Status Quo کے خلاف اتحاد
سیاسی اور سماجی سیٹ اپ کو بدلنے کے لیے سب سے پہلے اس سیٹ اپ یعنی Status Quo کو توڑنا ضروری ہے۔
KARACHI:
ملک کی مجموعی صورت حال اور بحرانوں کی بھرمار خاص طور پر عدلیہ اور انتظامیہ کے دوران خطرناک حدوں کو پہنچنے والی کشیدگی سیاسی جماعتوں کے درمیان بدترین محاذ آرائی کے پس منظر میں جو حلقے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس سال مئی میں انتخابات ہوسکیں گے بھی یا نہیں؟
اس پر دہشت گردی کی خطرناک ترین صورت حال اور دہشت گردوں کے اس موقف کے پیش نظر کہ جمہوریت، سیاست، انتخابات سب کفر ہے بلاشبہ انتخابات کا انعقاد بہ ظاہر ممکن نظر نہیں آتا، لیکن چونکہ چار بڑی طاقتیں حکومت، عدلیہ، اپوزیشن اور فوج پوری شدت سے وقت پر انتخابات کرانے پر مصر ہیں تو ممکن ہے کہ یہ چار ریاستی بڑی طاقتیں مئی میں انتخابات کرانے میں کامیاب ہوجائیں ، لیکن ایسی صورت میں بھی یہ خدشات موجود رہیں گے کہ کیا انتخابات کے بعد بحرانوں میں سر سے پیر تک ڈوبا ہوا یہ ملک بحرانوں سے نکل آئے گا، بحرانوں پر قابو پالے گا؟ اس وقت سیاسی جماعتوں میں پولرائزیشن جس خطرناک انتہاؤں پر پہنچ گئی ہے اور جس طرح سیاسی اختلافات سیاسی دشمنیوں میں بدل گئے ہیں کیا ان حالات میں انتخابات کے نتیجے میں کوئی ایسی مضبوط حکومت بن سکتی ہے جو ملک کو ان بحرانوں سے نکال سکے؟
ان تمام خدشات، امکانات اورخطرات کو ہم پس پشت ڈال کر انتخابات کی تیاری کی طرف آتے ہیں تو پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت سیاست، سیاستدانوں اور جمہوریت سے جس بری طرح بدظن ہے اور وہ چہروں کی تبدیلی کے اس 65 سالہ کھیل کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں اور سیاسی پارٹیوں کی اکثریت اسی کھیل کو جاری رکھنے پر مصر ہے،ایسی صورت حال میں جب 18 کروڑ عوام 65 سالہ Status Quo کو ہر قیمت پر توڑنا چاہتے ہیں، پارلیمانی سیاست میں ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ ملک کی وہ تمام چھوٹی بڑی جماعتیں جو اس Status Quoکو توڑنے پر متفق ہیں وہ ایک اتحاد میں شامل ہوجائیں اور جو سیاسی طاقتیں Status Quo کو توڑنے کی ضرورت محسوس کر رہی ہیں اور اس حوالے سے اپنے موقف کا کھلے عام اظہار کر رہی ہیں اور ایک موثر سیاسی طاقت بھی رکھتی ہیں اگر یہ بڑی سیاسی طاقتیں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو ختم کرتی ہیں اور اپنے ساتھ ان تمام چھوٹی طاقتوں کو ملالیتی ہیں جو ان کے پروگرام سے متفق ہیں تو یہ اتحاد بلاشبہ ایک فیصلہ کن طاقت میں بدل سکتا ہے۔
اگر انتخابات اپنے شیڈول کے مطابق ہوتے ہیں تو اس میں شرکت کرنے والوں کی تقسیم دو واضح حصوں ہی میں ہوگی، ایک حصہ وہ جو 65 سالہ Status Quo کو برقرار رکھنا چاہتا ہے لیکن عوام کو دھوکا دینے کے لیے بڑے بڑے ترقیاتی اور اصلاحی منصوبوں کا اعلان کررہا ہے اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے چند کاسمیٹک ترقیاتی کاموں کی تشہیر بھی کررہا ہے اس قسم کے ایک اتحاد کا مظاہرہ ہم نے طاہر القادری کے خلاف رائے ونڈ میں دیکھا ہے، اس اتحاد کا مظاہرہ اگرچہ طاہر القادری کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں کیا گیا اور طاہر القادری کے خلاف ان کی دہری شہریت اور ان کی ذاتی کمزوریوں کے حوالے سے پروپیگنڈے کا ایک طوفان اٹھایا گیا اور ابھی تک یہ طوفان تھما نہیں۔
