اعتدال پسندوں کے لیے اقتدار کے دروازے کھلنے والے ہیں
امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات اپریل مئی 2013میں اہم ترین مرحلے میں داخل ہو جائیں گے۔
KARACHI:
امریکی انتظامیہ نے دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف سی آئی اے اور امریکی فوج کی ٹارگیٹڈ کارروائیوں میں بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کو روکنے کے لیے ایک نئی پالیسی بنا دی ہے لیکن تمام دنیا کے برعکس سی آئی اے کو پاکستان میں ڈرون حملوں کی موجودہ پالیسی جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت امریکی فوج اور خفیہ اداروں کو دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردی کے خلاف آپریشن کرنے کے لیے امریکی صدر کی اجازت درکار ہو گی۔
اس نئی پالیسی کے تحت امریکا مخالف افراد کی ایک لسٹ امریکی صدر کو پیش کی جائے گی اور صدر کی منظوری کے بعد ان افراد کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیے جائیں گے۔ اخبار کے مطابق ڈرون حملوں کے طریقہ کار پر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اختلافات کے باعث پچھلے سال کے آخر میں نئی پالیسی کا عمل تقریباً ڈی ریل ہو گیا تھا تاہم بعد میں سی آئی اے کو ایک سال یا اس سے زائد عرصے کے لیے پاکستان میں ڈرون حملوں کی موجودہ پالیسی جاری رکھنے کے لیے عارضی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ نئی پالیسی حتمی منظوری کے لیے آیندہ چند ہفتوں میں صدر اوباما کو پیش کی جائے گی۔
نئی پالیسی کا اہم ترین مقصد افغانستان سے امریکی انخلا کے وقت القاعدہ اور طالبان کو مزید کمزور کرنا ہے تا کہ وہ امریکا کے لیے مشکلات پیدا نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے وقت میں ڈرون حملوں میں مزید شدت آئے گی۔ امریکا کی کوشش یہ ہے کہ افغانستان کے انخلا سے پہلے ان قوتوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے جو افغانستان میں عدم استحکام پیدا کر سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوج کے انخلا کا تجربہ کامیاب ہوتا ہے یا ناکام۔ماضی میں جس طرح سوویت افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی ، اگر دوبارہ ایسا ہوتا ہے تو اس کے ہولناک اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ پاکستان کی سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے باقی اہم ممالک چین، روس، بھارت اور ایران ہیں۔
امریکا کو اس بات کی خوشی اور فخر ہے کہ وہ اپنے تمام مقاصد حاصل کرتے ہوئے افغانستان سے نکل رہا ہے۔ حال ہی میں سبکدوش ہونے والے امریکی وزیر دفاع نے اپنے دورہ کابل میں کہا کہ القاعدہ اور طالبان کسی کو اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ انخلا کے بعد ہم افغانستان سے لا تعلق ہو جائیں گے۔ ہم افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھیں گے۔یہی بات ایک سے زائد مرتبہ سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن بھی کہہ چکی ہیں۔ وہ افغانستان جو سوویت یونین اور برطانوی ایمپائر کے درمیان بفر اسٹیٹ تھا جس پر قبضے کے لیے سامراج نے سو سال انتظار کیا جہاں پر بیٹھ کر پاکستان اور ایران کی قسمت کے فیصلے اور چین اور روس پر اثر انداز ہونے اور سنٹرل ایشیا کے خوابیدہ قدرتی وسائل پر قبضہ کر کے امریکا اکیسویں صدی پر اپنی بادشاہت یقینی بنائے گا۔
جو بات قابل غور ہے کہ امریکا افغانستان سے انخلا سے قبل مشرقی وسطیٰ مصر، تیونس، یمن وغیرہ میں اپنی من پسند تبدیلیاں کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے نام پر لا چکا ہے۔ اس جمہوری ہتھیار کے ذریعے اس نے عرب خطے میں القاعدہ کو شکست دے دی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے عرب آمریتوں کی شکل میں اس بات کا واضح اور یقینی خطرہ تھا کہ القاعدہ ان ممالک پر قبضہ کر لیتی، یہ بالکل ایسے ہی ہوا ہے کہ کسی سے اس کا شکار آخری لمحوں میں چھین لیا جائے۔ موڈریٹ طبقے کو مصر، تیونس، یمن اور لیبیا میں اقتدار دیا جا چکا ہے۔ یہی کچھ اب افغانستان، ایران اور پاکستان میں ہونے جا رہا ہے۔ ترکی میں موڈریٹ جماعت کا کامیاب تجربہ اس سے بہت پہلے کیا جا چکا ہے۔ اس کے ذریعے ایک تیر میں کئی شکار کیے گئے۔
