کاہل اور عیش پرست افراد کا گروہ
عوام کے پاس عقل ہے قابلیت ہے ہمت ہے لیکن یہ بیچارے کیاکریں ان کے پاس قسمت نہیں ہے۔
قسمت باغ میں بینچ پر بیٹھی تھی کہ اتنے میں وہاں عقل آنکلی اور عقل نے قسمت سے کہا میرے لیے جگہ خالی کردو میں تمھارے لیے جگہ خالی کردو آخر کیوں میں تم سے کس لحاظ سے کم ہوں قسمت نے تنک کرکہا بہتر اور عالی مر تبہ وہی سمجھا جاتا ہے، جس کے کارنامے زیادہ ہوں بحث سے کیا فائدہ ، وہ دیکھو سامنے کھیت میں کسان کابیٹا ہل چلا رہا ہے جائو اس میں داخل ہو جائو اگر تم اسے زندگی میں کامیاب کردو تو میں ہمیشہ کے لیے تمھاری تابع ہو جائو گی جب اور جہاں بھی تمھارا سامنا ہوا تو ندامت سے اپنا سر نیچے کر کے تمھارا راستہ چھوڑ دوں گی۔
عقل نے قسمت کی یہ تجویز منظورکر لی اور جا کر کسان کے بیٹے میں داخل ہوگئی۔ جونہی کسان کے بیٹے نے یہ محسوس کیا کہ اس میں عقل سماگئی ہے تو اس نے سوچنا شروع کر دیا کہ آخر میں اپنی تمام زندگی ہل چلانے میں کیوںضایع کروں جب کہ میں اس سے بہتر زندگی بسر کرنے کا اہل ہوں یہ سوچنے کے بعد اس نے گھر کی راہ لی اور اپنے باپ سے جا کر کہا کہ میں باغبانی سیکھنا چاہتا ہوں اس نے اپنے باپ سے کہا کیا کہہ رہے ہو عقل کے پیچھے لٹھ لیے کیوں پھرتے ہو، اتنا کہنے کے بعد کسان کو کچھ خیال آیا اور کہنے لگا خیر اگر تمھارا قطعی فیصلہ ہے تو پھر باغبانی سیکھ لو خدا تمھاری مدد کرے ہاں میری موت کے بعد اس کھیت کا مالک تمھارا بھائی ہو گا۔ اس طرح وینک کے ہاتھ سے کھیت بھی جاتا رہا مگر اسے مطلقاً افسوس نہ ہوا اور سیدھا شاہی محلات کے مالی کے پاس پہنچا اور اس کا شاگرد ہو گیا۔
شاہی مالی اسے معمولی کام کر نے کو دیتا مگر یہ اس سے بہتر اور زیادہ کام کر کے دکھاتا اور کچھ عرصے کے بعداس نے مالی کی ہدایت پر عمل کرنا بھی چھوڑ دیا اور ہر کام اپنی منشاء اور سوچ کے مطابق کرنے لگا۔ یہ دیکھ کر مالی کو غصہ تو بڑا آتا مگر وہ خاموش رہتا کچھ عرصے کے بعد وینک نے شاہی باغ کو اتنا خوش نما اور پیارا بنا دیا کہ بادشاہ اپنے باغ کو دیکھ کر بڑا خوش ہوا اور ہر صبح و شام اپنی ملکہ اور اکلوتی بیٹی کے ہمراہ باغ میں چہل قدمی کر نے آتا۔ شہزادی بڑی حسین تھی مگر افسوس ناک بات یہ تھی کہ بارہ سال کی عمر کے بعد اس نے بولنا چھوڑدیا۔ بادشاہ اپنی اکلوتی بیٹی کے اس دکھ سے بڑا افسر دہ رہتا تھا آخر اس نے اپنی سلطنت میں اعلان کروایا کہ جو شخص شہزادی کا گنگ دور کرے گا اس سے شہزادی کی شادی کی جائے گی۔
اس اعلان کے بعد کئی نوجوان بادشاہ ، خوبصورت اور ذہین شہزادے اور بڑے نامور سپہ سالار بادشاہ کے دربار میں قسمت آزمائی کے لیے آئے۔ مگر جیسے آئے تھے ویسے ہی لوٹ گئے۔ کوئی بھی شہزادی کی زبان کھولنے میں کامیاب نہ ہوا۔کیوں نہ میں کوشش کر کے دیکھوں ؟ کون جانتا ہے کہ شاید شہزادی میرے سوال کا جواب دے دے ۔ وینک یہ سوچ کر دربار میں حاضر ہوا اور اپنا مدعا بیان کیا ۔ بادشاہ اور اس کے مشیر و نیک کے ہمراہ شہزادی کے کمرے میں پہنچے۔ شہزادی کے پاس ایک ننھا کتا تھا۔ جسے وہ بہت پیار کرتی تھی۔ یہ بڑا ہوشیار اور سمجھ دار جانور تھا۔ شہزادی کا معمولی اشارہ بھی سمجھ لیتا تھا۔ کمرے میں جب وینک بادشاہ اور اس کے مشیروں کے ساتھ داخل ہوا تو اس نے ظاہر کیا کہ گویا اس نے شہزادی کو دیکھا ہی نہیں اور فورا ً کتے سے یوں مخاطب ہوا۔ پلو میں نے سنا ہے کہ تم بڑے ہوشیار ہو اور ذہین ہو۔ میں تم سے ایک مشورہ چاہتا ہوں ۔
سنو ایک سفر میں ہم تین ساتھی تھے۔ ایک بت تراش ، دوسرا درزی اور تیسرا میں ۔ ہم ایک گھنے جنگل سے گزر رہے تھے ہمیں رات نے آلیا مجبور اً ہمیں وہیں رات بسر کرنا پڑی۔ درندوں کے خوف سے ہم نے آگ کا بہت بڑا الائو جلایا اور آپس میں طے پایا کہ رات بھر ہر ایک باری باری پہرہ دے۔ پہلی باری بت تراش کی تھی۔ وقت گزارنے کے لیے وہ درخت کے ایک تنے سے نوجوان لڑکی کا مجسمہ تراشنے بیٹھ گیا۔ جب اس نے مجسمہ بنا لیا۔ تو اس نے درزی کو بیدار کیا۔ کیونکہ دوسری باری درزی کی تھی ۔ درزی نے جب لڑکی کا مجسمہ دیکھا تو بت تراش سے پوچھا بھئی اس کا مطلب ؟ جب میں نے دیکھا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرتے وقت گزرنا محال ہے تو میں نے یہ مجسمہ بنانا شروع کر دیا ۔ مجسمہ تیار ہے۔
اگر تم بھی بیٹھے بیٹھے اکتا جائو تو اسے لباس پہنا دینا اس نے درزی سے کہا۔اگر تم بھی آسانی سے اپنا وقت گزارنا چاہتے ہو تو اسے بولنا سکھا دودرزی نے مجھ سے کہا۔ واقعی میںنے لڑکی کے مجسمے کو بولنا سکھا دیا ۔ صبح جب میرے ساتھی اٹھے تو دونوں نے لڑکی پر اپنا حق ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ میں نے تو اسے تراشا ہے۔ بت تراش بولا۔ میں نے اس لباس پہنایا ہے۔ درزی نے کہا۔ کتے نے تو کیا جواب دینا تھا۔ شہزادی فورا بول اٹھی، تم ہی لڑکے کے اصل حق دار ہو۔ بت تراش کا بے جان مجسمہ کس کام کا اور درزی کے لباس کا فائدہ ؟ تم نے اسے زبان اور زندگی دی اس لیے لڑکی پر تمہارا حق مقدم ہے۔ آپ نے اپنا فیصلہ خود ہی سنا دیا۔ وینک نے خوشی سے کہا۔ میں نے آپ کو زبان دی ہے اس لیے آپ میری ہیں۔ یہ سن کربادشاہ کا ایک مشیر بولا۔ جہاں پناہ! تم کو انعام و اکرام سے مالا مال کردیں گے ۔
کیونکہ تم شہزادی کی زبان کھولنے میں کامیاب رہے ہو۔ چونکہ تم نیچ ذات سے تعلق رکھتے ہو۔ اس لیے شہزادی تمہاری بیوی نہیں ہو سکتی۔ مگر وینک نے مشیران کی باتوں کی طرف توجہ ہی نہ دی۔ ہاں تم نیچ ذات سے تعلق رکھتے ہو۔ ما بدولت اپنی بیٹی کی شادی تم سے نہیں کر سکتے ۔ اس کی بجائے تمہیں بے اندازہ انعام دیا جائے گا ۔ بادشاہ نے کہا۔ وینک نے انعام کی طرف کوئی دھیان نہ دیا اور کہنے لگا۔ بادشاہ سلامت نے بغیر کسی شرط کے یہ وعدہ کیا تھا جو کوئی بھی ان کی بیٹی کی زبان کھولے گا ، اسی شخص سے شہزادی کی شادی ہوگی۔ بادشاہ کے الفاظ قانون کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اگر بادشاہ سلامت یہ چاہتے ہیں کہ ان کے قانون کو دوسرے بھی تسلیم کریں تو سب سے پہلے انھیں اپنے قانون کو تسلیم کر تے ہوئے اس پر عمل کرنا چاہیے اس لیے اصولا جہاں پناہ کو اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے ضرور کرنی چاہیے۔ اس بات پر دوسرا مشیر چلایا۔
