پاناما کیس کا تاریخی فیصلہ وزیراعظم کی نا اہلی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی

قانونی و سیاسی تجزیہ نگاروں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو

وزیراعظم کی نااہلی کے بعد ملک کی سیاسی صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

DUBAI:
پانامہ کیس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 28 جولائی کو فیصلہ سنا یا جس کے تحت وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا گیا جبکہ نیب کو 6ہفتوں میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔

وزیراعظم کی نااہلی کے بعد ملک کی سیاسی صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے جبکہ عوام و خواص کی نظریں مستقبل کے سیاسی منظر نامے پر لگی ہیں۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ''پانامہ لیکس کا فیصلہ، وزیراعظم کی نااہلی اور مستقبل پر اس کے اثرات'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں قانونی و سیاسی تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

رمضان چودھری (سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل )

سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ نے متفقہ فیصلے سے وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ سنایا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے ان کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ، اب میاں نواز شریف اپنا دفتر چھوڑ چکے ہیں جسکے بعد کابینہ تحلیل ہوگئی ہے جبکہ نئے وزیراعظم کے منتخب ہونے تک سپیکر قومی اسمبلی معاملات چلائیں گے۔ وزیراعظم کی نااہلی کے بعد اب صدر اسمبلی کا سیشن کال کرینگے، پھر ایک تاریخ دی جائیگی جس دن وزیراعظم کا امیدوار اسمبلی سے اکثریت کا ووٹ لے گا اور وزیراعظم منتخب ہوجائے گا لیکن اگر وہ اکثریت حاصل نہ کرسکا تو پھر آئین کے مطابق صدر اسمبلی تحلیل کردیں گے، نگران حکومت بنائیں گے اور پھر دوبارہ الیکشن ہونگے۔مسلم لیگ (ن) کیلئے یہ صورتحال کافی مشکل ہے، اس فیصلے کے بعد میاں نواز شریف نہ تو وزیراعظم رہے ہیں اور نہ ہی جماعت کی سربراہی ان کے پاس ہے، بلکہ اب جماعت میں دھڑے بندی بھی ہوسکتی ہے لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ اب نواز شریف کس طرح اس ساری صورتحال کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل انہی ججوں کے پاس ہوگی، اب یہ سارا کیس دوبارہ نہیں سنا جاسکتا لیکن اگر اس میں کہیں ریکارڈ کی غلطی ہے تو اس پر نظر ثانی ہوسکتی ہے لہٰذا اب اس فیصلے کی نظر ثانی میں کوئی امید نہیں ہے۔ عدالت نے نیب کو 6ہفتوں میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا ہے، اب یہ معاملہ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے لیے مزید مشکل ہوگیا ہے۔میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی گرفتاریاں عمل میں لائی جاسکتی ہیں۔

سلمان عابد (دانشور)


پانامہ کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ملک میں طاقتور کا احتساب بھی ہوسکتا ہے چاہے وہ وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو۔ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی نے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو 5ماہ دیئے مگر وہ نہ تو سپریم کورٹ کو مطمئن کرسکے اور نہ ہی جے آئی ٹی کو، جس کے بعد یہ فیصلہ آیا ہے۔ میرے نزدیک پانامہ لیکس نے میاں نوازشریف کے لیے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح سے اپنی قیادت میں پارٹی کو متحد رکھتے ہیں اور کسے وزیراعظم نامزد کرتے ہیں۔سننے میں آیا ہے کہ میاں شہباز شریف کو نئے وزیراعظم کے لیے نامزد کیا جارہا ہے، میرے نزدیک سیاسی طور پر اس کے غلط اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ یہ دوبارہ موروثی سیاست کی طرف جارہے ہیں جس سے پارٹی کے اندر شدید تحفظات پیدا ہوسکتے ہیں۔دوسری جانب وزیر اعظم کی نااہلی کے بعد اب سپریم کورٹ پر دباؤ بڑھ جائے گا، احتساب کے اس عمل کو میاں نواز شریف اور ان کے خاندان پر ختم نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کا دائرہ کار پھیلانا چاہیے۔ اس وقت عمران خان، جہانگیر ترین، آصف زرداری و دیگر لوگوں پر کیسز موجود ہیںلہٰذا اب آنے والے دنوں میں مزید لوگ احتساب کے شکنجے میں آئیں گے اور سپریم کورٹ احتساب کے اس عمل کو لیڈ کرے گی۔ میاں نواز شریف اب اس فیصلے کی بنیاد پر سیاسی میدان میں نکلنے کی کوشش کریں گے اور اس احتساب کو تعصب کا نام دیں گے اور کہیں گے کہ اس میں ملکی اور غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ سمیت کئی ادارے شامل ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر اس نظام کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کے ذمہ دار میاں نواز شریف ہوں گے۔

