’’تجسس‘‘ ۔۔۔۔۔۔ انسان کو عظمت دلانے والی خوبی
انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے، جس کو جاننے کا، کھوج لگانے کا، سیکھنے کا، پتہ لگانے کا اور بات کی تہہ تک جانے کا شوق ہے۔
ہم زندگی میں تین طرح کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ پہلی قسم کورس اور نصاب کی کتابوں پر مشتمل ہے۔
ان کو پڑھے بغیر اور یاد کیے بغیر امتحانات پاس نہیں ہوتے اور نہ ہی ڈگری ان کے بغیر ملتی ہے۔ کورس کی کتابوں کو اپنے وقت کے ماہر تعلیم، دانش ور، سائنسدان اور علما کرام ترتیب دیتے ہیں۔ ہر دور اور ہر زمانے کی تحقیق کے مطابق کورس تبدیل ہوجاتے ہیں، اس لیے تعلیم کو اور تعلیم یافتہ کو ماپنے کے معیار بھی بدل جاتے ہیں۔ دوسری قسم کی کتابیں ہمارے شوق اور مزاج کے انتخاب کا حصہ ہوتی ہیں۔ یہ کتابیں سیاست، مزاح، فکشن، مذہب، سوانح عمری، سفرنامے، سیلف ہیلپ ، فلسفہ، شاعری، حکمت و دانش، روحانیت کی ہوسکتی ہیں۔ ہم اپنی پسند کے مطابق ان کتابوں کو پڑھتے ہیں۔ یہ کتابیں ہمیں سوچ دیتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہماری شخصیت کو پروان چڑھانے میں مددگار بھی ہوتی ہیں۔ ہم نے ان کتابوں کا امتحان نہیں دینا ہوتا، لیکن یہ کتابیں ہمیں زندگی کے کئی امتحانوں سے کامیاب گزارتی ہیں۔
کتابوں کی تیسری قسم الہامی کتابوں کی ہے۔ یہ کتابیں خدا تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کیلئے زمین پر اتاریں اور ان کتابوں میں آخری کتاب قرآن کریم ہے۔ قرآن کریم عربی میں ہے، ہم اس کتاب کو ادب اور احترام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ قرآن کریم کو سمجھنے کیلئے اردو ترجمے کی مدد لیتے ہیں۔ تاہم ماہرین لسانیات اس پر متفق ہیں کہ کسی زبان کی تحریر کو دوسری زبان میں ہوبہو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن مجید تو ویسے بھی اللہ کا کلام ہے، جو رہتی دنیا تک کے لئے رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہے۔ دل کی آنکھ سے اور غور و فکر کر کے پڑھنے والوں کو اس کی آیات میں جہان معانی پنہاں نظر آتا ہے اور علم و معرفت کے نئے نئے در وا ہوتے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے علوم کا احاطہ ممکن نہیں۔
مجھے قرآن کریم سے محبت ہے اور میں اس کا ترجمہ تھوڑی سی محنت کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ کل میں سورۃ العلق پڑھ رہا تھا، یہ آخری پارے کی سورۃ ہے۔ رسولؐ اللہ ﷺ پر پہلی وحی کے موقع پر نازل ہوئی۔ اس کی آیت نمبر چار ہے ''الذی علمہ بالقلم۔'' اس آیت کا ترجمہ عموماً یہ کیا جاتا ہے کہ ''ہم نے تمہیں علم دیا قلم کی مدد سے۔'' اللہ کریم نے مہربانی فرمائی اور تھوڑی سی محنت اور غور و فکر سے مجھے پتا چلا کہ قرآن میں ''قلم'' کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک ''لکھنے والا آلہ''، اور دوسرا ''کسی شے کو کاٹنا۔'' اب یاد رکھیے کہ جب ہم کسی شے کو کاٹتے ہیں تو ہمیں اس کی اصل حقیقت کا علم ہوتا ہے۔ کاٹنے کے عمل کو آپ اصل چیز تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھ سکتے ہیں۔ اس لئے یہاں قلم سے مراد اس انسانی صفت کو بھی لیا جا سکتا ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دوسری مخلوقات سے اشرف اور ممتاز بنانے کیلئے دی، یعنی تجسس۔
انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے، جس کو جاننے کا، کھوج لگانے کا، سیکھنے کا، پتہ لگانے کا اور بات کی تہہ تک جانے کا شوق ہے۔ انسانی تاریخ کی ساری ترقی، سارا علم اور ساری کامیابی اس صفت کی مرہون منت ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ آج انسان اپنی تحقیق اور تجسس کی صلاحیت سے یہ جان چکا ہے کہ دنیا میں بچھو کی 1200 اقسام ہیں۔ وہ یہ بھی جان چکا ہے کہ یہ کہاں کہاں پائے جاتے ہیں، کس بچھو کا زہر کس کام آسکتا ہے، کون سے زیادہ نقصان دہ اور کون سے فائدہ مند ہیں۔ لیکن دنیا کا کوئی بچھو کسی بھی انسان کے متعلق کچھ نہیں جانتا کیونکہ رب کریم نے اسے علم سیکھنے کا مزاج اور صفت عطا نہیں کی۔ انسان کے سر پر عظمت کا تاج پہنا کر باقی مخلوقات کا سردار اس لیے بنا دیا کہ انسان ساری مخلوقات' چھوٹے سے چھوٹے جراثیم اور بڑے سے بڑے ڈائینو سار کے متعلق علم اکٹھا کر لے گا لیکن کوئی مخلوق دوسرے کے متعلق تو کیا اپنے متعلق بھی نہیں جانتی۔
تجسس ہماری زندگی میں ''کیوں، کیا اور کیسے؟'' کو پیدا کرتا ہے اور جس کی زندگی میں کیوں، کیا اور کیسے موجود ہو وہ خوش قسمت ہے، کیونکہ جب آپ کا سیکھنے کا شوق سلامت ہوتا ہے تو آپ کو اپنی حالت کی خبر ہونے لگتی ہے اور اپنی خبر آپ کو تبدیلی اور ترقی کیلئے اکساتی ہے۔ میں کامیاب کیوں نہیں ہورہا؟ کامیاب ہونے کا کیا طریقہ ہے؟ میں ترقی کیسے کرسکتا ہوں؟ یہ وہ تین قیمتی سوال ہیں جو واقعی اگر کسی کے پاس ہوں تو وہ ان کے جواب تلاش کرکے اپنی زندگی بدل سکتا ہے۔
یاد رکھیں، دنیا کے اندر بڑی سے بڑی تبدیلی کسی انسان کے تجسس کی وجہ سے اس کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کی وجہ سے آئی۔ مثال کے طور پر اگر رائیٹ برادران کے تجسس کی وجہ سے یہ سوالات اس کے اندر نہ اٹھتے کہ پرندوں کی طرح انسان ہوا میں کیوں نہیں اڑ سکتے؟ کیا ہوا میں اڑنے کا کوئی طریقہ موجود ہے؟ اور ہم کیسے ہوا میں اڑ سکتے ہیں؟ تو انسانی دنیا میں جو انقلاب ہوائی جہازوں کی وجہ سے آیا وہ نہ آپاتا۔ دنیا کی ساری ایجادات اور دریافتوں کی لسٹ بنالیں، یہ سب انسان کے تجسس کا کمال ہیں۔ ہر شعبے کی ترقی اور آج کی آسانیاں سب تجسس کی وجہ سے ممکن ہوئی ہیں۔
جاننا ہماری جبلت میں شامل ہے۔ آپ ایسے لوگوں کو ذہن میں لائیں جو ترقی اور کامیابی کے طلب گار نہیں، وہ سب تجسس کو کھوچکے ہیں یا انہوں نے اس عطیہ خداوندی کو سلا دیا ہے۔ تجسس اور جاننے کی صلاحیت، آپ کی وہ صفت ہے، جسے کام میں لاتے رہیں تو یہ متحرک اور فعال (Active) رہتی ہے۔ اگر اس کو استعمال کرنا چھوڑ دیں تو یہ آپ کی پوری شخصیت کو فریز کردیتی ہے۔ آپ کو بعض لوگ جمود زدہ محسوس ہوں گے کیونکہ انہوں نے جاننا اور سیکھنا چھوڑ دیا ہے یا ان کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ میں اس غلط فہمی کو بدقسمتی سمجھتا ہوں۔ کیونکہ جو اعزاز اللہ کریم نے خود بخشا ہو، اس سے محروم ہونا تو بدقسمتی ہے۔
