دلہن کی تلاش ہے۔۔۔

ایک اچھی شریک سفر صرف چاند سی دلہن ہی نہیں عام شکل و صورت کی لڑکی بھی ہو سکتی ہے۔

ظاہری خوب صورتی وقتی چیز ہے آج ہے کل نہیں، جب کہ سیرت وحسن اخلاق دائمی چیز ہے۔ فوٹو: فائل

بیٹوں کے سہرے کے پھول کھِلتے دیکھنا ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے، لہٰذا بیٹوں کے جوان ہوتے ہی مائیں ان کے لیے کسی چاند سی دلہن کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتی ہیںْ

حالاں کہ یہ حقیقت ہے کہ ایک اچھی شریک سفر صرف چاند سی دلہن ہی نہیں عام شکل و صورت کی لڑکی بھی ہو سکتی ہے بشرط یہ کہ ذہنی ہم آہنگی اور شوہر کے جذبات اور احساسات کو سمجھنے والی ہو۔

صرف شکل وصورت دیکھ کر رشتہ کرنے والی یہی مائیں کچھ ہی دنوں بعد اس ہی ''چاند'' کی برائیاں کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ ظاہر ہے جب دیگر ضروری چیزیں نظر انداز کردی جائیں گی تو یہ صورت حال تو پیدا ہوگی۔ خوب صورت سے خوب صورت لڑکی بھی اگر سلیقہ مندی، رکھ رکھائو اور اخلاق سے عاری ہوگی تو زندگی کی گاڑی چلنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے، اس کے برعکس اگر کسی عام سی شکل صورت والی لڑکی میں دیگر تمام خصوصیات ہوں تو یقینی طور پر زندگی بہت خوش گوار اور پرسکون گزرتی ہے اور کبھی بھی خوب صورتی کی کمی کا احساس نہیں ہوتا، جب کہ محض خوب صورتی کے سہارے دیگر مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔

اس لیے ضروری ہے کہ رشتہ طے کرتے وقت لڑکی کی سلیقہ مندی، خلوص اور گھر داری کو مدنظر رکھیں کیوں کہ صرف حُسن شخصیت کی خامیوں کا مداوا نہیں کر سکتا، لیکن ہمارے عجیب وغریب معیار کے باعث آج بہت سی لڑکیاں گھر بیٹھی ہوئی ہیں، کسی کو رنگت پر تو کسی کو قد یا عمر پر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ کسی کے ناک نقشے میں میخیں نکالی جاتی ہیں، تو کہیں غریبی جرم ٹھہرتی ہے۔


دل چسپ امر یہ ہے کہ جب ان ہی لڑکیوں کی مائیں یا خود یہ لڑکیاں اپنے بھائیوں کے لیے دلہن تلاش کرنے نکلتی ہیں تو خوب سے خوب تر ڈھونڈتی ہیں جن وجوہات کی وجہ سے خود ان کی عمریں نکل رہی ہیں، وہی عیب وہ دوسری لڑکیوں میں تلاش کرتی ہیں۔ انہیں اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے لیے کوئی کم سن، نازک حور پری کی تلاش ہوتی ہے جو جہیز سے ان کا گھر بھر دے۔ اس وقت انہیں نہ تو لڑکی کی سیرت نظر آتی ہے نہ سلیقہ، صرف ظاہری حسن تلاش کیا جاتا ہے۔

شادی کے بعد صورت تو کہیں پس منظر میں چلی جاتی ہے اس وقت یہ ہی بہوئیں ساس نندوں کی نظر میں کیا سے کیا ہو جاتی ہیں جنہوں نے ان کے بیٹے اور بھائی کو اپنے حسن کے جال میں پھنسایا ہوا ہوتا ہے۔ کیا مائوں نے کبھی سوچا کہ جن خامیوں کی وجہ سے ان کے گھر میں بیٹیاں بیٹھی ہوئی ہیں وہی دوسروں میں ڈھونڈنا آخر کیا معنی رکھتا ہے۔

پہلے زمانے میں جب لڑکیوں کے لیے رشتہ تلاش کیا جاتا تھا، تو لڑکے کی شرافت اور خاندان دیکھا جاتا تھا کیوں کہ اس نئے رشتے کو نبھانے میں حُسن و خوب صورتی کا دخل نہیں ہوتا۔ اس طرح کسی لڑکی کو اس کی صورت شکل، قد کاٹھ، رنگ اور عمر پر مسترد نہ کیا جاتا تھا بلکہ ہر لڑکی کی سیرت، خاندان اور سلیقہ بھی دیکھا جاتا تھا۔

آج ہمارے ہاں بہت سی لڑکیاں گھر بیٹھی ہوئی ہیں۔ بار بار مسترد ہونے سے ان میں احساس کم تری اور نفیساتی الجھنیں بڑھ رہی ہیں۔ والدین علیحدہ پریشان ہیں۔ بعض جگہوں پر مائوں پر ان کے بیٹوں کا دبائو ہوتا ہے کہ وہ خوب صورت لڑکی چاہتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اکثر لڑکیاں اور مائیں لاشعوری طور پر اپنا بدلہ دلہن ڈھونڈتے وقت نکالتی ہیں۔ مثلاً فلاں نے ہماری بیٹی کے رنگ کی وجہ سے اسے مسترد کیا تھا تو اب ہم کیوں سانولی بہو یا بھابی لائیں۔ یا میری بیٹی کی عمر پر اعتراض کیا جاتا ہے تو میں اپنے چالیس سال کے بیٹے کے لیے سترہ، اٹھارہ سال کی لڑکی لائوں گی وغیرہ وغیرہ۔ ضروری ہے کہ اپنے بیٹے کو سامنے رکھ کر بات کی جائے جب ایک واجبی صورت والے لڑکے کے لیے بھی حسین پری ڈھونڈی جائے گی تو یہ بات مناسب نہیں پھر صورت تو کسی کے اختیار میں نہیں البتہ سیرت اختیار میں ہے اور جب سیرت اچھی ہو تو پھر صورت کی اہمیت باقی نہیں رہتی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ رشتہ طے کرتے وقت اپنے خاندان کے مزاج اور طور طریقوں کو سامنے رکھیں تاکہ آنے والی لڑکی بھی بہ آسانی نئے گھر اور ماحول سے ہم آہنگ ہو جائے، بہ صورت دیگر اگر دونوں خاندان میں زیادہ فرق ہوتو یہ مسائل کا باعث ہوتا ہے، جس کے باعث بچے بھی بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ جو لڑکی اپنے شوہر کے گھر کو سکون کاگہوارہ بنا دے وہی درحقیقت چاند سی بہو ثابت ہوگی، نہ کہ خوب صورت مگر بے سلیقہ دلہن۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظریں دوڑائیں تو ہمیں ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی، جن میں لڑکی عام شکل و صورت کی ہے مگر بہت سمجھ دار، سلیقہ شعار اور خاندانی رشتوں کو سمجھنے والی ہے، جب کہ ظاہری خوب صورتی وقتی چیز ہے آج ہے کل نہیں، جب کہ سیرت وحسن اخلاق دائمی چیز ہے۔
Load Next Story