محمد مہدی (رہنما پاکستان مسلم لیگ ن)

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کرپشن سامنے نہیں آئی بلکہ صرف اس بات پر وزیراعظم کو نااہل کردیا گیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہیں لی جبکہ اربوں روپے کی کرپشن اور فلیٹ خریدنے کے الزامات پر کڑی تفتیش کے بعد بھی کچھ نہیں نکلا۔ میرے نزدیک یہ فیصلہ قانونی نہیں جذباتی ہے۔ اس فیصلے کے بعد پاکستانی عوام اور ووٹرز کے اعتماد میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ لوگ عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں شامل ہونے پر نادم ہیں۔ یہ باعث افسوس ہے کہ 70برس سے اس ملک میں جمہوریت کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ پاکستان کے تمام وزرائے اعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس کے کارکن جمہوریت پسند ہیں، ہم نے ہمیشہ جمہوریت کیلئے لڑائی لڑی ہے، اب بھی اسی کوشش کی سزا دی گئی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میںا یک ٹولہ ایسا ہے جو سیاستدان نہیں مفاد پرست ہے اور ہر وقت چور راستے سے اقتدار میںآنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی کی وجہ سے ہی ہمیشہ ملک کو نقصان پہنچا ہے۔ آج بھی یہ ٹولہ متحرک ہے مگر اسے کامیابی نہیں ہوگی۔ عدالت کی طرف سے نااہل کیے جانے کا فیصلہ قبول نہیں ہے مگر وزیراعظم نے اپنا آفس چھوڑ دیا ہے۔ ہماری لیگل ٹیم اس کیس کا تفصیلی جائزہ لے گی ، اس کے ہر پہلو پر غور کیا جائے گا جس کے بعد اپیل کی جائے گی اور ہم اس کیس کو قانونی طریقے سے لڑیں گے۔ میاں نواز شریف کی طاقت عوام ہیں لہٰذا وہ اب عوام کے پاس بھی جائیں گے اور اس کیساتھ ساتھ عمران خان و دیگر کے خلاف موجود کیسز کی مکمل پیروی کی جائے گی اور ان کی نااہلی بھی 62/63کے تحت ہوگی۔

ڈاکٹر امجد مگسی (سیاسی تجزیہ نگار )

پانامہ کیس کے فیصلے کے پاکستان کی سیاست پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس فیصلے کو خوش آئند قرار نہیں دیا جاسکتا، اب دیکھنا یہ ہے کہ احتساب کا یہ عمل کہاں تک جاتا ہے، کیا یہ واقعی احتساب کی بے لاگ کوشش ہے یا پھر کسی ایک خاندان کو سیاست سے نکالنے کیلئے کیا گیا ہے؟ میرے نزدیک سپریم کورٹ کو قانون کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے اب بہت سارے اقدامات اٹھانا ہوں گے اور یہ یقین پیدا کرنا ہوگا کہ یہ احتساب کسی ایک جماعت کو نشانہ بنانے کیلئے نہیں ہے۔ افسوس ہے کہ ہم 70برسوں میں ایک مضبوط سیاسی نظام نہیں بنا سکے، اگرچہ اس میں قصور سیاستدانوں کا بھی ہوگا مگر تمام قصور ان کا نہیں ہے بلکہ دیگر ادارے بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ سیاستدان عوامی نمائندے ہیں، ان کی قسمت کا فیصلہ بھی سیاسی میدان میں ہونا چاہیے اور سیاسی طریقے سے ہی ان کی ہار جیت ہونی چاہیے۔ اس وقت ملک کسی تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا اور ملک میں عدم استحکام کی صورتحال سے دشمن فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ میرے نزدیک 62/63کے تحت کسی کو بھی نااہل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے ایک نیا پنڈورا باکس کھلے گا اور ہر روز ایک سیاستدان نااہل ہوگا جس سے سیاست اور خود سیاستدانوں کو بھی نقصان پہنچے گا لہٰذا انہیں میچورٹی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔مسلم لیگ (ن) کیلئے حالات قدرے مشکل ہیں، نواز شریف کو بڑے فیصلے لینا ہونگے ۔ گزشتہ چار برس میں تنظیم سازی پر توجہ نہیں دی گئی، اب انہیں اپنی جماعت کو منظم کرنا چاہیے اور 2018ء کے الیکشن کے لیے تیار کرنا چاہیے ۔ شہباز شریف کو وزیر اعظم کے طور پر منتخب کرنا اچھا فیصلہ ہوگا کیونکہ نواز شریف کے بعد شہباز شریف پارٹی معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں، وہ پنجاب کے سیاسی حالات سے بھی واقف ہیں اور ترقیاتی منصوبوں میں بھی پیش پیش ہیں لہٰذان کو منتخب کرنے سے پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوگی۔
Load Next Story