شعبہ تدریس سے وابستگی کی وجہ سے میرا بہت سا وقت ٹیچرز ٹریننگ میں گزرا ہے اور المیہ یہ ہے کہ سب سے کم تجسس اور Learning attitude (سیکھنے کا جذبہ) میں نے ٹیچرز میں دیکھا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کبھی میں نے کسی ٹریننگ ورکشاپ میں پوچھا کہ آپ لوگ کتابیں پڑھتے ہیں تو مثبت جواب کم ہی ملا۔ عام طور پر انہیں اپنے ہی شعبے کی تازہ ریسرچ اور کتابوں کا علم نہیں ہوتا، نہ ہی وہ سیمینارز اور لیکچرز میں نظر آتے ہیں۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے، لوگ یوٹیوب اور فیس بک کے ذریعے میرے لیکچرز سن کر فیڈ بیک دے رہے ہوتے ہیں، لیکن شبعہ تدریس کے اکثر لوگ اس ٹیکنالوجی سے واقف نہیں اور نہ ہی سیکھنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آج کا طالب علم چھوٹا ہونے کے باوجود سیکھنے کا شوق اور جذبہ بھی رکھتا ہے، لیکن اساتذہ اس کی پیاس بجھانے کا ذریعہ نہیں بنتے اور وہ محروم ہی رہ جاتا ہے۔
تجسس کی خوبی کا ایک بہت ہی خوبصورت پہلو یہ ہے کہ ہم سب کا مزاج جدا جدا ہے اور ہم سب میں سیکھنے اور جاننے کا شوق بھی الگ الگ شعبے کا ہے۔ یہ شوق قدرت نے ہمیں عطا کیا ہوتا ہے تاکہ ہم اپنی زندگی میں درست پیشے اور کیریئر کا انتخاب کرسکیں۔ قدرت نے جس شعبے میں آپ کو ترقی دینا ہوتی ہے، اس فیلڈ کی انفارمیشن آپ کے پاس زیادہ ہونے لگتی ہے، کیونکہ آپ کے پاس اس شعبے کا تجسس اور شوق موجود ہوتا ہے۔ لوگ اپنے تجسس کو دریافت نہیں کرتے اور ساری زندگی غلط پیشے اور کام کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔ کامیابی کسی خاص پیشے میں نہیں ہوتی، کامیابی دراصل آپ کے اس پیشے کے ساتھ لگائو میں چھپی ہوتی ہے، اس لیے ایک ناکام ڈاکٹر بننے سے بہتر ہے کہ آپ ایک کامیاب ٹیچر بن جائیں۔
تجسس علم بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے اور علم آپ کی شخصیت میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ اس لیے کبھی اپنے تجسس کو ٹھنڈا نہ ہونے دیجئے۔ لاعلمی کا احساس اور سیکھنے کا مزاج آپ کو ہمیشہ علم کا طالب بنائے رکھتے ہیں اور طالب علم کے قلم کی سیاہی کو شہید کے خون سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ علم آپ کی زندگی میں روشنی کا سبب بنتا ہے۔ علم والا خود کا علم بھی رکھتا ہے، اس لیے خود کو بہتر بنانے کو بھی جہاد قرار دیا گیا ہے۔
اشفاق احمد صاحب اپنے مشہور پروگرام ''زاویہ'' میں فرماتے تھے کہ، ''کبھی بھی اپنے اندر کا بچہ نہ مرنے دینا، یہ اندر کا بچہ تمہیں سیکھنے پر اکساتا ہے۔'' آپ نوٹ کیجئے سیکھنے اور جاننے کی صلاحیت ہم سے زیادہ چھوٹے بچوں میں موجود ہوتی ہے، لیکن ان کو یہ علم نہیںہوتا کہ کیا جاننا ہے اور کیا نہیں جاننا، جبکہ ہمیں اچھائی اور برائی کا علم تو ہوجاتا ہے لیکن ہم سیکھنے کے جذبے کو گنوا دیتے ہیں اور اس طرح ہماری ترقی کرنے کے سارے مسل فریز ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھیں پتھروں، دریائوں اور پہاڑوں کی تقدیریں نہیں بدلتیں کیونکہ وہ بدلتے نہیں ہیں، انسان کی تقدیر روز، جی ہاں، ہر روز بدل سکتی ہے کیونکہ انسان ہر روز اپنے تجسس کی وجہ سے اپنا علم بڑھا سکتا ہے اور علم اس کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔
