’شہید محمد خان چوک‘

قانون نافذ کرنیوالےاداروں کے اہلکاروں کو پیغام ہے کہ آپ اپنے پیشے سے مخلص ہیں تو ہم بھی آپکو سر آنکھوں پربٹھائیں گے

یہ مطالبہ دو حوالوں سے انتہائی حوصلہ افزاء ہے۔ پہلی بات یہ کہ عوام اپنے شہیدوں کو یاد رکھنا چاہتی ہے، اور دوسری اہم ترین بات یہ کہ لوگوں کو پولیس اہلکاروں سے نفرت نہیں بلکہ اُن کی چوری اور رشوت خوری سے نفرت ہے۔

شہید محمد خان ٹریفک پولیس کا ایک ایماندار، فرض شناس اور ہر دلعزیز اہلکار تھا۔ یہ ایماندار اور فرض شناس اہلکار 25 جولائی کی شام بھی معمول کے مطابق کراچی کے ابوالحسن اصفہانی روڈ پر اپنی ڈیوٹی سر انجام دینے میں مصروف تھا کہ اچانک نامعلوم موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے اُن پر فائرنگ کردی، چونکہ حالات کے پیشِ نظر محمد خان نے بھی حفاظتی انتظامات کے تحت بلٹ پروف جیکٹ پہنی ہوئی تھی، اس لیے ظالم قاتل نے چہرے کو نشانہ بنایا اور یوں محمد خان موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے۔

محمد خان چونکہ مذکورہ مقام پر طویل عرصے سے دھوپ، بارش، سردی اور گرمی سے بے نیاز پوری تندہی سے اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے، اِس لیے علاقہ مکین اور اس سڑک سے روز گزرنے والے افراد اُن سے اچھی طرح واقف ہوگئے تھے۔ روزانہ گزرتے ہوئے دعا سلام اور خیر خیریت پوچھا کرتے۔

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہر ٹریفک پولیس رشوت خور اور فرائض کی انجام دہی میں غفلت کا مرتکب ہوتا ہے لیکن محمد خان کی شہادت کے بعد سے لوگوں کے تاثرات دیکھ کر مجھے یقین ہوچلا ہے کہ محمد خان روایتی پولیس اہلکار نہیں تھا۔ جب لوگوں کی جانب سے میں نے محمد خان کی بہت تعریف سنی اور پڑھی تو پھر مقامی لوگوں سے تصدیق کرنا چاہی اور جب اُنہوں نے بھی حق کی گواہی دی تو سوچا کہ کیوں نہ ایسے ایماندار فرد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا جائے۔

کہا جاتا ہے کہ کسی بھی انسان کے لیے گواہی وہی اہمیت رکھتی ہے جو اُن کی غیر موجودگی میں دی جائے، اور ایسی ہی بے شمار گواہیاں میں 25 جولائی کے بعد سے اب تک سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر دیکھ رہا ہوں۔ وہاں تقریباً تمام ہی لوگوں کے تاثرات میں چند باتیں مشترک تھیں۔ جیسے،

  • محمد خان شہید نے کبھی بلاوجہ شہریوں کو تنگ نہیں کیا۔

  • پولیس کے بارے میں رشوت خوری کا تاثر عام ہے، لیکن محمد خان کے بارے میں ایسی رائے کہیں بھی سامنے نہیں آئی۔

  • بیچ سڑک کسی کی گاڑی خراب یا بند ہوجاتی تو محمد خان آگے بڑھ کرمدد کیا کرتے تھے۔ دھکا لگانا پڑتا تو محمد خان بلاتردد آگے بڑھ کر دھکا بھی لگادیا کرتے۔


فیس بک پر ہی میں نے ایک صاحب کا کمنٹ پڑھا جس میں کہنے لگے کہ پیراڈائز بیکری کے باہر کچھ مسئلہ ہوا جس پر فوری طور پر محمد خان مدد کو آگئے۔ جب معاملہ ختم ہوا تو میں نے مدد کی نیت سے محمد خان کو کچھ رقم دینا چاہی تو مسکراتے ہوئے انہوں نے بڑے پیار سے کہا کہ نہیں بیٹا 'مجھے تنخواہ ملتی ہے۔'


انہی خدمات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اہلِ علاقہ کی خواہش ہے کہ جس چوک پر دورانِ ڈیوٹی ان کو شہید کیا گیا، وہ چوک 'محمد خان شہید' سے منسوب کی جائے۔ سچ پوچھیے تو یہ مطالبہ دو حوالوں سے انتہائی حوصلہ افزاء بات ہے۔ پہلی بات یہ کہ عوام اپنے شہیدوں کو یاد رکھنا چاہتی ہے، اُن کا لہو خاک میں ملانا نہیں چاہتی، اور دوسری اہم ترین بات یہ کہ لوگوں کو پولیس اہلکاروں سے نفرت نہیں بلکہ اُن کی چوری اور رشوت خوری سے نفرت ہے، لیکن اگر کوئی اہلکار اپنی ذمہ داریوں کو ٹھیک طرح سے ادا کرے تو لوگ نہ صرف اُن کی عزت کریں گے بلکہ اُن کو اچھے نام سے یاد بھی رکھیں گے۔

یہ مطالبہ اِس حوالے سے بھی بہت اہم ہے کہ اِس اقدام سے ہم دہشت گردوں کو یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ آپ کی بزدلانہ کارروائیاں ہمارا عزم اور حوصلہ پست نہیں کرسکتی۔ ہم پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو بھی یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ جب تک آپ ہمارے محافظ ہیں اور اپنے پیشے سے مخلص ہیں تو ہم بھی آپ کو سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔

بہت سارے احباب پولیس کے عمومی تاثر کی وجہ سے متنفر ہوگئے ہیں لیکن میں اُن سے گزارش کروں گا کہ جب ہم اچھائی کی حوصلہ افزائی کریں گے تو یقیناً بُرے لوگ بھی اچھا بننے کی طرف راغب ہوں گے۔

اگرچہ وطنِ عزیز میں اِس وقت دیگر کئی اہم معاملات جاری ہیں، لیکن یہ تو ابتداء سے چل رہے اور چلتے رہیں گے، اِس کا یہ قطعی طور پر مطلب نہیں کہ دیگر معاملات کو پسِ پشت ڈال دیں۔ اِس لیے ہم حکومت اور متعلقہ اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر موجود پیراڈائز بیکری کے سامنے چوک کا نام ''شہید محمد خان چوک'' رکھا جائے اور ہر ایک اہلکار کو یہ پیغام دیا جائے کہ رشوت خوری اور غفلت کے نتیجے میں آپ کو کچھ وقت کے لیے تو راحت مل سکتی ہے، لیکن وہ مقام و مرتبہ نہیں مل سکتا ہے جو ایماندار اور فرض شناس لوگوں کو ملا کرتا ہے۔

[poll id="1401"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
Load Next Story