پہلے تو ترکی میں عوام دوست شوشلسٹ اور سرمایہ دارانہ نظام کی مخالف قوتوں کا خاتمہ کیا گیا تو دوسری طرف ان ریڈیکل اسلامی قوتوں کو بھی ختم کر دیا گیا جو امریکی سامراج کی مخالف تھیں۔ امریکا کو مسلمانوں کے نماز روزے حج سے کوئی خطرہ نہیں، وہ توخود پوری دنیا میں مذہبی حقوق کا چیمپیئن ہے اور انھیں پروموٹ کرتا رہا ہے کیونکہ اسے پتہ ہے کہ یہ مذہب ہی ہے جس کے ذریعے اسلامی دنیا میں اپنے مفادات محفوظ رکھے جا سکتے ہیں۔ بات صرف مذہب کے سیاسی ہتھیار کے استعمال کی ہے کہ اسے آپ کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ مذہب کا سیاسی ہتھیار ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اس کے ذریعے آپ کسی کو کاٹ بھی سکتے ہیں اورکوئی آپ کو بھی کاٹ سکتا ہے جس کا مظاہرہ ہم ایک عرصے سے مسلم دنیا اور پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔
اسی سے یہ حکمت عملی ہے جس میں یورپ اور امریکا میں مسلمانوں کو افرادی قوت کے نام پر کروڑوں کی تعداد میں بسایا گیا ہے۔ آخر کیوں؟ سوچنے کی بات یہ ہے اگر یورپ اور امریکا کو سستی افرادی قوت ہی مطلوب تھی تو یہ عیسائی ملکوں سے بھی دستیاب ہو سکتی تھی۔ یہ پالیسی یورپ نے 1950 کی دہائی میں متعارف کرائی۔ مسلمان ملکوں سے جو لوگ یورپ اور امریکا میں بسے ان میں سے بیشتر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے تھے یعنی غریب نیم خواندہ یا ان پڑھ جس میں ان کا سارا زاد راہ ان کی جسمانی محنت تھی۔ یعنی اس طرح یورپ امریکا نے مسلمانوں کے قدامت پسند طبقات میں اپنا اثر نفوذ پھیلانا شروع کر دیا یعنی اسلامی بند معاشروں کو کھولنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ یہ حکمت عملی 50کی دہائی میں اپنائی گئی کیونکہ آنے والے وقتوں میں دنیا کو گلوبلائز کرنا مقصود تھا' گلوبل معاشرے کا قیام اعتدال پسندی کے بغیر ممکن نہیں۔
اس پس منظر میں امریکا کی آیندہ انتخابات میں متوقع ری پبلیکن خاتون صدارتی امیدوار نے اوباما پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اوباما امریکا کو مسلمانوں کا ملک اوریہاںاسلامی شریعت نافذ کرتے ہوئے توہین مذاہب کو قابل دست اندازی جرم بنانا چاہتا ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا اسی پس منظر میں ہونے جا رہا ہے۔ امریکیوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا کہ افغانستان میں کونسا نظام نافذ ہوتا ہے، امریکا کے لیے تو اسلام کی وہ تعبیر ناقابل معافی ہے جس میں امریکی سامراجی مفادات خطرے میں پڑتے ہوں۔ وہ اسلام جو مسلمانوں کو حقیقی آزادی کا شعور دیتے ہوئے مسلم دنیا کے اپنے قدرتی وسائل تیل وغیرہ کو سامراج کے قبضے سے آزاد کرانے کی سوچ دیتا ہو تا کہ مسلم دنیا کی غربت، جہالت، پسماندگی کا خاتمہ ہو سکے۔
افغانستان کے بعد پاکستان میں بھی یہی کچھ ہونے جا رہا ہے کہ موڈریٹ طبقے کی کنجی سے اقتدار کے بند دروازے ''پاکستانی مذہبی'' قوتوں پر کھلنے والے ہیں... پاکستان میں بھی یہی کچھ ہونے جا رہا ہے جس کا حال ہی میں آغاز ہو چکا ہے...وقت کم مقابلہ سخت ہے کیونکہ پس پردہ نادیدہ ملکی و غیر ملکی قوتیں بہت جلدی میں ہیں... بے چارے ہمارے ''عظیم دانشوروں'' کو ابھی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا... اک ذرا صبر... اک ذرا صبر
... امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات اپریل مئی 2013میں اہم ترین مرحلے میں داخل ہو جائیں گے۔