لباس ۔۔۔۔۔ تہذیب اور وقار کی علامت

جن تعلیمی اداروں میں جہاں پر یونیفارم کی پابندی نہیں، طالب علم وہاں پر ایک نئے ہی کلچر کے رنگ میں رنگے جا رہے ہیں۔


انیل وقاص February 10, 2013
نوجوانوں کو اپنے طور پر آرام دہ اور موزوں لباس کا انتخاب کرنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

انسان اور لباس کا بہت پرانا تعلق ہے۔ لباس، جسے انسان نے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کیلئے بنایا تھا، آپ کی تہذیب اور وقار کی علامت ہوتا ہے۔

یہ آپ کی شخصیت اور مزاج کو ظاہر کرتا ہے۔ موزوں لباس کا انتخاب جہاں آپ کی شخصیت کو نکھارتا ہے، وہاں نا مناسب لباس کے انتخاب سے آپ کی شخصیت کا منفی تاثر قائم ہوتا ہے۔ لباس کے انتخاب میں مختلف عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب انسان کی پہچان اس کے لباس سے ہوتی تھی کیونکہ اس کا لباس اس کے علاقے کو نمایاں کرتا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لباس کو ہر علاقے کی ضرورت کے مطابق بنایا گیا تھا۔ جیسے گرم اور سرد علاقے کے ملبوسات میں کافی فرق ہوتا تھا۔ اس لحاظ سے پاکستان میں کچھ ملبوسات کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ مختلف تہواروں پر مخصوص لباس پہنے جاتے۔ شلوار قمیض پہنی جاتی ہے اور شیروانی کو قومی لباس کہا جاتا ہے۔ لیکن اب ایک نیا ہی رواج پروان چڑھ رہا ہے۔ جس کا شکار خاص طور پر ہماری نوجوان نسل ہورہی ہے۔

خاص طور پر ان تعلیمی اداروں میں جہاں پر یونیفارم کی پابندی نہیں ہے، طالب علم وہاں پر ایک نئے ہی کلچر کے رنگ میں رنگے جا رہے ہیں۔ درس گاہیں جوکہ کبھی درس و تدریس کا مرکز ہوا کرتی تھیں اب ایک فیشن شو کی طرح نظرآتی ہیں۔ تعلیم کوجہاں اہمیت دینی چاہیے تھی وہاں لباس کوزیادہ ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ جامعات جہاں پر کسی دور میں تعلیمی اور ادبی مقابلے ہوا کرتے تھے، اب وہاں پر مہنگے ملبوسات کے مقابلوں نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ طالب علم مہنگے لباس پہنتے ہیں اور غور طلب بات تو یہ ہے کہ برینڈز کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ان میں سے بھی مہنگے برینڈز کو ترجیح دی جاتی ہے۔لباس کے انتخاب میں پہلے مذہبی اور ثقافتی پہلوئوں کو پیش نظر رکھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے پہلو لباس کو خریدتے اور پہنتے وقت مدنظر رکھے جاتے تھے۔ لیکن آج اس دور میں ان سب باتوں کے برعکس ہورہا ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے لباس پہننا پسند کرتے ہیں جوکہ کسی لحاظ سے موزوں نظر نہیں آتے۔ لڑکوں میں پھٹے ہوئے کپڑے پہننا فیشن سمجھا جاتا ہے اور لڑکیوں میں لڑکوں جیسے کپڑے پہننا فیشن سمجھا جاتا ہے۔

جو کلچر ہماری یونیورسٹیوں میں نظر آتا ہے وہ ہمارے اسلامی معاشرے اور تہذیب کے بالکل برعکس ہے۔ ہماری ثقافت ہم سے دور ہوتی نظر آتی ہے۔ ہمارے قومی لباس اور ثقافتی ملبوسات کا نام تو اب کتابوں تک ہی محدود نظر آتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصہ تک جب کسی بچے سے پوچھا جائے کہ ہمارا قومی لباس کون سا ہے، تو عین ممکن ہے کہ اس نے کبھی وہ لباس دیکھا بھی نہ ہو۔ ہمارے اداروں میں مقامی کلچر اور ایسے ناموں سے وابستہ بہت سے دن منائے جاتے ہیں۔ بہت سی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔ لیکن طالب علموں کیلئے وہ صرف غیر نصابی سرگرمیوں میں شامل ہے۔ وہ ان سرگرمیوں میں شامل تو ہوتے ہیں، لیکن انہیں ان کی اہمیت سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔

انہیں اپنی ثقافتی اقدار اور ان کی اہمیت سے روشناس نہیں کرایا اور نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ آج کے دورمیں جب یہ سب چیزیں ختم ہورہی ہیں تو ہمیں اس کی بقا کیلئے کیا کرنا ہے۔نوجوانوں کو اپنے طور پر آرام دہ اور موزوں لباس کا انتخاب کرنا چاہیے، جس سے ان کا اچھا تاثر قائم ہو اور مذہبی اقدار بھی مجروح نہ ہوں۔ تعلیمی اداروں کو بھی ان غیر صحت مندانہ اور نامناسب رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ یونیورسٹیوں میں یونیفارم ہونی چاہیے یا نہیں؟ اس سوال پر طالب علموں کے مختلف خیالات سامنے آتے ہیں اور پتا لگتا ہے کہ بیشتر لوگ یونیفارم نہ ہونے کے حق میں ہی ہیں۔

لیکن اس کے باوجود کچھ طلباء و طالبات ایسے بھی ہیں جو اس بات کو کچھ حد تک سمجھتے ہیں کہ یونیفارم نہ ہونے کی وجہ سے کیا نقصانات ہورہے ہیں اور ہمیں اور ہماری تہذیب کو کون سے مسائل درپیش ہیں۔ برینڈز ہمارے معاشرے میں عام ہونے کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں ایک فرق دیکھنے میں آرہا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یونیورسٹیوں میں دوطرح کے سٹوڈنٹس ہوتے ہیں، جن میں سے ایک کو ہم برینڈڈ سٹوڈنٹس بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر بہت سے نفسیاتی مسائل بھی سامنے آتے ہیں۔ اچھے تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے وقت اب طالب علموں کو نمبروں یا ذہانت کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ جیب کی حالت دیکھنی پڑتی ہے اوردیکھنا پڑتا ہے کہ کیا اس ماحول میں جاکر ان اخراجات کو برداشت کرسکتے ہیں یا نہیں۔

ہمیں اپنے قومی اور علاقائی ملبوسات کو بھی اپنانا چاہیے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ تاکہ یہ ملبوسات ہمارے کلچر کا حصہ بنے رہیں اور ہماری الگ شناخت قائم رہے۔ ان سب باتوں پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دے سکیں جوکہ اپنی تہذیب و ثقافت سے گہرا تعلق رکھتا ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں