بجائے زمینی راستے سے سڑک عبور کرتے ہیں اور حادثات کا شکار ہورہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