سکول، کالج اور یونیورسٹی طالب علم کے تجسس کو بڑھانے کا ذریعہ بن جائیں تو طالب علم تحقیق کی طرف متوجہ ہوں گے۔ تحقیق یا ریسرچ کی بنیاد پر حاصل کی ہوئی تعلیم ہی اصل علم ہے۔ تمنا اور شوق کے بغیر سبق کا یاد ہونا دراصل لاعلمی ہے، یہ وہ کھانا ہے جسے آپ نے بغیر بھوک کے کھالیا۔ یقیناً نہ تو اس سے آپ لطف اندوز ہوں گے اور نہ ہی آپ اس سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔ تجسس آپ کو زندگی میں نئے راستے اپنانے پر اکساتا ہے، پھر آپ کے بنائے ہوئے راستوں سے ہزاروں لوگوں نے گزرنا ہوتا ہے، اس لیے تجسس آپ کو دوسروں سے نمایاں اور ممتاز بنا دیتا ہے۔
ذرا سوچئے، اس دنیا میں کتنے سیب درختوں سے زمین پر گرتے رہے ہوں گے، لیکن جب نیوٹن نے درخت سے سیب گرتے دیکھا تو اس کے تجسس نے اسے یہ سوال سوچنے پر مجبور کردیا کہ ''آخر سیب کو نیچے کھینچنے والی طاقت کون سی ہے؟'' اس تجسس نے ہی اس کو اتنا بڑا سائنسدان بنا دیا۔ آپ بھی اپنے تجسس کو ضائع نہ ہونے دیں۔ اس کو پہلے تو تلاش کریں، پھر اس کو درست سمت اور فائدہ مند علم اور معلومات کی طرف لگادیں۔ آپ ایک سال کیلئے اپنے ''تجسس کی خوراک'' کی فہرست مرتب کریں۔ حیران نہ ہوں، تجسس کی خوراک، وہ کتابیں، وہ لیکچرز، وہ سیمینارز ہیں جن کو آپ اس سال اٹینڈ کریں گے۔ علم بڑھنے سے علم کی پیاس بھی بڑھ جاتی ہے۔ جس طرح ایک چھوٹی سی کامیابی ایک بڑی کامیابی کو کھینچتی ہے، اس طرح علم مزید علم کو اپنی طرف کھینچ رہا ہوتا ہے۔ یہ بھی جانیں کہ کس کس شعبے میں آپ کو جاننے کی ضرورت ہے یا آپ جاننا چاہتے ہیں، جس شعبے کا تجسس آپ میں موجود ہے، اس شعبے کا علم حاصل کرکے آپ کو خوشی ملے گی اور راحت و اطمینان کا احساس بھی ہوگا۔
پچھلی صدی کا سب سے بڑا سائنسدان آئن سٹائن تھا۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ ''تم میں اتنا ٹیلنٹ کس طرح پیدا ہوا؟'' اس نے تھوڑا سا وقفہ لیا، سوال کرنے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور جواب دیا، ''تجسس کی وجہ سے۔'' آپ خود اندازہ کریں کے اتنا بڑا سائنسدان اپنی زندگی کی کامیابی کی وجہ تجسس کو ٹھہراتا ہے اور آج سوال پوچھنے والے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ چھوٹا بچہ سوال کرتا ہے، وہ قدرت سے سوال کرنے کا فن سیکھ کر آتا ہے، اس کا تجسس جوان ہوتا ہے، ہم اسے جواب نہیں دیتے بلکہ شرمندہ کردیتے ہیں۔ اس کا تجسس جوانی میں ہی بوڑھا ہوجاتا ہے اور وہ جوانی میں ہی فوت ہوجاتا ہے، کیوں کہ سیکھنے کی عمر میں سیکھنے کے جذبے کا موجود نہ ہونا موت ہے۔
یاد رکھیں، استاد تجسس کو بڑھانے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ میں ایک استاد ہوں، کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دنیا کا سارا حسن کس چیز کے دم سے ہے؟ وہ کون سی صلاحیت ہے جو اگر انسانوں میں نہ ہوتی تو آج بھی ہم پتھر کے دور میں کسی غار میں بیٹھ کر گوشت انجوائے کررہے ہوتے؟ تجسس کے بعد انسانی ترقی کا سبب بننے والی اہم صفت کے متعلق آپ کو اگلی نشست میں بتائیں گے۔ (یقینا آپ متجسس ہوگئے ہوں گے)