جو شخص یہ کہتا ہے کہ بادشاہ کو یہ ضرور کر نا چاہیے۔ وہ بادشاہ سلامت کی بے حرمتی کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور وہ اس قابل ہے کہ اس کی گردن فورا اڑا دی جائے۔ ٹھیک ہے مجرم کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ بادشاہ نے حکم دے دیا۔ وینک شہر کے باہر قتل کے لیے لے جایا گیا۔ جب وینک متقل پہنچا ، تو قسمت کھڑی انتظارکر رہی تھی۔ اس نے آہستہ سے عقل سے کہا۔ دیکھ لیا نا ! تم وینک کو کہاں تک لے آئی ہو تمہاری مہربانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب اس کا سر اڑایا جا رہا ہے۔ باہر نکلو اور مجھے آنے دو ۔ جونہی قسمت وینک میں داخل ہوئی تو جلاد کی تلوار وینک کی گردن کے بجائے لکڑی پر پڑی اور تلوار کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ ایسا معلوم ہو تاتھا کہ تلوارکو پکڑ کر کسی نے دو ٹکڑے کر دیے ہیں ۔
ابھی جلاد کی دوسری تلوار لائی جا رہی تھی کہ شہر کی سمت سے ایک شاہی اعلانچی طوطی بجاتا اور سفید جھنڈی ہلاتا سر پٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے پر نمودار ہوا۔ اس کے پیچھے شاہی گاڑی گرد اڑاتی ہوئی آرہی تھی۔ یکایک اس تبدیلی کی وجہ یہ تھی شہزادی نے بادشاہ کو سمجھایا کہ وینک سچ کہتا ہے کہ بادشاہ کو وعدہ خلافی نہیں کر نی چاہیے۔ اگر وینک نیچ ذات کا ہے تو اسے وہ بڑی آسانی سے شہزادے کا اعزاز بخش سکتا ہے۔ بادشاہ نے شہزادی کی بات تسلیم کر لی۔ اور حکم دیا کہ وینک کو واپس محل میں لایا جائے اور اسے شہزادے کا اعزاز دیا جائے ۔ اور اسی وقت خاص شاہی گاڑی وینک کو قتل گاہ سے لانے کے لیے روانہ کی گئی۔ وینک کی بجائے بادشاہ کے مشیروں کو قتل کر دیا گیا جنہوں نے وینک کی گردن اڑانے کا مشورہ دیا تھا۔ چند دن کے بعد اسی گاڑی میں شہزادی کی شادی کا جلوس نکلا۔
عقل بھی تماشائیوں میں کھڑی جلوس دیکھ رہی تھی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ قسمت اسے کہیں دیکھ نہ لے۔ اس نے فورا ً اپنا سر جھکا لیا اور وہاں سے ہٹ گئی۔ جیسے کہ اس پر یخ پانی پڑ گیا ہو۔پاکستان میں چند خاندان ، جاگیردار ، سرمایہ دار، اشرافیہ ایسی قسمت لے کر پیدا ہوئے ہیں کہ عقل حیران و پریشان ہے یہ بے کارکاہل اور عیش پرست افراد کا گروہ ہے ان کا اصول ہے کہ دوسروں کو لوٹو ورنہ تم خود لٹ جائو گے ان افراد کے پاس روپوں پیسوں کے ڈھیر کے ڈھیر ہیں یہ افراد نہ تو ہاتھ ہلاتے ہیں اور نہ پائوں انھیں محنت و مشقت سے نفرت ہے ان افراد کی اکثریت نے آزادی سے پہلے انگریزوں کی چمچہ گیری اور ان کی خدمت کر کے بڑی بڑی جاگیریں تحفے میں حاصل کیں اور پھر پاکستان بننے کے بعد یہ غلام ہمارے آقا بن گئے یہ کچھ نہیں کرتے پھر بھی سب کچھ کرتے ہیں واہ رے قسمت واہ۔ جب کہ دوسری جانب ملک کے اصل مالک عوام ہیں جن کی زندگی کا واحد مقصد یہ رہ گیا ہے کہ وہ محنت و مشقت سے ان لوگوں کی عیش و عشرت کے سامان فراہم کر تے رہیں ۔ عوام کے پاس عقل ہے قابلیت ہے ہمت ہے لیکن یہ بیچارے کیاکریں ان کے پاس قسمت نہیں ہے۔
عقل نے قسمت کی یہ تجویز منظورکر لی اور جا کر کسان کے بیٹے میں داخل ہوگئی۔ جونہی کسان کے بیٹے نے یہ محسوس کیا کہ اس میں عقل سماگئی ہے تو اس نے سوچنا شروع کر دیا کہ آخر میں اپنی تمام زندگی ہل چلانے میں کیوںضایع کروں جب کہ میں اس سے بہتر زندگی بسر کرنے کا اہل ہوں یہ سوچنے کے بعد اس نے گھر کی راہ لی اور اپنے باپ سے جا کر کہا کہ میں باغبانی سیکھنا چاہتا ہوں اس نے اپنے باپ سے کہا کیا کہہ رہے ہو عقل کے پیچھے لٹھ لیے کیوں پھرتے ہو، اتنا کہنے کے بعد کسان کو کچھ خیال آیا اور کہنے لگا خیر اگر تمھارا قطعی فیصلہ ہے تو پھر باغبانی سیکھ لو خدا تمھاری مدد کرے ہاں میری موت کے بعد اس کھیت کا مالک تمھارا بھائی ہو گا۔ اس طرح وینک کے ہاتھ سے کھیت بھی جاتا رہا مگر اسے مطلقاً افسوس نہ ہوا اور سیدھا شاہی محلات کے مالی کے پاس پہنچا اور اس کا شاگرد ہو گیا۔
شاہی مالی اسے معمولی کام کر نے کو دیتا مگر یہ اس سے بہتر اور زیادہ کام کر کے دکھاتا اور کچھ عرصے کے بعداس نے مالی کی ہدایت پر عمل کرنا بھی چھوڑ دیا اور ہر کام اپنی منشاء اور سوچ کے مطابق کرنے لگا۔ یہ دیکھ کر مالی کو غصہ تو بڑا آتا مگر وہ خاموش رہتا کچھ عرصے کے بعد وینک نے شاہی باغ کو اتنا خوش نما اور پیارا بنا دیا کہ بادشاہ اپنے باغ کو دیکھ کر بڑا خوش ہوا اور ہر صبح و شام اپنی ملکہ اور اکلوتی بیٹی کے ہمراہ باغ میں چہل قدمی کر نے آتا۔ شہزادی بڑی حسین تھی مگر افسوس ناک بات یہ تھی کہ بارہ سال کی عمر کے بعد اس نے بولنا چھوڑدیا۔ بادشاہ اپنی اکلوتی بیٹی کے اس دکھ سے بڑا افسر دہ رہتا تھا آخر اس نے اپنی سلطنت میں اعلان کروایا کہ جو شخص شہزادی کا گنگ دور کرے گا اس سے شہزادی کی شادی کی جائے گی۔
اس اعلان کے بعد کئی نوجوان بادشاہ ، خوبصورت اور ذہین شہزادے اور بڑے نامور سپہ سالار بادشاہ کے دربار میں قسمت آزمائی کے لیے آئے۔ مگر جیسے آئے تھے ویسے ہی لوٹ گئے۔ کوئی بھی شہزادی کی زبان کھولنے میں کامیاب نہ ہوا۔کیوں نہ میں کوشش کر کے دیکھوں ؟ کون جانتا ہے کہ شاید شہزادی میرے سوال کا جواب دے دے ۔ وینک یہ سوچ کر دربار میں حاضر ہوا اور اپنا مدعا بیان کیا ۔ بادشاہ اور اس کے مشیر و نیک کے ہمراہ شہزادی کے کمرے میں پہنچے۔ شہزادی کے پاس ایک ننھا کتا تھا۔ جسے وہ بہت پیار کرتی تھی۔ یہ بڑا ہوشیار اور سمجھ دار جانور تھا۔ شہزادی کا معمولی اشارہ بھی سمجھ لیتا تھا۔ کمرے میں جب وینک بادشاہ اور اس کے مشیروں کے ساتھ داخل ہوا تو اس نے ظاہر کیا کہ گویا اس نے شہزادی کو دیکھا ہی نہیں اور فورا ً کتے سے یوں مخاطب ہوا۔ پلو میں نے سنا ہے کہ تم بڑے ہوشیار ہو اور ذہین ہو۔ میں تم سے ایک مشورہ چاہتا ہوں ۔