اس کی سب سے بڑی وجہ نہ ان کی دہری شہریت ہے نہ ان کی شخصی کمزوریاں ہیں نہ لانگ مارچ کے حوالے سے حکومت سے ان کا معاہدہ ہے نہ ان کی دو جماعتیں ہیں نہ حکومت سے معاہدے میں ان کی کمزور پوزیشن ہے بلکہ طاہر القادری کے خلاف اٹھائے جانے والے اس طوفان کی اصل وجہ ان کے وہ مطالبے ہیں جن میں جاگیردارانہ اور خاندانی حکمرانیوں کا خاتمہ، ایسی انتخابی اصلاحات جو کرپٹ سیاستدانوں کو انتخابات میں شرکت سے روکنے میں اور کرپٹ سیاستدانوں کا احتساب، یہ وہ مطالبات ہیں جن کی حمایت ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کر رہے ہیں لیکن یہ مطالبات دراصل ہماری اقتدار مافیا کی موت کا پیغام ہیں۔ یہی وہ اصل خوف ہے جس کی وجہ قادری صاحب کو عوام میں بدنام کرنے اور انھیں عوامی حمایت سے محروم کرنے کے لیے میڈیائی طوفان اٹھایا گیا۔
اگر قادری صاحب 23 دسمبر کو مینار پاکستان کے جلسے میں یہ مطالبے نہ کرتے اور ان مطالبات کو منوانے کے لیے لاکھوں بچوں، بوڑھوں، عورتوں، مردوں پر مشتمل لانگ مارچ اسلام آبادنہ لے جاتے تو جمہوریت کے یہ علمبردار قادری صاحب کی حمایت حاصل کرنے اور انھیں اپنے ساتھ ملانے کے لیے ان کے پیر چھوتے نظر آتے۔ قادری صاحب نے اپنے لانگ مارچ میں شریک ہونے کے لیے جن دو جماعتوں متحدہ اور تحریک انصاف کو دعوت دی اتفاق سے یہ دو جماعتیں مسلم لیگ (ن) کے لیے پہلے ہی سے خطرہ بنی ہوئی ہیں، اگر یہ دو جماعتیں طاہر القادری کے ساتھ کھڑی ہوتیں تو مسلم لیگ (ن) کا بوریا بستر گول ہوجاتا۔ اسی خوف کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) نے رائے ونڈ میں ان جمہوریت پسندوں کو جمع کیا جو اجتماع ضدین ہونے کے باوجود طاہر القادری کو ڈرانے کے لیے موثر ثابت ہوسکتی تھیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری پر بے شمار الزامات کے ساتھ ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مینار پاکستان کے جلسے اور اسلام آباد لانگ مارچ میں اپنے مدرسوں کے طلباء کو گھسیٹ لائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے جلسے اور لانگ مارچ میں ان کے شاگردوں اور معتقدین کی بھی ایک بڑی تعداد ہوسکتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد ان کے جلسے اور لانگ مارچ میں شامل تھی اور عوام کی حمایت بھی ان کے ساتھ تھی، دوسری بات بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ان کے جلسے اور لانگ مارچ کے شرکاء نے جن میں بچے، بڑے، عورتیں، مرد سب شامل تھے روایتی مذہبی نعرے بازی نہیں کی بلکہ انقلاب اور چینج ہی کی بات کرتے رہے، جو ملک کے عوام کی خواہش ہے۔ نہ مولانا نے ہمارے مذہبی لیڈروں کی طرح روایتی مذہبی نعروں کو استعمال کیا۔ یہ صورت حال ہماری ان مذہبی جماعتوں کے لیے سخت خطرہ بن گئی ہے جو 65 سالوں سے مجرد مذہبی نعروں کی سیاست کر رہے ہیں اور ان کی زبان پر کبھی Status Quo کے خلاف کوئی بات نہ آئی۔ جیسے جیسے ممکنہ انتخابات قریب آرہے ہیں ملک میں پولرائزیشن میں تیزی آرہی ہے،مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اقتدارکے حصول پر تو سخت محاذ آرائی موجود ہے لیکن Status Quo کو برقرار رکھنے پر کوئی معنوی اختلاف نظر نہیں آتا۔