ان کو پڑھے بغیر اور یاد کیے بغیر امتحانات پاس نہیں ہوتے اور نہ ہی ڈگری ان کے بغیر ملتی ہے۔ کورس کی کتابوں کو اپنے وقت کے ماہر تعلیم، دانش ور، سائنسدان اور علما کرام ترتیب دیتے ہیں۔ ہر دور اور ہر زمانے کی تحقیق کے مطابق کورس تبدیل ہوجاتے ہیں، اس لیے تعلیم کو اور تعلیم یافتہ کو ماپنے کے معیار بھی بدل جاتے ہیں۔ دوسری قسم کی کتابیں ہمارے شوق اور مزاج کے انتخاب کا حصہ ہوتی ہیں۔ یہ کتابیں سیاست، مزاح، فکشن، مذہب، سوانح عمری، سفرنامے، سیلف ہیلپ ، فلسفہ، شاعری، حکمت و دانش، روحانیت کی ہوسکتی ہیں۔ ہم اپنی پسند کے مطابق ان کتابوں کو پڑھتے ہیں۔ یہ کتابیں ہمیں سوچ دیتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہماری شخصیت کو پروان چڑھانے میں مددگار بھی ہوتی ہیں۔ ہم نے ان کتابوں کا امتحان نہیں دینا ہوتا، لیکن یہ کتابیں ہمیں زندگی کے کئی امتحانوں سے کامیاب گزارتی ہیں۔
کتابوں کی تیسری قسم الہامی کتابوں کی ہے۔ یہ کتابیں خدا تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کیلئے زمین پر اتاریں اور ان کتابوں میں آخری کتاب قرآن کریم ہے۔ قرآن کریم عربی میں ہے، ہم اس کتاب کو ادب اور احترام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ قرآن کریم کو سمجھنے کیلئے اردو ترجمے کی مدد لیتے ہیں۔ تاہم ماہرین لسانیات اس پر متفق ہیں کہ کسی زبان کی تحریر کو دوسری زبان میں ہوبہو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن مجید تو ویسے بھی اللہ کا کلام ہے، جو رہتی دنیا تک کے لئے رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہے۔ دل کی آنکھ سے اور غور و فکر کر کے پڑھنے والوں کو اس کی آیات میں جہان معانی پنہاں نظر آتا ہے اور علم و معرفت کے نئے نئے در وا ہوتے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے علوم کا احاطہ ممکن نہیں۔
مجھے قرآن کریم سے محبت ہے اور میں اس کا ترجمہ تھوڑی سی محنت کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ کل میں سورۃ العلق پڑھ رہا تھا، یہ آخری پارے کی سورۃ ہے۔ رسولؐ اللہ ﷺ پر پہلی وحی کے موقع پر نازل ہوئی۔ اس کی آیت نمبر چار ہے ''الذی علمہ بالقلم۔'' اس آیت کا ترجمہ عموماً یہ کیا جاتا ہے کہ ''ہم نے تمہیں علم دیا قلم کی مدد سے۔'' اللہ کریم نے مہربانی فرمائی اور تھوڑی سی محنت اور غور و فکر سے مجھے پتا چلا کہ قرآن میں ''قلم'' کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ایک ''لکھنے والا آلہ''، اور دوسرا ''کسی شے کو کاٹنا۔'' اب یاد رکھیے کہ جب ہم کسی شے کو کاٹتے ہیں تو ہمیں اس کی اصل حقیقت کا علم ہوتا ہے۔ کاٹنے کے عمل کو آپ اصل چیز تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھ سکتے ہیں۔ اس لئے یہاں قلم سے مراد اس انسانی صفت کو بھی لیا جا سکتا ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دوسری مخلوقات سے اشرف اور ممتاز بنانے کیلئے دی، یعنی تجسس۔
انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے، جس کو جاننے کا، کھوج لگانے کا، سیکھنے کا، پتہ لگانے کا اور بات کی تہہ تک جانے کا شوق ہے۔ انسانی تاریخ کی ساری ترقی، سارا علم اور ساری کامیابی اس صفت کی مرہون منت ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ آج انسان اپنی تحقیق اور تجسس کی صلاحیت سے یہ جان چکا ہے کہ دنیا میں بچھو کی 1200 اقسام ہیں۔ وہ یہ بھی جان چکا ہے کہ یہ کہاں کہاں پائے جاتے ہیں، کس بچھو کا زہر کس کام آسکتا ہے، کون سے زیادہ نقصان دہ اور کون سے فائدہ مند ہیں۔ لیکن دنیا کا کوئی بچھو کسی بھی انسان کے متعلق کچھ نہیں جانتا کیونکہ رب کریم نے اسے علم سیکھنے کا مزاج اور صفت عطا نہیں کی۔ انسان کے سر پر عظمت کا تاج پہنا کر باقی مخلوقات کا سردار اس لیے بنا دیا کہ انسان ساری مخلوقات' چھوٹے سے چھوٹے جراثیم اور بڑے سے بڑے ڈائینو سار کے متعلق علم اکٹھا کر لے گا لیکن کوئی مخلوق دوسرے کے متعلق تو کیا اپنے متعلق بھی نہیں جانتی۔
تجسس ہماری زندگی میں ''کیوں، کیا اور کیسے؟'' کو پیدا کرتا ہے اور جس کی زندگی میں کیوں، کیا اور کیسے موجود ہو وہ خوش قسمت ہے، کیونکہ جب آپ کا سیکھنے کا شوق سلامت ہوتا ہے تو آپ کو اپنی حالت کی خبر ہونے لگتی ہے اور اپنی خبر آپ کو تبدیلی اور ترقی کیلئے اکساتی ہے۔ میں کامیاب کیوں نہیں ہورہا؟ کامیاب ہونے کا کیا طریقہ ہے؟ میں ترقی کیسے کرسکتا ہوں؟ یہ وہ تین قیمتی سوال ہیں جو واقعی اگر کسی کے پاس ہوں تو وہ ان کے جواب تلاش کرکے اپنی زندگی بدل سکتا ہے۔
یاد رکھیں، دنیا کے اندر بڑی سے بڑی تبدیلی کسی انسان کے تجسس کی وجہ سے اس کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کی وجہ سے آئی۔ مثال کے طور پر اگر رائیٹ برادران کے تجسس کی وجہ سے یہ سوالات اس کے اندر نہ اٹھتے کہ پرندوں کی طرح انسان ہوا میں کیوں نہیں اڑ سکتے؟ کیا ہوا میں اڑنے کا کوئی طریقہ موجود ہے؟ اور ہم کیسے ہوا میں اڑ سکتے ہیں؟ تو انسانی دنیا میں جو انقلاب ہوائی جہازوں کی وجہ سے آیا وہ نہ آپاتا۔ دنیا کی ساری ایجادات اور دریافتوں کی لسٹ بنالیں، یہ سب انسان کے تجسس کا کمال ہیں۔ ہر شعبے کی ترقی اور آج کی آسانیاں سب تجسس کی وجہ سے ممکن ہوئی ہیں۔
جاننا ہماری جبلت میں شامل ہے۔ آپ ایسے لوگوں کو ذہن میں لائیں جو ترقی اور کامیابی کے طلب گار نہیں، وہ سب تجسس کو کھوچکے ہیں یا انہوں نے اس عطیہ خداوندی کو سلا دیا ہے۔ تجسس اور جاننے کی صلاحیت، آپ کی وہ صفت ہے، جسے کام میں لاتے رہیں تو یہ متحرک اور فعال (Active) رہتی ہے۔ اگر اس کو استعمال کرنا چھوڑ دیں تو یہ آپ کی پوری شخصیت کو فریز کردیتی ہے۔ آپ کو بعض لوگ جمود زدہ محسوس ہوں گے کیونکہ انہوں نے جاننا اور سیکھنا چھوڑ دیا ہے یا ان کو یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ میں اس غلط فہمی کو بدقسمتی سمجھتا ہوں۔ کیونکہ جو اعزاز اللہ کریم نے خود بخشا ہو، اس سے محروم ہونا تو بدقسمتی ہے۔
