قطر میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات
امریکی منصوبہ ساز طالبان گروہوں سے مذاکرات کر رہے ہیں تا کہ افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام ممکن ہو سکے۔
برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی دعوت پر گزشتہ دنوں لندن میں جو سہ فریقی کانفرنس ہوئی تھی، اس میں آیندہ چھ ماہ میں افغان مسئلے کو حل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی شریک تھے۔ پاکستان، افغانستان اور برطانیہ نے طالبان کو امن مذاکرات میں شریک ہونے کی اپیل کی تھی۔ سہ فریقی کانفرنس نے قطر کے دارلحکومت دوحہ میں افغان طالبان کا دفتر کھولنے کی حمایت بھی کی تھی۔ اس کانفرنس سے ظاہر ہو گیا تھا کہ افغان طالبان کے ساتھ در پردہ معاملات طے کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
اگلے روز پاکستانی میڈیا میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ جمعیت العلمائے پاکستان (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے قطر چلے گئے ہیں۔ اس کا انکشاف جے یو آئی کے ممتاز لیڈر حافظ حسین احمد نے خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ میں جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کے تعزیتی ریفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔ تاہم حافظ حسین احمد کے بیان کے برعکس جے یو آئی (ایف) کے ترجمان عبدالجلیل جان کے حوالے سے یہ اطلاع میڈیا کی زینت بنی ہے کہ مولانا فضل الرحمن تو ایک نجی دورے پر بیرون ملک گئے ہیں۔ ادھر مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ قطر میں امریکا بھی طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے تا کہ عسکریت پسند گروپ کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ یہ سرگرمیاں افغان مسئلے کے حل کے تناظر میں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔
امریکا نے اگلے برس افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ قطر میں جو سرگرمیاں جاری ہیں' ان کا مقصد بھی یہ نظر آتا ہے کہ امریکا اپنی فوجیں نکالنے کی راہ ہموار کرسکے۔ اس وقت امریکا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ افغانستان سے انخلاء کا ہی ہے لیکن یہ مکمل انخلاء نہیں ہو گا بلکہ امریکا یہاں اپنے فوجی مستقر بھی قائم کرے گا اور اپنی آر ڈی ایف یعنی ریپڈ ڈپلائمنٹ فورس بھی وہاں مستقل طور پر موجود رکھنا چاہتا ہے۔ انھی پیچیدہ مقاصد کے لیے وہ اس قسم کی ضمانتیں چاہتا ہے کہ افغانستان سے انخلاء کے بعد یہاں کسی حد تک امن و امان قائم رہے۔ ادھر امریکی میڈیا اور انٹیلی جنشیا نے افغانستان کے مسئلہ کو ایک بالکل نئے اور انوکھے انداز سے پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ امریکی اسکالرز اپنی تحریروں میں یہ بتا رہے ہیں کہ افغانستان کبھی بھی ناقابل تسخیر نہیں رہا بلکہ یہاں مختلف اقوام نے قبضہ کیا اور وہ یہاں حکومت کرتے رہے۔
اس حوالے سے یونانیوں کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ بہر حال اگر مولانا فضل الرحمن افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں دوحہ گئے ہیں تو یہ اچھی پیشرفت ہو سکتی ہے۔ حافظ حسین احمد کا تو کہنا یہ ہے کہ جے یو آئی افغان امن مذاکرات میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے اور مولانا فضل الرحمن اسی سلسلے میں قطر گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ طالبان اور فوج کے مابین تنازعہ دور کرنے کے لیے طاقت کا استعمال بے سود ہے کیونکہ مسئلہ کا حل مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی نکالا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ اگر امریکا افغانستان کے طالبان کے ساتھ بات چیت کر سکتا ہے تو آخر پاکستان اپنے لوگوں سے مذاکرات کیوں نہیں کر سکتا۔
دراصل امریکی منصوبہ ساز طالبان گروہوں سے در پردہ مذاکرات کر رہے ہیں تا کہ افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام ممکن ہو سکے اب جہاں تک لندن میں ہونے والی متذکرہ بالا کانفرنس کا تعلق ہے تو افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے یہ تیسری کانفرنس تھی' جس کی میزبانی تسلسل کے ساتھ برطانیہ نے کی۔ پاکستانی منصوبہ سازوں کو خطرہ ہے کہ نیٹو اور امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں پھیلنے والا انتشار پاکستان کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