سنو ایک سفر میں ہم تین ساتھی تھے۔ ایک بت تراش ، دوسرا درزی اور تیسرا میں ۔ ہم ایک گھنے جنگل سے گزر رہے تھے ہمیں رات نے آلیا مجبور اً ہمیں وہیں رات بسر کرنا پڑی۔ درندوں کے خوف سے ہم نے آگ کا بہت بڑا الائو جلایا اور آپس میں طے پایا کہ رات بھر ہر ایک باری باری پہرہ دے۔ پہلی باری بت تراش کی تھی۔ وقت گزارنے کے لیے وہ درخت کے ایک تنے سے نوجوان لڑکی کا مجسمہ تراشنے بیٹھ گیا۔ جب اس نے مجسمہ بنا لیا۔ تو اس نے درزی کو بیدار کیا۔ کیونکہ دوسری باری درزی کی تھی ۔ درزی نے جب لڑکی کا مجسمہ دیکھا تو بت تراش سے پوچھا بھئی اس کا مطلب ؟ جب میں نے دیکھا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرتے وقت گزرنا محال ہے تو میں نے یہ مجسمہ بنانا شروع کر دیا ۔ مجسمہ تیار ہے۔
اگر تم بھی بیٹھے بیٹھے اکتا جائو تو اسے لباس پہنا دینا اس نے درزی سے کہا۔اگر تم بھی آسانی سے اپنا وقت گزارنا چاہتے ہو تو اسے بولنا سکھا دودرزی نے مجھ سے کہا۔ واقعی میںنے لڑکی کے مجسمے کو بولنا سکھا دیا ۔ صبح جب میرے ساتھی اٹھے تو دونوں نے لڑکی پر اپنا حق ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ میں نے تو اسے تراشا ہے۔ بت تراش بولا۔ میں نے اس لباس پہنایا ہے۔ درزی نے کہا۔ کتے نے تو کیا جواب دینا تھا۔ شہزادی فورا بول اٹھی، تم ہی لڑکے کے اصل حق دار ہو۔ بت تراش کا بے جان مجسمہ کس کام کا اور درزی کے لباس کا فائدہ ؟ تم نے اسے زبان اور زندگی دی اس لیے لڑکی پر تمہارا حق مقدم ہے۔ آپ نے اپنا فیصلہ خود ہی سنا دیا۔ وینک نے خوشی سے کہا۔ میں نے آپ کو زبان دی ہے اس لیے آپ میری ہیں۔ یہ سن کربادشاہ کا ایک مشیر بولا۔ جہاں پناہ! تم کو انعام و اکرام سے مالا مال کردیں گے ۔
کیونکہ تم شہزادی کی زبان کھولنے میں کامیاب رہے ہو۔ چونکہ تم نیچ ذات سے تعلق رکھتے ہو۔ اس لیے شہزادی تمہاری بیوی نہیں ہو سکتی۔ مگر وینک نے مشیران کی باتوں کی طرف توجہ ہی نہ دی۔ ہاں تم نیچ ذات سے تعلق رکھتے ہو۔ ما بدولت اپنی بیٹی کی شادی تم سے نہیں کر سکتے ۔ اس کی بجائے تمہیں بے اندازہ انعام دیا جائے گا ۔ بادشاہ نے کہا۔ وینک نے انعام کی طرف کوئی دھیان نہ دیا اور کہنے لگا۔ بادشاہ سلامت نے بغیر کسی شرط کے یہ وعدہ کیا تھا جو کوئی بھی ان کی بیٹی کی زبان کھولے گا ، اسی شخص سے شہزادی کی شادی ہوگی۔ بادشاہ کے الفاظ قانون کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اگر بادشاہ سلامت یہ چاہتے ہیں کہ ان کے قانون کو دوسرے بھی تسلیم کریں تو سب سے پہلے انھیں اپنے قانون کو تسلیم کر تے ہوئے اس پر عمل کرنا چاہیے اس لیے اصولا جہاں پناہ کو اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے ضرور کرنی چاہیے۔ اس بات پر دوسرا مشیر چلایا۔