مسلم لیگ(ن) نے پنجاب میں اپنی مخالف طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ''جمہوریت کے ہر حامی'' کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں اور مختلف الخیال جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سندھ میں قوم پرستوں اور چند دھڑوں کو ساتھ ملاکر یہاں سے بھی کچھ نشستیں حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہی ہے، بلوچستان کے قوم پرست بھی رائے ونڈ کے چکر لگا رہے ہیں اور خیبر پختونخوا میں بھی مسلم لیگ (ن) اے این پی کے خلاف بعض مذہبی جماعتوں کو ملاکر اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، وڈیرہ شاہی جمہوریت میں اس قسم کے غیر اصولی اور موقعہ پرستانہ اتحاد ہمیشہ بنتے رہے ہیں لیکن جیسے ہی یہ اتحاد اقتدار کی منزل پر پہنچتے ہیں ''حصہ داری کی شرح'' پر ایسا رن پڑتا ہے کہ یہ اتحاد بے ہنگم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، اس کا مشاہدہ ماضی میں بھی کیا جاتا رہا اور مستقبل میں بھی کیا جاتا رہے گا، اصل مسئلہ یہ ہے کہ نظریاتی خلفشار اور ذاتی اور جماعتی مفادات پر مبنی اس قسم کے اتحاد اگر اقتدار میں آئیں تو کیا وہ ملک کو ان شدید اور خطرناک بحرانوں سے نکال سکتے ہیں جن میں آج ملک و قوم گھرے ہوئے ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی تحریک انصاف موروثی حکمرانوں کی بداعمالیوں سے تنگ آئے ہوئے عوام کے لیے امید کی ایک کرن بن رہی تھی لیکن کپتان صاحب اپنے نظریاتی انتشار اور اپنی غیر متوازن سیاست کی وجہ سے تیزی سے اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں عمران خان نظام کی تبدیلی اور انقلاب کے نعرے تو لگاتے ہیں لیکن انھوں نے عوام کو اپنے انقلاب کا ایک واضح چہرہ اب تک نہیں دکھایا۔ ہمارے 65 سالہ سیاسی اور سماجی سیٹ اپ کو بدلنے کے لیے سب سے پہلے اس سیٹ اپ یعنی Status Quo کو توڑنا ضروری ہے، لیکن خان صاحب اس سیٹ اپ کو توڑے بغیر نظام کو کس طرح تبدیل کریں گے، انقلاب کیسے لائیں گے یہ نسخہ وہ عوام کو نہیں بتا رہے ہیں، اس کے برخلاف وہ نواز شریف اور زرداری سے نجات کو انقلاب بتا رہے ہیں جو ہوا میں تیر چلانے کے علاوہ کچھ نہیں، پھر ان کی ہمدردیاں مذہبی انتہا پسند طاقتوں کے ساتھ بھی نظر آتی ہیں جو تبدیلی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔
آج کے منظرنامے میں ایک بامعنی بامقصد اتحاد صرف Status Quo توڑنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ہی بن سکتا ہے اس کے بعد ہی اس کے آگے بڑھنے اور نظام کی تبدیلی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ موجودہ سیٹ اپ کی مخالف بڑی اور چھوٹی پارٹیوں پر مشتمل ایک ایسا اتحاد بن سکتا ہے بشرطیکہ یہ پارٹیاں نظریاتی انتشار، موقع پرستی سے نکل کر خلوص نیت کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہوجائیں اور ایک واضح مشترکہ اور حصول اقتدار کے بعد اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہوکر موجودہ نظام کی تبدیلی کی طرف مرحلہ وار پیش رفت کریں اور ملک اور قوم کو درپیش سب سے خطرناک مسئلے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک واضح قابل عمل پالیسی اختیار کریں۔ ایسا اتحاد ہی عوام کو 65 سالہ لوٹ مار کے نظام سے نجات دلاسکتا ہے، باقی سارے اتحاد اپنی اصل میں فراڈ کے علاوہ کچھ نہیں۔