نیٹو افواج کے نکلتے ہی اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو جانے کے باعث صرف افغانستان ہی مزید غیر مستحکم نہیں ہو گا بلکہ سب سے زیادہ منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ اس صورت حال کو دیکھا جائے تو دوحہ میں ہونے والی سرگرمیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ پاکستان ان سرگرمیوں سے الگ نہیں رہ سکتا۔ بہر حال یہ واضح ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی افغان طالبان کے ساتھ درپردہ مذاکرات کر رہے ہیں' پاکستان کو اس حوالے سے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔
اگلے روز پاکستانی میڈیا میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ جمعیت العلمائے پاکستان (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے قطر چلے گئے ہیں۔ اس کا انکشاف جے یو آئی کے ممتاز لیڈر حافظ حسین احمد نے خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ میں جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کے تعزیتی ریفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔ تاہم حافظ حسین احمد کے بیان کے برعکس جے یو آئی (ایف) کے ترجمان عبدالجلیل جان کے حوالے سے یہ اطلاع میڈیا کی زینت بنی ہے کہ مولانا فضل الرحمن تو ایک نجی دورے پر بیرون ملک گئے ہیں۔ ادھر مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ قطر میں امریکا بھی طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے تا کہ عسکریت پسند گروپ کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ یہ سرگرمیاں افغان مسئلے کے حل کے تناظر میں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔
امریکا نے اگلے برس افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ قطر میں جو سرگرمیاں جاری ہیں' ان کا مقصد بھی یہ نظر آتا ہے کہ امریکا اپنی فوجیں نکالنے کی راہ ہموار کرسکے۔ اس وقت امریکا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ افغانستان سے انخلاء کا ہی ہے لیکن یہ مکمل انخلاء نہیں ہو گا بلکہ امریکا یہاں اپنے فوجی مستقر بھی قائم کرے گا اور اپنی آر ڈی ایف یعنی ریپڈ ڈپلائمنٹ فورس بھی وہاں مستقل طور پر موجود رکھنا چاہتا ہے۔ انھی پیچیدہ مقاصد کے لیے وہ اس قسم کی ضمانتیں چاہتا ہے کہ افغانستان سے انخلاء کے بعد یہاں کسی حد تک امن و امان قائم رہے۔ ادھر امریکی میڈیا اور انٹیلی جنشیا نے افغانستان کے مسئلہ کو ایک بالکل نئے اور انوکھے انداز سے پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ امریکی اسکالرز اپنی تحریروں میں یہ بتا رہے ہیں کہ افغانستان کبھی بھی ناقابل تسخیر نہیں رہا بلکہ یہاں مختلف اقوام نے قبضہ کیا اور وہ یہاں حکومت کرتے رہے۔
اس حوالے سے یونانیوں کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ بہر حال اگر مولانا فضل الرحمن افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں دوحہ گئے ہیں تو یہ اچھی پیشرفت ہو سکتی ہے۔ حافظ حسین احمد کا تو کہنا یہ ہے کہ جے یو آئی افغان امن مذاکرات میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے اور مولانا فضل الرحمن اسی سلسلے میں قطر گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ طالبان اور فوج کے مابین تنازعہ دور کرنے کے لیے طاقت کا استعمال بے سود ہے کیونکہ مسئلہ کا حل مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی نکالا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ اگر امریکا افغانستان کے طالبان کے ساتھ بات چیت کر سکتا ہے تو آخر پاکستان اپنے لوگوں سے مذاکرات کیوں نہیں کر سکتا۔
دراصل امریکی منصوبہ ساز طالبان گروہوں سے در پردہ مذاکرات کر رہے ہیں تا کہ افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام ممکن ہو سکے اب جہاں تک لندن میں ہونے والی متذکرہ بالا کانفرنس کا تعلق ہے تو افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے یہ تیسری کانفرنس تھی' جس کی میزبانی تسلسل کے ساتھ برطانیہ نے کی۔ پاکستانی منصوبہ سازوں کو خطرہ ہے کہ نیٹو اور امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں پھیلنے والا انتشار پاکستان کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
نیٹو افواج کے نکلتے ہی اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو جانے کے باعث صرف افغانستان ہی مزید غیر مستحکم نہیں ہو گا بلکہ سب سے زیادہ منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ اس صورت حال کو دیکھا جائے تو دوحہ میں ہونے والی سرگرمیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ پاکستان ان سرگرمیوں سے الگ نہیں رہ سکتا۔ بہر حال یہ واضح ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی افغان طالبان کے ساتھ درپردہ مذاکرات کر رہے ہیں' پاکستان کو اس حوالے سے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