جو شخص یہ کہتا ہے کہ بادشاہ کو یہ ضرور کر نا چاہیے۔ وہ بادشاہ سلامت کی بے حرمتی کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور وہ اس قابل ہے کہ اس کی گردن فورا اڑا دی جائے۔ ٹھیک ہے مجرم کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ بادشاہ نے حکم دے دیا۔ وینک شہر کے باہر قتل کے لیے لے جایا گیا۔ جب وینک متقل پہنچا ، تو قسمت کھڑی انتظارکر رہی تھی۔ اس نے آہستہ سے عقل سے کہا۔ دیکھ لیا نا ! تم وینک کو کہاں تک لے آئی ہو تمہاری مہربانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب اس کا سر اڑایا جا رہا ہے۔ باہر نکلو اور مجھے آنے دو ۔ جونہی قسمت وینک میں داخل ہوئی تو جلاد کی تلوار وینک کی گردن کے بجائے لکڑی پر پڑی اور تلوار کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ ایسا معلوم ہو تاتھا کہ تلوارکو پکڑ کر کسی نے دو ٹکڑے کر دیے ہیں ۔
ابھی جلاد کی دوسری تلوار لائی جا رہی تھی کہ شہر کی سمت سے ایک شاہی اعلانچی طوطی بجاتا اور سفید جھنڈی ہلاتا سر پٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے پر نمودار ہوا۔ اس کے پیچھے شاہی گاڑی گرد اڑاتی ہوئی آرہی تھی۔ یکایک اس تبدیلی کی وجہ یہ تھی شہزادی نے بادشاہ کو سمجھایا کہ وینک سچ کہتا ہے کہ بادشاہ کو وعدہ خلافی نہیں کر نی چاہیے۔ اگر وینک نیچ ذات کا ہے تو اسے وہ بڑی آسانی سے شہزادے کا اعزاز بخش سکتا ہے۔ بادشاہ نے شہزادی کی بات تسلیم کر لی۔ اور حکم دیا کہ وینک کو واپس محل میں لایا جائے اور اسے شہزادے کا اعزاز دیا جائے ۔ اور اسی وقت خاص شاہی گاڑی وینک کو قتل گاہ سے لانے کے لیے روانہ کی گئی۔ وینک کی بجائے بادشاہ کے مشیروں کو قتل کر دیا گیا جنہوں نے وینک کی گردن اڑانے کا مشورہ دیا تھا۔ چند دن کے بعد اسی گاڑی میں شہزادی کی شادی کا جلوس نکلا۔
عقل بھی تماشائیوں میں کھڑی جلوس دیکھ رہی تھی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ قسمت اسے کہیں دیکھ نہ لے۔ اس نے فورا ً اپنا سر جھکا لیا اور وہاں سے ہٹ گئی۔ جیسے کہ اس پر یخ پانی پڑ گیا ہو۔پاکستان میں چند خاندان ، جاگیردار ، سرمایہ دار، اشرافیہ ایسی قسمت لے کر پیدا ہوئے ہیں کہ عقل حیران و پریشان ہے یہ بے کارکاہل اور عیش پرست افراد کا گروہ ہے ان کا اصول ہے کہ دوسروں کو لوٹو ورنہ تم خود لٹ جائو گے ان افراد کے پاس روپوں پیسوں کے ڈھیر کے ڈھیر ہیں یہ افراد نہ تو ہاتھ ہلاتے ہیں اور نہ پائوں انھیں محنت و مشقت سے نفرت ہے ان افراد کی اکثریت نے آزادی سے پہلے انگریزوں کی چمچہ گیری اور ان کی خدمت کر کے بڑی بڑی جاگیریں تحفے میں حاصل کیں اور پھر پاکستان بننے کے بعد یہ غلام ہمارے آقا بن گئے یہ کچھ نہیں کرتے پھر بھی سب کچھ کرتے ہیں واہ رے قسمت واہ۔ جب کہ دوسری جانب ملک کے اصل مالک عوام ہیں جن کی زندگی کا واحد مقصد یہ رہ گیا ہے کہ وہ محنت و مشقت سے ان لوگوں کی عیش و عشرت کے سامان فراہم کر تے رہیں ۔ عوام کے پاس عقل ہے قابلیت ہے ہمت ہے لیکن یہ بیچارے کیاکریں ان کے پاس قسمت نہیں ہے۔