شعبہ تدریس سے وابستگی کی وجہ سے میرا بہت سا وقت ٹیچرز ٹریننگ میں گزرا ہے اور المیہ یہ ہے کہ سب سے کم تجسس اور Learning attitude (سیکھنے کا جذبہ) میں نے ٹیچرز میں دیکھا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کبھی میں نے کسی ٹریننگ ورکشاپ میں پوچھا کہ آپ لوگ کتابیں پڑھتے ہیں تو مثبت جواب کم ہی ملا۔ عام طور پر انہیں اپنے ہی شعبے کی تازہ ریسرچ اور کتابوں کا علم نہیں ہوتا، نہ ہی وہ سیمینارز اور لیکچرز میں نظر آتے ہیں۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے، لوگ یوٹیوب اور فیس بک کے ذریعے میرے لیکچرز سن کر فیڈ بیک دے رہے ہوتے ہیں، لیکن شبعہ تدریس کے اکثر لوگ اس ٹیکنالوجی سے واقف نہیں اور نہ ہی سیکھنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آج کا طالب علم چھوٹا ہونے کے باوجود سیکھنے کا شوق اور جذبہ بھی رکھتا ہے، لیکن اساتذہ اس کی پیاس بجھانے کا ذریعہ نہیں بنتے اور وہ محروم ہی رہ جاتا ہے۔
تجسس کی خوبی کا ایک بہت ہی خوبصورت پہلو یہ ہے کہ ہم سب کا مزاج جدا جدا ہے اور ہم سب میں سیکھنے اور جاننے کا شوق بھی الگ الگ شعبے کا ہے۔ یہ شوق قدرت نے ہمیں عطا کیا ہوتا ہے تاکہ ہم اپنی زندگی میں درست پیشے اور کیریئر کا انتخاب کرسکیں۔ قدرت نے جس شعبے میں آپ کو ترقی دینا ہوتی ہے، اس فیلڈ کی انفارمیشن آپ کے پاس زیادہ ہونے لگتی ہے، کیونکہ آپ کے پاس اس شعبے کا تجسس اور شوق موجود ہوتا ہے۔ لوگ اپنے تجسس کو دریافت نہیں کرتے اور ساری زندگی غلط پیشے اور کام کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔ کامیابی کسی خاص پیشے میں نہیں ہوتی، کامیابی دراصل آپ کے اس پیشے کے ساتھ لگائو میں چھپی ہوتی ہے، اس لیے ایک ناکام ڈاکٹر بننے سے بہتر ہے کہ آپ ایک کامیاب ٹیچر بن جائیں۔
تجسس علم بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے اور علم آپ کی شخصیت میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ اس لیے کبھی اپنے تجسس کو ٹھنڈا نہ ہونے دیجئے۔ لاعلمی کا احساس اور سیکھنے کا مزاج آپ کو ہمیشہ علم کا طالب بنائے رکھتے ہیں اور طالب علم کے قلم کی سیاہی کو شہید کے خون سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ علم آپ کی زندگی میں روشنی کا سبب بنتا ہے۔ علم والا خود کا علم بھی رکھتا ہے، اس لیے خود کو بہتر بنانے کو بھی جہاد قرار دیا گیا ہے۔
اشفاق احمد صاحب اپنے مشہور پروگرام ''زاویہ'' میں فرماتے تھے کہ، ''کبھی بھی اپنے اندر کا بچہ نہ مرنے دینا، یہ اندر کا بچہ تمہیں سیکھنے پر اکساتا ہے۔'' آپ نوٹ کیجئے سیکھنے اور جاننے کی صلاحیت ہم سے زیادہ چھوٹے بچوں میں موجود ہوتی ہے، لیکن ان کو یہ علم نہیںہوتا کہ کیا جاننا ہے اور کیا نہیں جاننا، جبکہ ہمیں اچھائی اور برائی کا علم تو ہوجاتا ہے لیکن ہم سیکھنے کے جذبے کو گنوا دیتے ہیں اور اس طرح ہماری ترقی کرنے کے سارے مسل فریز ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھیں پتھروں، دریائوں اور پہاڑوں کی تقدیریں نہیں بدلتیں کیونکہ وہ بدلتے نہیں ہیں، انسان کی تقدیر روز، جی ہاں، ہر روز بدل سکتی ہے کیونکہ انسان ہر روز اپنے تجسس کی وجہ سے اپنا علم بڑھا سکتا ہے اور علم اس کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔
سکول، کالج اور یونیورسٹی طالب علم کے تجسس کو بڑھانے کا ذریعہ بن جائیں تو طالب علم تحقیق کی طرف متوجہ ہوں گے۔ تحقیق یا ریسرچ کی بنیاد پر حاصل کی ہوئی تعلیم ہی اصل علم ہے۔ تمنا اور شوق کے بغیر سبق کا یاد ہونا دراصل لاعلمی ہے، یہ وہ کھانا ہے جسے آپ نے بغیر بھوک کے کھالیا۔ یقیناً نہ تو اس سے آپ لطف اندوز ہوں گے اور نہ ہی آپ اس سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔ تجسس آپ کو زندگی میں نئے راستے اپنانے پر اکساتا ہے، پھر آپ کے بنائے ہوئے راستوں سے ہزاروں لوگوں نے گزرنا ہوتا ہے، اس لیے تجسس آپ کو دوسروں سے نمایاں اور ممتاز بنا دیتا ہے۔
ذرا سوچئے، اس دنیا میں کتنے سیب درختوں سے زمین پر گرتے رہے ہوں گے، لیکن جب نیوٹن نے درخت سے سیب گرتے دیکھا تو اس کے تجسس نے اسے یہ سوال سوچنے پر مجبور کردیا کہ ''آخر سیب کو نیچے کھینچنے والی طاقت کون سی ہے؟'' اس تجسس نے ہی اس کو اتنا بڑا سائنسدان بنا دیا۔ آپ بھی اپنے تجسس کو ضائع نہ ہونے دیں۔ اس کو پہلے تو تلاش کریں، پھر اس کو درست سمت اور فائدہ مند علم اور معلومات کی طرف لگادیں۔ آپ ایک سال کیلئے اپنے ''تجسس کی خوراک'' کی فہرست مرتب کریں۔ حیران نہ ہوں، تجسس کی خوراک، وہ کتابیں، وہ لیکچرز، وہ سیمینارز ہیں جن کو آپ اس سال اٹینڈ کریں گے۔ علم بڑھنے سے علم کی پیاس بھی بڑھ جاتی ہے۔ جس طرح ایک چھوٹی سی کامیابی ایک بڑی کامیابی کو کھینچتی ہے، اس طرح علم مزید علم کو اپنی طرف کھینچ رہا ہوتا ہے۔ یہ بھی جانیں کہ کس کس شعبے میں آپ کو جاننے کی ضرورت ہے یا آپ جاننا چاہتے ہیں، جس شعبے کا تجسس آپ میں موجود ہے، اس شعبے کا علم حاصل کرکے آپ کو خوشی ملے گی اور راحت و اطمینان کا احساس بھی ہوگا۔
پچھلی صدی کا سب سے بڑا سائنسدان آئن سٹائن تھا۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ ''تم میں اتنا ٹیلنٹ کس طرح پیدا ہوا؟'' اس نے تھوڑا سا وقفہ لیا، سوال کرنے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور جواب دیا، ''تجسس کی وجہ سے۔'' آپ خود اندازہ کریں کے اتنا بڑا سائنسدان اپنی زندگی کی کامیابی کی وجہ تجسس کو ٹھہراتا ہے اور آج سوال پوچھنے والے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ چھوٹا بچہ سوال کرتا ہے، وہ قدرت سے سوال کرنے کا فن سیکھ کر آتا ہے، اس کا تجسس جوان ہوتا ہے، ہم اسے جواب نہیں دیتے بلکہ شرمندہ کردیتے ہیں۔ اس کا تجسس جوانی میں ہی بوڑھا ہوجاتا ہے اور وہ جوانی میں ہی فوت ہوجاتا ہے، کیوں کہ سیکھنے کی عمر میں سیکھنے کے جذبے کا موجود نہ ہونا موت ہے۔
یاد رکھیں، استاد تجسس کو بڑھانے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ میں ایک استاد ہوں، کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دنیا کا سارا حسن کس چیز کے دم سے ہے؟ وہ کون سی صلاحیت ہے جو اگر انسانوں میں نہ ہوتی تو آج بھی ہم پتھر کے دور میں کسی غار میں بیٹھ کر گوشت انجوائے کررہے ہوتے؟ تجسس کے بعد انسانی ترقی کا سبب بننے والی اہم صفت کے متعلق آپ کو اگلی نشست میں بتائیں گے۔ (یقینا آپ متجسس ہوگئے ہوں گے)